ہندوستانی میڈیا کی زہر افشانی، کیا پایا کیا کھویا ؟

Godi Media The enemy of Truth

صدیقی محمد اویس

کیا موجودہ دور میں ہندوستانی میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے ؟ کیا میڈیا پوری آزادی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے ؟
سماجی سائنس اور صحافت کے طلباء کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ میڈیا جمہوریت میں ایک غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ہمارے ملک میں میڈیا کی حالت کافی تشویشناک ہے۔ اور یہ بات ہوا میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ پریس فریڈم انڈیکس ہر سال ایک سروے کرتا ہے جس میں دنیا بھر کے ۱۸۰ ممالک شامل ہیں، پی ایف آئی سروے کرکے ایک رپورٹ پیش کرتا ہے جس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس ملک میں میڈیا کو کتنی آزادی حاصل ہے۔ ۲۰۱۶ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان ۱۸۰ ممالک میں سے ۱۳۳ ویں مقام پر تھا اور پھر یہ اعداد و شمار سال بہ سال اور کم ہوتا گیا جو کہ ۲۰۱۷ میں ۱۳۶ واں مقام، ۲۰۱۸ میں ۱۳۸ اور ۲۰۱۹ میں یہ گھٹ کر ۱۴۰ ویں مقام پر آ پہنچا ہے۔ جو کہ بہت ہی شرمناک بات ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ہندوستان میں میڈیا کو اپنی بات اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اور اپنے فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی نہیں حاصل ہے ۔
ایسا اسی لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کبھی کسی کی پیروی یا طرف داری نہیں کیا کرتا تھا۔
لیکن کچھ عرصے سے تقریباً تمام ہی میڈیا چینلز کا رویہ تبدیل ہو چکا ہے سوائے کچھ کے ۔ میڈیا کو اصل میں جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جاتا ہے کہ میڈیا ملک کی عوام کی تکالیف و مسائل کو اٹھائے اور عوام کی آواز بنے، میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت جب بھی کوئی ایسا قانون یا پالیسی بنائے جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہو تو اسکے خلاف آواز اٹھائے اپنے چینلز کے ذریعے ۔ میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان ایک کڑی ہے ۔ جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو مسلسل اٹھائے اور جب تک ان مسائل کو حکومت کی جانب سے حل نہ کیا جائے تب تک اپنے محاذ پر ڈٹی رہےاور میڈیا کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرے اور جواب بھی طلب کرے ۔
لیکن کیا آج ایسا ہو رہا ہے ؟نہیں، ہرگز نہیں!
آج تو کئی میڈیا چینلز کسی مسئلے کے ضمن میں اپنے چینلز پر ایسی خبریں چلاتے ہیں کہ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہوں یا کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص نظریے کو فروغ دے رہے ہوں وغیرہ ۔ اور آج کے میڈیا نے سچائی اور سماجی مسائل سے بھی کہیں نہ کہیں کنارہ کشی کر رکھی ہے ۔
آج کل کئی میڈیا چینلز بے مطلب کے مسائل پر بحث کر رہے ہیں تو کئی نیوز اینکر ایسے ہیں جنہیں اپنے ملک سے زیادہ دیگر ممالک کے مسائل میں دلچسپی ہے ۔ ان تمام چیزوں سے ہٹ کر کچھ چینلز اور کچھ صحافی ہیں جو اصل مسئلوں پر بات کرتے ہیں اور حکومت کی غلط پالیسیوں وغیرہ کے خلاف لکھتے ہیں آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں دبایا جاتا ہے جیسا کہ گوری لنکیش کے ساتھ ہوا جو کہ ایک اعلی پائے کی صحافی تھیں ۔
علاوہ ازیں ہم تمام جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے ملک بھر میں عالمی وبا کورونا وائرس کے چلتے مکمل لاک ڈاؤن نافظ ہے ۔ جو کہ ایک غیر منصوبہ بند عمل ہے جس میں غریب اور مزدوروں کا بالکل خیال نہ کیا گیا۔ ایسے حالات کے سبب جو غریبوں اور مزدوروں کا گزارا بے حد مشکل ہوگیا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ کما کر بھی بہت مشکل سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتے تھے ۔ لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس اناج اور دوسرے ضرورت کی اشیاء مہیا نہیں ہے۔ تو ایسے میں میڈیا کو چاہئے کہ وہ ان غریبوں کی پریشانیوں کو حکومت تک پہنچائیں اور حکومت سے جواب طلب کریں کی آخر کب تک غریب عوام کو بھوک مری جیسے مسائل سے دوچار ہونا ہوگا ؟
آج ہندوستانی میڈیا ہر معاملے کو اسلاموفوبیا، مسلم مخالف، فرقہ وارانہ اور مذہبی رخ دینے کا کام کر رہا ہے ۔ یہ ایک شرمناک عمل ہے جو ہندوستانی میڈیا موجودہ دور میں کر رہا ہے ۔ اپنی ان تمام حرکتوں سے میڈیا آج عوام کے مابین اعتماد کھو چکا ہے ۔میڈیا نے عوام کے مابین اعتماد کھویا اور کچھ نہیں پایا !
تمام حالات کے مدنظر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ میڈیا کی آزادی پوری طرح خطرے میں ہے کیونکہ اب بھی کچھ چینلز اور کچھ صحافی ہیں جو پوری آزادی کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دے رہے ہیں ۔ اسکا ایک حل یہ ہی ہو سکتا ہے میڈیا خود اپنے حالات کا جائزہ لے اور خود کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہو۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *