قدرتی آفات کا اخلاقی پہلو

سید ابو تیمیہ
انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ جب بھی انسان کو جانی مالی ، معاشی، یا مادی نقصانات کا سامنا ہوا اس نے اسے دو اصولوں پر پرکھنے اور اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ ایک مادی، جسمانی دوسرے خاندانی، معاشرتی اور ذہنی۔ یہ پیمانے کسی حد تک اس وقت درست ثابت ہوئے جب کسی معاشی یا مادی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا اور انسان نے اس آزمائش سے نکلنے کے راستے بھی تلاش کرلیے۔
لیکن بڑے پیمانے پر جب بھی ایسی قدرتی آفات کا سامنا ہوا جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان ہوا جو کہ تاریخ میں بار بار ہوتا رہا ہے، تو اسے سمجھنے اور اس کے حل کی تلاش میں انسان نے ہمیشہ غلطی کی ہے۔ اسکو بھی اس نے ان ہی اصولوں پر پرکھنے اور حل کرنے کی کوشش کی جو روز مرہ کی آزمائشوں کے لیے اختیار کرتا رہا ہے، جسکا نتیجہ بے فیض نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی بڑی آفات جو ایک بڑی انسانی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ان کےحل کے لیے اخلاقی اصولوں کی روشنی کا بھی سہارا لیں اور اس کے مطابق حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یوں تو دنیا کے ہر مذہب میں کچھ عالمی اخلاقیات کی پاسداری پر ابھارا گیا ہے، مثلا جھوٹ سے پرہیز کی تاکید، ظلم اور دھوکہ سے بچنے کا مشورہ، ، انسانی جان کا احترام ، بوڑھوں بچوں اور کمزوروں کی مدد وغیرہ لیکن اخلاقیات کے ان پہلووں سے بھی انسان کے اندر اتنی پستی آ چکی ہے کہ وہ مادی منفعت کے لیے ان سب کو بھی بھول بیٹھا ہے اور محسوس ہوتا ہے وہ وڈیرہ اور چودھری بن گیا ہے۔
آج دنیا میں ظلم و نا انصافی اور انسانی اقدار کو پامال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ وہ مذہبی تصورات ہیں جن کی بنیاد خدا سے بے خوفی آخرت کے متعلق مجھول عقائد اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تذلیل کیلئے ہر طرح کے حدود سے تجاوز کو جائز سمجھنا اور انھیں کمزور کرنے کیلئے استحصالی کوششوں کو بروئے کار لانا ہیں۔ یوں تو یہ کیفیت ہر قطعہ زمین پر نظر آتی ہے لیکن اسکی بدنما شکل اہل مغرب میں لمبے عرصے سے پائی جاتی ہے مزید برآں ان کے اندر اخلاقی گراوٹ اور انسان اقدار کا فقدان اس حد تک پایا جاتاہے کہ ان کی زندگی کا مقصد مادیت، شہوت پسندی اور دیگر اقوام پر ظلم کے ذریعے انکے وسائل کو ہڑپنے تک محدود ہے۔
اہل مذاہب کے درمیان بنیادی عقائد کے اختلافات کے باوجود بہت سارےاخلاقی محاسن مشترک ہیں جو انسانیت کا جوہر کہلاتے ہیں جسکا تذکرہ آغاز میں ہوچکا اللہ تعالی کا فرمان ہے “فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا”
پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی ۹۱۰۷ “وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ” اور دونوں نمایاں راستے اسے دکھادئے ۹۰-۱۰ ” اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ” ہم نے اسے راستہ دکھایا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا ۷۰،۳ ۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے یہ بات واضح طور پر سمجھادی کہ انسان کے لا شعور میں اچھے اوربرے کی تمیز ودیعت کردی گئی ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ کسی بھی مذہب کو نہ مانتا ہو، کسی بھی آسمانی کتاب پر ایمان نا رکھتا ہو یا پھر خدا کا منکر ہی کیوں نہ ہو مگر اسکا ضمیر ہمہ وقت اسکی رہنمائی کرتا رہتا ہے ۔ اس اعتبار سے انسان من حیث الجنس ایک ابدی اخلاقی قانون کا پابند ہے۔ اگر وہ اسکو نظرانداز کرکے اسکے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو لازما اس عمل کا جو فطری نتیجہ نکلنا ہے وہ ظاہر ہوکر رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے اس کائنات کو ایک نظم کا پابند بنایا اور انسان کو یہ بات بھی سمجھادی کہ اس کی زندگی بھی ایک نظم کے پابند ہونے کی محتاج ہے اور اس نظم کا شعور اسکی جبلت میں ودیعت کردیا اوروہ نظم یقینا اس کی فطری اخلاقیات ہیں۔ مگر جب بھی انسان نے ان اخلاقیات کو پس پشت ڈالا اور من مانی کی تو اللہ تعالی نے اپنے مکافات عمل کے قانون کے تحت پے در پے مختلف قسم کی آزمائشوں سے اسے دو چار کیا۔ اس کی بےشمار مثالیں ماضی قریب اور بعید میں ملتی ہیں مثال کے طور پر جب اہل کلیسا اور یورپ نے مذہبی جنون کے تحت ایک لمبے عرصے تک صلیبی جنگوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا اور اس کے تحت بے شمار انسانیت سوز ظلم و ستم کی مثالیں رقم کی جسکی وجہ سے انسانیت آج بھی شرم سار ہے، لاکھوں بے قصور انسانوں کو تہ تیغ کیا جسے بیان کرتے ہوئے یورپی مورخین بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں جسکے نتیجے کے طور پر اللہ تعالی نے انھیں پلیگ جیسی وبا کا شکار بنادیا جس نے ۱۳۴۶-۱۳۵۲ تک پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور تقریبا اس بیماری کی وجہ سے پانچ کروڑ لوگ مارے گئے۔ اس وبا کو تاریخ میں Black Death کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ اس طرح یورپ کی ستر فیصد آبادی ختم ہوگی اور مورخین لکھتے ہیں کہ اس آبادی کو پھر سے پورا ہونے کیلئے تقریبا دو سو سال کا عرصہ لگا۔ ۱۹۱۸ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ہسپانیہ میں سوائن فلو جیسی بیماری کا آغاز ہوا جو پورے یورپ میں پھیل گئی۔ اس نے تقریبا دو کروڈ لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا ۔ پھر تھوڑے ہی عرصے بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی جس نے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تقریبا پانچ کروڑ لوگ مارے گئے۔
یہ وبائیں پورپ میں وقفہ وقفہ سے آتی رہی ہیں۔ اس دوران اہل یورپ نے جہاں ایک طرف ظلم و ستم کی انتہا کی وہیں وہ انسانی اقدار اور فطری و الہامی قوانین کی پامالی کے مرتکب بھی ہوتے رہے اور نا معقول بدلی ہوی مسیحی اصولوں پر اپنی زندگی کی بنیاد استوار کی۔ ہر طرح کے ظلم و جبر کو مذہبی جواز فراہم کیا۔ اور فرد اور اقوام کے استحصال کو قومی افتخار کا ذریعہ سمجھا۔ دیگر اقوام کے وسائل پر اجارہ داری اور انکو غصب کرنے کو اپنا پیدائشی حق مانا ۔ افریقہ کے کمزور ممالک کو اپنے جانوروں کی چراگاہ سمجھا اور ہوس بھری نگاہیں تیل کے کنوں کو للچاتی نظروں سے دیکھتی رہیں ۔ اسکو ہڑپ کرنے کیلئے ریشہ دوانیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا ۔ اسکے لئے بے حساب جنگیں کروائیں اور اپنے ناپاک مقاصد اور منصوبوں کی تکمیل کیلئے قومی ریاستیں(Nation States) تشکیل دیں جسکے پس منظر میں نہ جانے کتنے خوفناک مقاصد پنہاں ہیں ۔ ان لوگوں نے سرمایہ داری اور سودی نظام کے ذریعے سماج میں امیر اور غریب کے درمیان ایک گہری کھائی کھود کر رکھ دی۔ اس دوران ان کے اندر شیطان کے چیلے فلسفی بن کر پیدا ہوئے، جنھوں نے مذہب بیزاری کی بنیاد پر خدا کے انکاری ہونے کا فلسفہ اور تحریک کی بنا ڈالی۔ اس طرح سے انسان علی الاعلان خالق کائنات کے بالمقابل کھڑا ہوگیا اور بے شرمی سے اس نے خدا سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔ اسی طرح جدت پسندی کا ایک پرکشش نعرہ دنیا کو دیا گیا ۔ یہ اور اس جیسی نہ جانے کتنی دوسری تحریکیں شروع کی گئیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بالکل اپنے فطری اخلاقیات سے عاری ہوکر رہ گئی۔ برہنگی کو آزادی نسواں کا لیبل دیدیا گیا۔ اس طرح سے عریانی و فحاشی کو بازار کی زینت بنادیا گیا جسکی آڑ میں مقدس رشتوں کے حصار کو ڈھادیا گیا۔ اباحیت اور شہوت پرستی اور آوارگی کے اڈے بڑے پیمانے پر شروع کئے گئے ۔ ہم جنس پرستی جیسی اخلاقی بیماری کو قانونی شکل دیدی گئی۔ لیونگ ان ریلیشن شپ کو تہذیب جدید کا پرکشش نعرہ بنایا گیا اور انسانی نسل کی افزائش کو ترقی اور مادیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جانے لگا ۔ اس طرح رحم مادر میں ہی انسانوں کے قتل کو تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا، شراب پینے پلانے اور اس کے کاروبار کو پانی کی طرح عام کیا گیا۔ بینکنگ کی آڑ میں سودی نظام کے ذریعے پوری دنیا کو غلام بنادیا گیا ۔ امیر بہت زیادہ امیر ہوتا گیا اور غریب کیلئے کفن کا انتظام بھی مشکل سے مشکل تر ہونے لگا۔ انسان سے ہمدردی کو گناہ باور کرایا گیا ۔ خدا بیزاری اور اخلاقی پستی نے بے شمار خباثتوں کو جنم دیا جو خدا کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں۔
اس موقع پر اللہ تعالی کے اس اصول کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس نے قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے عذاب صرف انبیاء کی موجودگی میں نازل کرتا رہا ہے۔ انکے سلسلے کے خاتمے کے بعد اللہ تعالی صرف تنبیہی عذاب سرکش قوموں پر نازل کرتا رہا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آجائیں ۔ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ نے سرکشوں کے لیے ہمیشگی کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ محض تفاخر کیلئے دولت کا اسراف خدا اور آخرت سے بے فکری کا نتیجہ ہے اس سے وہ تمدن وجود میں آتا ہے جس میں خلق خدا کیلیے کوئی خیر اور رفاہیت کا پہلو نہیں ہوتا اس وجہ سے قانون قدرت میں اسکی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور بہت جلد ایسے تمدن کی شاندار عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اور انسان نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی وہ زبردست سائنسی تحقیقات جن کے ذریعے طوفانوں کی آمد کا پیشگی علم ہو جاتا ہے، کن علاقوں میں کثرت سے زلزلے آ سکتے ہیں، اور کن امراض کی وجہ سے انسانی جانیں کثرت سے تباہ ہو رہی ہیں ان ان کی سائنسی وجوہات معلوم کر سکتا ہے لیکن یہ تحقیق اور ذہانت انسانی جانوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کے اخلاقی اسباب تلاش نہیں کرسکا۔ ظاہر اسکا علم اسے ترقیات نہیں دے سکتے اسکے لیے اسے اپنے ضمیر اور الہامی تعلیمات کا سہارا لینا پڑیگا۔
یوں تو انسان کے بے راہ ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں مگر اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہیکہ اس نے خدا کے وجود اور اسکی قدرت اور غیرت کو بہت ہلکا جانا۔ یعنی ایک ایسا وجود جس نے کائنات کو تخلیق کیا اور اس کے بعد وہ کہیں جاکر سوگیا۔ وہ یہ فراموش کر بیٹھا کہ اس کائنات کا خدا ایک زندہ اور فعال ہستی ہے جس کے علم میں آئے بغیر ایک پتہ بھی زمین پر نہیں گرتا۔ جس کے بارے میں الہامی کتابوں میں بھی بتایا گیا اور مشاہدہ فطرت نے بھی اس کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اس خدا کے بارے میں ہم کیسے سمجھتے ہیں کہ وہ قوموں کے معاملات سے لا تعلق رہے۔البتہ دو باتیں اس ضمن میں یاد رکھنے اور لوگوں کو یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ خدا جو کچھ کرتا ہے ، اس کا تعلق انسانوں کے اختیار سے نہیں ، بلکہ اس کی وسیع تر حکمت سے ہوتا ہے جس کے تحت اسے کائنات کا نظم چلانا ہے اور اسکی حکمت کا تقاضا ہے کہ اگر انسان خدا فراموشی میں اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اپنی فطری پکار تک کا گلہ گھونٹ دے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ پروردگار کی قدرت اسے اس کی اوقات یاد دلائے۔ ۔ اس ضمن میں اصولی بات یہ ہے کہ فرد کی تقدیر کا فیصلہ اس کا ذاتی عمل اور قوم کی تقدیر کا فیصلہ قوم کا اجتماعی عمل کرتا ہے اور دونوں آج گمراہی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ۔خدا کا کام فیصلہ سنانا اور سزاوجزا دینا ہے۔یہ فیصلہ فردکے لیے آخرت میں اور قوم کے لیے دنیا میں سنایاجاتا ہے۔دوم یہ کہ خدا غیب سے باہر آکر انسانوں سے معاملہ نہیں کرتا۔ وہ جو کرتا ہے ، اسباب کے دائرے اور اصولوں کی حد بندی میں کرتا ہے چنانچہ ہم نے دیکھا ہے اللہ تعالی نے ہمیشہ اپنے فیصلوں کا نفاذ اسباب کے پردوں میں رہ کر کیا ۔مثلا کرونا جرثومہ جسکے حجم کو جاننے کے لیے انسان کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے اور جسکے جین کو جاننے کیلئے رات دن کی پیہم کوششیں جاری ہیں نیز انسان اس معمے میں الجھا ہوا ہے کہ یہ جرثومہ آیا قدرتی ہے یا انسان کی غلط سمت میں سائنسی کاریگری کا نتیجہ ہے جو بھی ہو خدا کے لیے کیا عجب وہ دنیا کے موجودات یا مادی فوق العقل اشیاء کو اپنے فیصلوں کا سبب بنادے۔ بہرحال کرونا انسانی تاریخ میں خدا کے بہت بڑے عذاب کی حیثیت میں جانا جائیگا ۔جبکہ قرآن کی روشنی میں خدا ظاہر ہے اور ایسا ظاہر کہ تاریخ کے ہر صفحے پر اس کے آثار نقش ہیں۔
اسکے علاوہ جب ہم اللہ تعالی کے تنبیہی عذاب کی وجوہات پر غور کرتے ہیں تو بنیادی طور پر تین اسباب سامنے آتے ہیں ۔
1- *گناہوں کی کثرت { ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاس}”خشکی اور تری میں لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے فساد پھیلا ہے۔”(سورہ روم:41 وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم}”اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچی ہے وہ تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔”(سورہ شوری:30) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: [أ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ”کیا ہم اپنے درمیان نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی ہلاک ہو جائیں گے؟
تو آپ نے فرمایا: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ “ہاں جب گناہوں کی کثرت ہو جائے گی۔ “صحیح بخاری:3346 صحیح مسلم:2880)
2- *علانیہ گناہ کرنا:
لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا، بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ، الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا] “جب بھی کسی قوم میں فحاشی وبرائی علانیہ طور پر ظاہر ہوئی تو اس میں طاعون اور ایسی وبائیں ظاہر ہوئیں جو اس سے پہلے کے لوگوں میں ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔”
(سنن ابن ماجہ:4019)
3- *گناہوں سے نہ روکنا: {ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ﴿78﴾ كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ “ان پر اس لئے (لعنت آئی) کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے، وہ ایک دوسرے کو اس برے کام سے منع نہیں کرتے تھے جسے انہوں نے کیا ہوتا، بہت برا ہے یہ جو وہ کیا کرتے تھے۔”(سورہ مائدہ:78-79)
[وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے منع کرنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی سزا نازل کر دے پھر تم اس کو پکارو گے تو وہ تمہاری نہیں سنےگا۔”
(سنن ترمذی:2169)
ان ارشادات کی روشنی میں ہم آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ مذکورہ برائیاں اور اسکی علامات تمام قطعہ زمین پر نظر آتی ہیں اور اسکا مرکزی محور و مبدا مغرب ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کرونا کا شکار یوں تو پوری دنیا ہے مگر اسکی زبردست قسم کی مار مغرب کے ان طاقتور ممالک پر پڑی جو برائیوں کا محور اور محافظ کے طور پر جانے جاتے ہیں اللہ تعالی نے اس وبا سے ایک طرف کثیر تعداد میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا ہے دوسری طرف ان ممالک کی مضبوط معیشت کی کمر بھی توڑ کر رکھدی اور اس کے ذریعہ دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی زبردست قسم کی تنبیہ دیدی جو ان کی اقتداء میں اسی طرح معصیت کا شکار ہونے لگے کہ وہ بھی راہ راست پر آجائیں ۔ اس موقع پر ہمارے ملک عزیز کے حکمرانوں کو بھی ہوش میں آجانا چاہیے اس لیے کہ وہ بھی فاشسٹ اور نسلی بنیادوں پر اس ملک کی بڑی آبادی کو حاشیہ پر لانا چاہتے ہیں جبکہ انکے سامنے ہٹلر اور مسولینی کے عبرتناک انجام ہیں۔
آج پھر سے دنیا انسان کے ہاتھوں انسانیت کی ہونے والی تباہی کا نظارہ کررہی ہے کسی کیلئے یہ منظر دلفریب اور کسی کیلئے تازیانے سے کم نہیں ہے دنیا کے کسی قطعہ میں زمین بوس ہوتی عمارتوں سے اٹھنے والی چیخیں کسی کیلئے لطف و سرور کا سامان کرتی ہیں اور کسی کیلئے اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتی اپنی نسل کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ۔ ترکی کے ساحل پر شام سے بہ کر آنے والے بچوں اور جوانوں کی لاشیں انسانی ضمیر پر بدنما داغ سے کم نہیں بد ترین قسم کی انسانیت سوز مظالم بالخصوص مسلم ممالک میں روا رکھی گئیں جسکی مثالیں انسانی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہیں شام کے اس بچے کی آہیں کیا اللہ نے نہیں سنی ہوگی جو زخمی حالت میں کہ رہاتھا کہ اللہ کے پاس جاکر ان مظالم کی پوری داستان ضرور سناؤں گا لاک ڈاون کی اسیری سے کچھ تو اندازہ ہواہوگا کے ان بے قصور کشمیریوں پر کیا بیتی ہوگی جنکو بغیر کسی جرم کے بد ترین قسم کے کرفیو میں قید کردیا گیا جنکو اپنے اہل و عیال کی لاشیں بھی اپنے گھروں میں دفنانی پڑیں اور ان تمام مظالم کو حقوق انسانی کے علمبردار ممالک نے اپنے مقاصد کے حصول کا مہرہ بنانے میں ذرا تامل بھی نہیں کیا ۔ بھلا بتائیں خدا کی زمین میں خدا کی شاہکار مخلوق (انسان) کو خدا کی مرضی کے بغیر اتنی بے دردی سے تہ تیغ کرنا خدا کے نزدیک کوئی چھوٹا جرم ہے ہر گز نہیں چھوٹے عذاب کے ذریعے بڑے عذاب کی آہٹ کا پیش خیمہ ہیں یہ افتادگیاں جسکا آج شکار ہے پوری انسانیت
وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۳۰۔۲۱﴾ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں ( کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ ( اپنی باغیانہ روش سے ) باز آ جائیں
مگر تاریخ میں ایسا بہت ہی کم ہوا کہ جب بھی اللہ تعالی نے انسانوں پر افتادگی نازل کی ہو تو انسانوں نے راہ راست اختیار کی جب بھی وہ آزمائش میں مبتلا ہوے تو بہت خدا کو پکارا اور جب ان سے وہ آزمائش دور کردی گئی تو انکی سرکشی میں مزید اضافہ ہوگیا وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ- انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے ، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی برے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا ۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔ یونس ۱۲۔ اب بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ انسان اسی طرح کا رویہ اختیار کریگا جب کہ مضبوط معیشتیں تباہی کا شکار ہوگئی ہیں اسکو سہارا دینے کیلئے کمزور ممالک کے وسائل کو ہتھیانے کی بھر پور کوشش کی جائیگی دنیا میں بڑے پیمانے پر جنگی سازوسامان کے کاروبار کو ترقی دی جائیگی تاکہ ممالک کے درمیان جنگیں کروا کر اپنے ہتھیار بیچیں جائیں اور اپنی معیشت کو سہارا دیں ۔ نیا استحصالی نظام نئی صورت میں دنیا کو دستک دیرہا ہے۔ اللہ تعالی سب کو ہدایت دے۔