کیا دعائوں سے بھی جنگ جیتی جاسکتی ہے ؟

دعا

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

دو تین برس قبل جب میں رمضان المبارک میں صحافی دوستوں کے ساتھ کشمیر کی وادی میں مقیم تھا تو ایک حیرت انگیز چیز کا مشاہدہ کیا۔میں نے دیکھا کہ نماز تراویح کے دوران وقفے میں جہاں زور زور سے دعائیں پڑھی جاتی ہیں وہیں نماز کے اختتام کے بعد بآواز بلند ذکر و فکر کا سلسلہ نماز فجر تک دراز رہتا ہے ۔بآواز بلند دعائوں کے ورد سے نہ صرف پوری وادی گونجتی ہے بلکہ پورے علاقے پر مسحور کن کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اوراد و وظائف میں نہ تو لائوڈ اسپیکر کا استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی جدید آلات کا لیکن اثر یہ ہے کہ پوری مسجد آباد رہتی ہے۔
لاک ڈائون کے دوران جہاں مسلمانوں نے لائوڈاسپیکر پر اذان کا سلسلہ جاری رکھا ہے وہیں بھارت کی مختلف ریاستوں میںاس پر بھی پابندی عائد کی جارہی ہے۔یقیناً اللہ رب العزت کا اپنا نظام ہے اور وہ دشمنوں سے بھی اپنے کام کروا لیتا ہے آخر لائوڈ اسپیکر پر پابندی کے ذریعہ وہ مومنین کی کس طرف رہنمائی کررہا ہےاس کا علم تو رب کائنات کو ہی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ’’یا ساریہ الجبل ‘‘والے واقعہ کو یاد کریں تو محسوس ہوگا کہ اب دوبارہ ان قوتوں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے جو کبھی امت کا خاصہ ہوا کرتی تھیں۔
یہ ہم تمام کے علم میں ہے کہ دعائیں مستجاب الدعوات ہیں۔اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ہر ہر موقع کے لئےدعائیں سکھائی ہیں لیکن ان دعائوں کی قبولیت کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ یہ کہ ہم مشتبہ کھانوں سے پرہیز کریں۔ معجم طبرانی اوسط میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓنے نبی کریم ﷺ سے عرض کیاکہ اللہ کے رسولﷺ ! میں مستجاب الدعوات کیسے بن سکتا ہوں؟تو آپﷺ نے فرمایا ’’ اپنا کھانا پینا مشتبہات سے پاک رکھو تو مستجاب الدعوات بن جاؤگے۔‘‘
کرونا وائرس کے تعلق سے طبی ماہرین نے یہی کہا ہے کہ وہ immune systemپر اثر انداز ہوتا ہے۔اور immune system کو قدرتی غذائوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ منھ دھونے،غرارہ کرنے یا حلق کو باہری جراثیم سے پاک رکھ کر مضبوط کیا جاسکتا ہے۔جب ہم بآواز بلند تلاوت کرتے یا ا ورادو وظائف پڑھتے ہیں تو نہ صرف immune system کو بہتر کرتے ہیں بلکہ آس پاس کی فضا کو بھی روحانیت سے بھر دیتے ہیں۔جن لوگوں نے ’’آواز کے اثرات‘‘ پر کام کیا ہے وہ ’’آواز‘‘ کے زیر و بم کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ دراصل ’’آواز ‘‘پر قدرت حاصل کرنے کے بعد ہی صیہونی مقتدرہ نے ’’آواز‘‘کو ڈھال بناکر قادر مطلق کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ میدان جنگ میں ’’اللہ اکبر‘‘کی صدا کیوں بلند کی جاتی ہے جبکہ کفار و مشرکین اپنے خدائوں کا نام لے کر ہیبت طاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟علم دین سے عدم واقفیت نے مسلمانوں کو محض جذباتی طور پر تو دین کا پیروکار بنا رکھا ہے لیکن وہ اس روح سے بے بہرہ ہیں جس کی تعلیم سرکار دو عالم ﷺ نےہمیں دی تھی۔
میرے بزرگ دوست جناب عمر فراہی صاحب نے بھٹکل کے حوالہ سے کہا کہ وہاں بھی رمضان المبارک میں رات بھر ذکر و فکر کا سلسلہ رہتا ہےاور بآواز بلند دعائوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تو مجھے کوہساروں کے وہ جبہ و دستار والے یاد آگئے جنہوں نے ظاہری اسباب کے ساتھ دعائوں کے ذریعہ بھی سپر پاور پر ہیبت طاری کررکھی تھی اور بالآخر اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹنے میں ہی عافیت محسوس کرنے لگے۔
لاک ڈائون نے ایک بڑا ہی خوبصورت موقع یہ عنایت کیا ہے کہ ہم نے گھروں کو مسجد میں تبدیل کردیا ہے اور مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی نمازوں کی ادائیگی میں مشغول نظر آرہے ہیں ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی وہ موقع ہے جب ہم دعائوں کو اپنے گھر کی زینت بنا لیں اور رات کے تیسرے پہر بآواز بلند ذکر و فکر کا اہتمام کریں جو کفر پر ہیبت طاری کرسکے۔یاد رکھیں کہ صیہونی مقتدرہ نے جسمانی ،ذہنی کے ساتھ آپ کے روحانی نظام پر حملہ کیا ہے۔معاشی مندی سے جہاں ہر فردذہنی پریشانی میں مبتلا ہے وہیں لاک ڈائون کی وجہ سے گھر بیٹھے جسمانی طور پربھی مفلوج ہوتے جارہے ہیں۔جسم و ذہن کا خلجان روح پر اثر انداز ہورہا ہے اور لوگ ان خیالات کو جگہ دے رہے ہیں جو ارتداد کی راہ دکھاتا ہے۔بعض میڈیا رپورٹوں کی روشنی میں لاک ڈائون کے دوران مرتد ہونے والوں کی فہرست دیکھیں تو دل خون کے آنسو روئے گا۔ایسے میں ہماری حکمت عملی کا ایک حصہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ذکر وفکر کا ماحول بنائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگیں ظاہری اسباب ووسائل سے ہی جیتی جاتی ہیں لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ خاص کرم ہے کہ اللہ رب العزت ظاہری ساز و سامان کے ساتھ فرشتوں کے ذریعہ بھی مدد فرماتا ہے۔لیکن فرشتے اسی وقت آتے ہیں جب ہم نے فرشتوں کے لئے جگہ بنائی ہو ،اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں شکست اسی وقت نصیب ہوئی ہے جب ظاہری ساز و سامان کےگھمنڈ میں ہم نے دعائوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔لیکن جب ہم نے دعائوں کو بھی ہتھیار کا حصہ بنایا تو کامیابی ایسے قدم چومنے لگی جیسے وہ ہمارا ہی انتظار کررہی ہو۔ یہ یاد رکھیں کہ دعائیں و ہ التجا ہوتی ہے جو قادر مطلق کو مائل بہ کرم کرتی ہے۔ شکستہ آنکھیں ہی نگاہ آئینہ ساز میں عزیز تر ہوتی ہیں اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *