Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کورونا کے بعد کی دنیا

by | May 1, 2020

World after CORONA

جب سے کورونا وائرس نے دہشت پھیلائی ہے، کروڑوں بلکہ اربوں ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ خدشات ہیں کہ محض پیدا نہیں ہو رہے بلکہ خطرناک رفتار سے پنپ بھی رہے ہیں کورونا وائرس کے اثرات غیر معمولی حد تک دور رس ہیں۔ یہ اثرات نادیدہ ہیں جو تیزی سے زور پکڑ رہے ہیں۔ یہ وائرس انتہائی مضبوط ہے، تیزی سے متحرک ہوتا ہے، علامات کے بغیر متاثر کرتا ہے اور پھر جب تک تدارک کا سوچیے اور کچھ کیجیے تب تک یہ جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے۔
یہ وائرس کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے، اس لیے مشکوک یا مشتبہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اب تک اس وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اچھی خاصی ہیں۔ یہ پوری دنیا کو مستقل نوعیت کے دردِ سر سے دوچار کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدحواسی بہت زیادہ ہے۔ ایک دنیا ہے کہ پریشانی کے دائرے سے نکل نہیں پارہی۔ ایسا لگتا ہے کہ بدترین فلو کے مقابلے میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں بیس سے تیس گنا ہوں گی۔
ایک زمانے سے ہم مصنوعی ذہانت کا شور سنتے آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں شور زیادہ تھا اور کام کی بات بہت کم۔ کورونا وائرس کہاں سے ابھرے گا، کہاں پروان چڑھے گا اور کس طور پھیلے گا، اس حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنے میں مصنوعی ذہانت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
دنیا بھر میں لوگ اب بایو ٹیک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس شعبے نے اب تک تو ایسا کچھ خاص نہیں کیا، جس پر غیر معمولی حد تک فخر کیا جاسکے۔ اب بڑا موقع موجود ہے۔ بایو ٹیک کے ماہرین کو کورونا وائرس اور ایسی ہی دیگر بیماریوں اور وباؤں کی روک تھام کے حوالے سے کچھ کرکے دکھانا ہے۔ ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اس چیلنج سے بطریقِ احسن نمٹ پانے کی صورت میں معاملات اس کے حق میں ہوسکیں گے۔ بایو ٹیک کے شعبے کو سب سے پہلے تو کورونا وائرس کی موثر، قابل اعتماد ویکسین تیار کرنی ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے کی صورت ہی میں اُس کے مزید پنپنے کی راہ ہموار ہوگی۔
ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کورونا وائرس کا نقطۂ عروج کیا ہوگا۔ بہت سے معاملات اب تک سمجھ میں نہیں آسکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عمومیت تبدیل ہونے والی ہے یعنی نیا ’’نارمل‘‘ سامنے آنے والا ہے۔ دنیا کو اب کورونا وائرس سے پہلے اور بعد کی کہا جائے گا۔ مستقبل میں ایسا بہت کچھ ہوگا، جو پہلے کبھی نہیں تھا اور جو کچھ اس وقت موجود ہے اس کا بڑا حصہ جاتا رہے گا۔ زیادہ پُرامید ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کچھ مدت کے بعد پھر نئے سوالوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ سوال اربوں ذہنوں میں کلبلا رہا ہے کہ ’’نیا نارمل‘‘ کیا ہوگا اور ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ ہمارے لیے نیا نارمل ہوگا، اُس کی شکل کیا ہوگی۔
سیاحت دنیا بھر میں بڑے معاشی شعبوں میں سے ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے سیاحت کے شعبے کو خطرناک حد تک متاثر کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سمندری جہاز پر دنیا کی سیر اب ماضی کی یاد بن کر رہ جائے گی۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایئر لائنز کا کیا ہوگا۔ اکیسویں صدی میں عالمگیریت کی سب سے بڑی لائف لائن ایئر لائنز ہیں۔ فضائی سفر ہی نے کرۂ ارض کو گاؤں کی سی شکل دے دی ہے، فاصلے یوں مٹادیے ہیں کہ بہت سی ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔
فضائی سفر میں لوگ کئی گھنٹوں تک ایک دوسرے سے جڑ کر، بلکہ ایک دوسرے میں ٹھنس کر سفر کرتے ہیں۔ کروز شپ میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے دور رہتے ہوئے سفر کریں۔ مشکل یہ ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ہر مریض میں پہلے مرحلے میں ظاہر نہیں ہوتیں۔ کوئی ایک مسافر بھی بہت سوں کو اس وائرس کے دام میں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ فروری کے آخر میں آسٹریا اور اٹلی کے تفریحی مقامات پر ایسا ہی ہوا تھا۔ اسکیئنگ سیزن شروع ہونے پر بڑی تعداد میں سیاح آئے اور کورونا وائرس کے تباہ کن پھیلاؤ کا سبب بن گئے۔ ۲۰۰۳ء میں چین سے ’’سارس‘‘ وائرس ابھرا تھا۔ تب ایک ارب ۶۵ کروڑ افراد نے فضائی سفر کیا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں فضائی سفر کرنے والوں کی تعداد ۴ ارب ۲۰ کروڑ تک تھی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا یا کوئی دوسرا وائرس فضائی سفر کرنے والوں کے ذریعے کتنی تیزی سے اور کتنے بڑے پیمانے پر پھیل سکتا ہے۔
۱۔ کیا بڑے اجتماعات اور اجتماعات والے کاروبار ختم ہونے کو ہیں؟ شراب خانے، ریسٹورنٹ، کیفے، ڈسکوز، سنیما گھر ماضی کا قصہ ہوکر رہ جائیں گے؟
۲۔ کیا گھر بیٹھے علم حاصل کرنے کا رجحان اِتنی تیزی سے پروان چڑھے گا کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ڈھانچے تبدیل ہوجائیں گے؟ کیا اینٹ اور سیمنٹ سے بنے کیمپس خواب و خیال ہوکر رہ جائیں گے؟
۳۔ خوراک اور پھل کس طور محفوظ بنائے جاسکیں گے؟ کھانے پینے کی اشیا اور پھل یا پھلوں کے جُوس سے بھی تو کوئی بھی وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ اس وقت بھی اشیائے خور و نوش اور پھل کس حد تک محفوظ ہیں؟
۴۔ کیا اب غیر قانونی تارکین وطن کا سلسلہ رک جائے گا؟
۵۔ اس وقت دنیا ہنگامی کیفیت سے دوچار ہے۔ کورونا وائرس نے حقیقی عالمگیر وبا کی صورت اختیار کی ہے اور اس کے نتیجے میں شدید بدحواسی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ ایسے میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے؟ اور اگر دہشت گردی ہوئی تو ریسپانس کس حد تک جاندار ہوگا؟
۶۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران دہشت گردی کی صورت میں ہلاکتیں کم ہوں گی کیونکہ بھیڑ بھاڑ والے مقامات ناپید سے ہیں، مگر اسپتال؟ وہاں تو بھیڑ ہی بھیڑ ہے۔
کورونا وائرس کی کامیاب اور دیرپا اثرات کی حامل ویکسین کا انتظار ہے۔ خیر، ایسی کوئی بھی ویکسین رواں سال کے آخر تک تو سامنے آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اور اگر ویکسین بنا بھی لی جائے تو اربوں خوراکیں تیار کرنا پڑیں گی۔ سوال یہ ہے کہ فارما انڈسٹری کتنوں کا علاج کرسکے گی؟ کورونا وائرس کے مریضوں میں سے ۵ تا ۱۰ فیصد کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں وینٹی لیٹرز کی فراہمی کس حد تک ممکن بنائی جاسکے گی۔
اس وقت یورپ عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ کورونا وائرس کے بطن سے پیدا ہونے والا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کامیابی کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔ منصوبہ بندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں میں جرمن بہت نمایاں ہیں۔ یورپ کی حد تک سوچیے تو جنگ کا دور اب رہا نہیں۔ اس کا اسلحہ خانہ کمزور پڑتا جارہا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک کے ٹینک، ہیلی کاپٹر اور آبدوزیں مطلوب معیار کے مطابق نہیں۔ آزمائش کی کسوٹی پر ان میں بہت سی اشیا بہت حد تک ناکام رہی ہیں۔
جرمنی میں بائیں بازو اور وسط کی لڑائی جاری ہے۔ معاملات میں بگاڑ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اٹلی میں فیس ماسک کی قلت سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں، مگر جرمنی میں یہ قلت کیوں ہے؟ معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد والے معاشروں میں نرسوں اور لیب ٹیکنیشنز کی کمی تو سمجھ میں آتی ہے مگر فیس ماسک کی قلت؟
کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے پہلے کیفیت یہ تھی کہ پلاسٹک سے ہمارا جی بھر گیا تھا۔ اس سے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی جارہی تھی۔ کورونا وائرس کی وبا میں پلاسٹک اہم ڈھال بن کر سامنے آیا ہے۔ دنیا ایک بار پھر پلاسٹک پر متوجہ ہے اور پلاسٹک کی عظیم واپسی کی دعائیں مانگی جارہی ہیں!
کورونا کی وبا نے جو چند باتیں سکھائی اور سُجھائی ہیں اُن میں دو بہت اہم ہیں :
۱۔ غیر ضروری اشیا سے جان چھڑانے کا زمانہ آگیا ہے۔ معاشیات میں پڑھائی جانے والی چیزوں میں قانونِ تقلیلِ افادۂ مختتم بہت اہم ہے۔ یعنی کسی بھی چیز کی اُتنی ہی قیمت ادا کی جائے، جس قدر اُس سے تسکین مل سکتی ہو۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں عالمگیر کساد بازاری بالکل یقینی ہے۔ یہ شدید تر بھی ہوسکتی ہے۔ عالمی معیشت معاملات کو بحال تو کر ہی لے گی مگر کس حد تک؟ اس کا مدار ہم پر ہے۔
۲۔ کورونا وائرس کی مہربانی سے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ معیشتوں کا ڈھانچا تبدیل ہوجائے اور انسان کو کم محنت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔ اب زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ زیادہ محنت اس لیے کی جاتی ہے بعد میں فراغت میسر ہو۔ اگر فراغت میسر رہے تو زیادہ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
حرفِ آخر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا پناہ گزینوں سے نہیں، سیاحوں سے پھیلی ہے۔

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...