تاریخ اسلام کی اولین جنگ غزوہ بدر کا پیغام

 

محمد قاسم ٹانڈؔوی
محمد قاسم ٹانڈؔوی

(محمد قاسم ٹانڈؔوی=09319019005)

اسلامی تقویم کے اعتبار سے سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہوتا ہے، اسی ماہ مبارک کی وہ عجیب و غریب طور پر منظر کشائی کرتی ۱۷/تاریخ تھی (یہی آج کا سترھواں روزہ تھا) جس میں اہل ایمان کے واسطے ایک روح پرور پیغام، وسیع و عریض مفہوم اور قابل عبرت و موعظت واقعہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ۱۴۴۱/ سال پہلے واقع ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ دن و تاریخ اسلامی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں، اس دن پیش آنے والے اس اہم واقعہ “جنگ بدر” کی خصوصیت و معنویت اور افادیت کو بیان کرنے یا سمجھنے کےلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ پاک نے اس سے متعلق قرآن مجید میں پوری ایک سورت “سورۃ الانفال” نازل فرمائی جس کے اندر حق پرستوں اور باطل پرستوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کا تذکرہ بھی ہے اور حق و صداقت کے علمبردار و پیامبر اور اہل ایمان پر کی جانے والے ظلم و ستم کی مکمل داستان بھی، اسی کے اندر اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والوں کی کس طرح مدد و نصرت فرماتا ہے؟ اور دین حق و مذہب اسلام کے مقابلے میں آنے والوں کو کس طرح بدترین شکست سے دوچار فرما کر دنیا والوں کی نظر میں ان کو ہمیشہ ہمیش کےلئے ذلیل و رسوا کرتا ہے؟
الغرض ! یہی وہ دن ہے جس میں ظہور اسلام کے بعد احقاق حق کی بالادستی قائم کرنے اور ابطال باطل کی شرح سستی اور اس کا منہ کالا کرنے کےلئے حق کے گرویدہ نیک طینت اشخاص اور ہمت و استقلال میں پہاڑوں کی مانند جماعت نے باطل پرستوں کے ساتھ تاریخ اسلامی کی پہلی جنگ لڑی، جس کو مؤلفینِ کتب سیر و مغازی نے ‘معرکہ جنگ بدرسے موسوم و منسوب کیا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشیں رہےکہ بدریہ ایک کنواں کا نام تھا، جسے باختلاف اقوال علماء علاقے کے سردار “بدر بن حارث یا بدر بن کلدہ” نے کندہ کرایا تھا، مرور زمانہ کے ساتھ اس پورے علاقے، وادی اور بستی جو کہ مکۃ المکرمہ و مدینۃ المنورہ (زادھا اللہ شرفاً و عظماً) کے درمیان آ گیا تھا، اسی نام سے پکارا جانے لگا، اور شہر حرام سے تقریبا 303/کلو میٹر اور شہر مدینۃ الرسولؐ سے 138/کلو میٹر کی دوری پر واقع یہ مقام ہے۔
مذہب اسلام؛ جو اپنے روز اول سے امن و سلامتی، امانت و دیانت، عدل و انصاف، باہمی مساوات اور اخوت و ہمدردی کا داعی اور روئے زمین پر آباد پوری انسانی برادری کے لئے رحمت و شفقت اور جود و سخا کے ابر عمیق لےکر آیا تھا، جس نے فاران کی چوٹی سے اپنی پہلی صدا کا آغاز ہی تمام انسانوں کی کامیابی کی ضمانت پر رکھتے ہوئے کیا تھا، جو اپنے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ اغیار، ملحدین و منکرین اور خدا و رسول کے جانی دشمنوں کو بھی اپنے دامن رحمت و رافت میں پناہ دینے کا وعدہ کر انہیں اولاً پیغام امن اور سامان تحفظ کا یقین بھی دلاتا تھا، دور دراز خطوں اور علاقوں میں باہمی رنجش و عداوت، قومی سبقت اور اپنے اپنے نظریات و حکمرانی کے باعث دم توڑتی انسانیت اور عام انسانوں کو ان کے مقصد تخلیق سے واقف کرانے نیز ظلم و ستم، سرکشی و طغیانی اور شیطنت و خباثت کی تمام حدود کو پار کر دینے جیسے جرائم و عناصر سے جب اللہ کی یہ دھرتی لبا لب ہو چکی تھی، حتیٰ کہ رسول محترم، حبیب خدا اور محسن کائنات حضرت محمد مصطفے ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کردینے کی سازش و پلاننگ ان کے ہمراہ عزائم تھی، تو ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بحکم الہی، محبوب خدا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے آبائی اور پیدائشی وطن؛ مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ (زادھا اللہ تعظیماً و کراماً) ہجرت فرمائی؛ گویا آپ نے یہ قدم اٹھاکر اپنی اور اپنے جانباز و جان نثار فدائین صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قیمتی جانوں کے تحفظ کے واسطے اسی مدینہ پاک کو مستقر بنا ڈالا، جس کی طرف بہ ذریعہ وحی اشارہ کیا گیا تھا.
پہر کیا تھا بس آپ کے اس اقدام کی وجہ سے کفار مکہ جن کے قلوب میں پہلے ہی سے بغض و حسد کی آگ بھڑک رہی تھی اب مزید ان کے دلوں میں انتقام کی لپٹیں جوش مارنے لگیں اور مکۃ المکرمہ میں جو لوگ آپ کی دعوت پر دولت ایمانی سے مشرف ہو جانے کے بعد توحید ربانی کی امانت نے ان کے سینوں کو روشن و تابندہ کیا تھا، مشرکین مکہ نے اول تو انہیں اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر اپنے وہی آباؤ اجداد والے عقیدے اور دین پر لوٹنے پر مصر و متقاضی ہوئے بصورت دیگر انہیں بھی اپنے گھربار چھوڑ نے کی وارننگ اور دھمکی دینے لگے؛ مرکز توحید و ایماں اور منبع رسالت و نبوت خانہ خدا “بیت اللہ” کے طواف کرنے پر ان مابقیہ توحید کے متوالوں اور شمع رسالت کے پروانوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، اور بزور طاقت و قوت نشہ میں چور اپنی کثرت تعداد پر مغرور ہوکر خانۂ خدا کوبت خانہ میں تبدیل کر دیا گیا. ایسے بدترین حالات میں رحمت الہی جوش میں آتی ہے جس سے کہ خود بہ خود حالات کا دھارا تبدیل ہوتا ہے اور حالات اس جانب رخ کرنے لگتے ہیں کہ ادھر اہل مکہ (بشمول منافقین اور کفار و مشرکین) تینوں گروپ مجتمع ہو کر اور ادھر اہل مدینہ (تن تنہا مسلمان) اپنے اپنے طور پر جنگ کی تیاری میں مشغول ہوجاتے ہیں، اہل مکہ کی طرف سے قیادت کی ڈور وقت کا ہی نہیں بلکہ تاریخ کا سب سے بڑا جاہل اجہل ‘ابو جہل’ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اہل مدینہ کی سرداری و راہنمائی کے فرائض بظاہر “مصعبؓ بن عمیر، حبابؓ بن منذر اور سعدؓ بن معاذ” کے حوالے فرمائی جاتی ہے اور محسن انسانیت رحمۃ لّلعالمین ﷺ بنفس نفیس میدان کارزار میں تشریف فرما ہوتے ہیں، جو کہ بحسن خوبی حضرات صحابہ کرام کو عزم و حوصلہ دلاتے ہیں اور عزائم میں پختگی کی روح پھونک کر ہر ایک کو میدان جہاد اور میدان کارزار کا بےمثال ہیرو اور سپاہی بناتے ہیں۔ کیونکہ صورت حال یہ ہےکہ ادھر چند نفوس قدسی ہیں جن کی تعداد بمشکل تین سو (300) یا اس سے کچھ زائد ہوگی جو سامان جنگ اور آلات حرب سے بھی خالی اور تہی دامن ہیں، صرف دو گھوڑے ہیں، ایک پر حضرت زبیرؓ بن عوام اور دوسرے پر حضرت مقدادؓ کندی سوار ہیں اور ستر اونٹ ہیں جن پر باری باری دو دو تین تین حضرات سوار ہوتے ہیں، ایک اونٹ جس پر محسن انسانیت ﷺ سیدنا حضرت علیؓ اور حضرت مرثدؓ بن مرثد باری باری سوار ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مدمقابل دشمن فوج کا لشکر جرار ہے جس کی تعداد بھی باقوال مؤرخین ہزاروں سے زائد ہے، ہر طرح کا ساز و سامان، اشیاء خورد و نوش اور جنگی آلات وافر مقدار میں تھے، سواریوں کا نظم و نسق بھی بہتر و مناسب تھا.
بالآخر یہ نہتھے مسلمان جو ایک خدائے وحدہ لاشریک کی کریم ذات پر بھروسہ کئے ہوئے اور نبی پاک کی عقیدت و محبت سے اپنے قلب و جگر کو سرشار کئے ہوئے تھے، ۱۲/رمضان المبارک ۲/ہجری کو ان آہنی صفت عزم و حوصلوں کے حامل اشخاص کو لے کر شہر سے نکلتے ہیں، فوج کا جائزہ لیتے ہیں اور بعض ضروری باتوں کی تعلیم و تلقین (انتظام شہر اور نماز کی امامت وغیرہ) کرتے ہوئے مقام روحاء آ پہنچتے ہیں۔ اور پھر یہاں سے چند مقامات کو عبور کرتے ہوئے مقام بدر (جس کی وجہ تسمیہ مختصراً اوپر ذکر کی جا چکی ہے، کہ پوری وادی کو بدر کہا جانے لگا تھا اور یہاں سالانہ میلہ یا بازار کا انعقاد بھی ہوا کرتا تھا) کے قریب فروکش ہوتے ہیں، مخبرین سے تحقیق حال فرماتے ہیں جو اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ قریش وادی کی دوسری اور یعنی قریب ہی آ پہنچے ہیں۔ چنانچہ پھر کیا تھا، آج ہی کے روز یعنی ۱۷/رمضان المبارک ۲/ھجری=بمطابق 13/مارچ آنحضرت ﷺ بہ ہمراہ صحابہ صف آرا ہوتے ہیں، اور بعد فجر جاں نثاران حضرات صحابہ کرامؓ کو جہاد کی تلقین فرماتے ہیں جس میں نبی محترم رسول عربی ﷺ نصرت الہی اور مدد غیبی کے حصول کی خاطر خود گوشہ نشیں ہوکر دست بہ دعا دراز فرماتے ہیں.
لہذا جس وقت مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو ہر کلمہ گو شخص کی کیفیت اور نوعیت یہ تھی کہ ہر ایک شخص اپنی جان کھلی ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھا اور پوری جانفشانی اور جانفروشی کے ساتھ دشمن کے مقابلے ڈٹا اور اڑا ہوا تھا. چناچہ مسلمانوں کی یہ جانفروشی اور نصرت خداوندی رنگ لاتی ہے اور میدان جنگ بھرپور انداز سے گرمانے کے بعد جب سرد ہوتا ہے تو کل 13/اہل ایمان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ راہ خدا میں پیش کرکے جام شہادت نوش فرما چکے ہوتے ہیں، جبکہ دوسری طرف کا حال یہ ہےکہ اس طرف دشمن کے ستر افراد واصل جہنم ہو جاتے ہیں جن میں قریش کے سردار اور وقت کے سرغنہ ابوجہل، عتبہ، عتیبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف وغیرہ بھی ہیں، جن کو دیکھ کر دشمن کے ھتھکنڈے ڈھیلے اور نرم ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ دشمن کی فوج میں افرا تفریح کا ماحول قائم ہو جاتا ہے اور بھگدڑ سی مچ جاتی ہے، ادھر مسلمان کفار کے آدمیوں کی ایک بڑی تعداد گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس میں ان کے چند بڑے لیڈران بھی ہوتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر قریش کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں اور وہ ہکا بکا ادھر ادھر بھاگنے اور جان بچانے لگتے ہیں چناچہ ‘نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط’ کو واپس از بدر راستہ میں ہی قتل کر دیا گیا اور بقیہ گرفتاران جنگ اور حاصل شدہ مال غنیمت کو مسلمان اپنے ہمراہ لےکر بمعیت آفتاب رسالت و مہتاب نبوت، مدینہ واپس ہوتے ہیں (جن کو آگے چل کر اصحاب بدر یا بدریین صحابہ کے مبارک لقب سے نوازا گیا؛ خدا رحمت کند ایں پاک طینت را) ادھر باشندگان مدینہ اپنے نبئی محترم اور رسول معظم کا شایان شان خیرمقدم اور استقبال کرنے کو بیتاب و بےقرار ہوتے ہیں جو آپؐ کی بہ خیر و عافیت واپسی پر دلی اطمینان اور تاریخ اسلام کی اس پہلی جنگ میں ملی زبردست کامیابی، مسلمانوں کی وفاداری اور جانفروشی پر خوشی، فرحت و انبساط کا دل کھول کر اظہار کرنے کی تیاری کرتے ہیں. یہ ہے وہ قابل مبارکباد کارنامہ جس کی وجہ سے یہ دن جس میں اسلام کے اولیں سپوت اور معرکۂ جہاد کے قابل رشک شہسواروں نے اپنی جان، مال، عزت و آبرو اور آل اولاد سے بھی زیادہ عزیز تر شخصیت کی ہمراہی میں وہ سنہری تاریخ مرتب کی تھی جسے تا قیام قیامت نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس عظیم الشان کارنامہ کو محو کیا جا سکتا ہے، بلکہ اسلام کی یہ پہلی جنگ اپنے ان تمام ماتحتوں کو جو اس کی جانشینی اور خلافت و وراثت کا دم بھرنے والے ہوں گے، ان کے لئے اس میں یہ سبق پنہاں ہےکہ:
دیکھو….!
“حالات کتنے ہی ناموافق اور نامساعد کیوں نہ ہوں تمہارے سامنے اور تمہارے مقابلے میں دشمن کی تعداد کتنی ہی بڑھ کر کیوں نہ ہو؟ مگر نہ تو کبھی گھبرانا اور نہ ہی کبھی کم ہمت و پست ارادہ ہونا، بلکہ اسباب و وسائل کے مفقود ہونے پر بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہنا، تا آنکہ اسی حالت میں تمہیں موت گلے لگا لے اور ایک لمحہ کےلئے بھی احساس کمتری کا شکار ہوکر دشمن کو اپنے اوپر فتح یاب ہونے کا موقع مت دینا اور کم ہمتی کا ثبوت مت دینا”.
یاد رکھنا مسلمانوں ! یہی اسلام کا حقیقی پیغام ہے اور یہی قرآن کی سچی تعلیم ہے اور یہی رسول عربی اور ان کے سچے پکے متبعین کا اسوہ اور تجربہ ہے !(mdqasimtandvi@gmail.com)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *