اعظم گڑھ کے بگڑتے حالات، اسباب اور تدبیریں

اعظم گڈھ

ایاز احمد اصلاحی

ہندوستانی مسلمانوں کے قرطبہ، خطہ اعظم گڑھ کی اپنی ایک مخصوص شناخت ہے، اتر پردیش میں واقع یہ ضلع اپنے آپ میں اسلامی تھذیب و تمدن کا ایک عظیم گہوارہ اور جیتا جاگتا نمونہ سمجھا جاتا ہے، رب کریم کا خاص کرم ہے کہ یہ پورا علاقہ دین سے شعوری وابستگی اور ملت اسلامیہ کے لئے اپنی تاریخی قربانیوں کے لئے بہت پہلے سے معروف ہے، ناموس دین کے ساتھ جینا اس کی پہچان ہے۔ یہاں کے مسلمانوں نے سبکساران ساحل بن کر جینے کو ہمیشہ عار سمجھا بلکہ گردابوں سے کھیلنا اور طوفانوں کے دوش پر سوار ہوکر آگے بڑھنا انھوں نے اپنی عادت بنا لی ہے۔ یہ بھی خدا کی خاص عنایت ہے کہ یہاں کے مسلمان معاشی و تعلیمی ترقی کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ عالمی سطح کی شخصیات کو جنم دینے والی شبلی و فراہی کی یہ سرزمین اپنی مردم خیزی کے لئے بھی کافی مشہور ہے۔ اپنی انھیں خوبیوں کی وجہ سے یہ ضلع پوری دنیا میں عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن مسلم دشمن عناصر کو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور ان کے دلوں میں یہ ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ بھی انھیں میں سے ایک ہیں جو اس وقت یو پی کے وزیر اعلی ہیں، اعظم گڑھ ان کے نشانے پر اب بھی ہے اور اس وقت بھی تھا جب وہ اس کے قریبی ضلع گورکھ پور کے ایم پی ہوا کرتے تھے۔
افسوس کہ میرے اپنے وطن، اعظم گڑھ سے اس وقت اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ اعظم گڑھ اور جونپور میں ادھر چند دنوں کے اندر کم سے کم چار گاؤوں میں مسلم اور دلت ( ہریجن) فرقوں کے بیچ ہوئے معمولی جھگڑے شدید ٹکراؤ، لوٹ مار اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں تبدیل ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے مارے ہوئے غریب و ستم رسیدہ مزدوروں کی ملک بھر میں بے لوث خدمت کرکے ان کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے وہ ملک کے مسلم دشمن عناصر برداشت نہیں کر پارہے ہیں اور اپنی منفی حرکتوں سے اس خوشگوار تبدیلی کے اثرات کو جلد از جلد زائل کردینا ان کی پہلی ترجیح ہے۔
تمام آثار و قرائن یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ آر ایس ایس کے کارندے مسلمانوں کی حالیہ انسانی خدمات کے مثبت اثرات اور مضبوط ہوتے دلت مسلم اتحاد سے گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نیا خوش آئند رجحان ان کے مسلم مخالف ایجنڈوں کو بالکل راس نہیں آئے گا۔ اس کا علاج انھوں نے یہ نکالا کہ فرقہ پرستی کو ہوا دینے والے اپنے پرانے طریقوں کو آزما کر وہ ہر قیمت پر مسلمانوں کے انسان دوست برتاؤ کے مثبت اثرات اور خوشگوار ہوتے دلت مسلم تعلقات کو منفی ماحول کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔
یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ہماری بہت بڑی ناکامی ہو گی اگر ہم اتنی آسانی سے سنگھیوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جائیں؟ سوال یہ ہے کہ ہم خود کیوں اتنی سادگی سے مکار دشمن کی چالوں کے شکار بن جاتے ہیں؟ آخر اللہ تعالی نے ہمیں بھی عقل و خرد سے نوازا ہے اور ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ یہاں کی مسلم دشمن قوتیں ہروقت ایسے واقعات کی تلاش میں رہتی ہیں جو انھیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کریں،اس کے باوجود نہ تو ہمارے اندر چوکنا رہنے کی عادت ہے اور نہ وقت رہتے ہم دشمن کی سازشوں کو سمجھ پاتے ہیں، اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ وقتی رد عمل کے سوا حالات کے تقاضوں کے مطابق ان شیطانی چالوں کو ناکام بنانے والی ہمارے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہوتی۔
میری معلومات کے مطابق دلت مسلم تصادم کے ان تازہ واقعات کے پیچھے کوئی بڑا سبب نہیں ہے، کہیں آم توڑنے کو لیکر نوجوانوں میں تو تو میں میں ہوئی تو کہیں کوئی دوسرا معمولی واقعہ حجت و تکرار کا سبب بنا لیکن ہوا کیا؟ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہریجن بستیوں کے لوگ مسلم گاؤ ں کو لوٹنے کے در پے ہو گئے، دونوں گروہوں میں جارحانہ تصادم ہوئے، دوسری طرف پولیس نے، جو پہلے سے ہی انتظار میں تھی، متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر مسلمانوں کو گرفتار اور ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح اس علاقے میں مسلمانوں کی یک طرفہ گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق صرف ایک گاؤں بھدیٹھی سے تقریبا ساٹھ مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں جن میں بوڑھے بچے، جوان سب شامل ہیں۔ متعلقہ گاؤوں کے مسلم گھروں میں پولیس برابر چھاپے مار رہی ہے، نوجوان بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں، کچھ گھروں میں پولس کے ذریعہ توڑ پھوڑ اور عورتوں کے ساتھ بد تمیزی کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں، ہریجنوں پر ایک خاص پالیسی کے تحت کہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا، البتہ یوگی کا حکم ہے کہ تمام گرفتار شدہ مسلمانوں پر این ایس اے لگایا جائے۔
حالانکہ ہمیں پورا یقین ہے اگر یہ جھگڑے دلت بنام برہمن یا دلت بنام ٹھاکر ہوئے ہوتے تو یا تو یہ واقعات اتنا آگے نہ بڑھتے یا اگر بڑھتے بھی تو ہریجنوں پر دباؤ ڈال کر خاموش کردیا جاتا۔ صاف معلوم پڑتا ہے کہ یہ حادثات یوں ہی اچانک رونما نہیں ہو ئے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک سوچی سمجھی اسکیم کام کر رہی ہے۔ مگر افسوس ہے مسلمانوں پر، ایسے ماحول میں مسلمانوں کو جس سو جھ بوجھ سے کام لینا چاہئے تھا اور دانشمندانہ طریقے سےدلتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر فوری طور سے معاملہ حل کر لینا چاہئے تھا وہ شاید وقت پر نہیں ہو سکا۔
ان حالات میں وقت رہتے جو کام ترجیحی بنیاد پر کرنے کا ہے وہ ہے فوری طور پر دلتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو باہمی مفاہمت سے حل کرنا ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس علاقے میں درج ذیل کام منصوبہ بند طور سے اور ترجیحی بنیاد پر کیئے جائیں۔
۱۔۔ ایسے تمام مسائل کی نشاندہی کر کے انھیں جلد از جلد حل کیا جائے جو کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں یا بن سکتے ہیں۔ اس کے لیئے ہر ایسے گاؤں میں جہاں ہریجن بستی ہے، “دلت مسلم کوآرڈینیشن کمیٹی” بنائی جائے، اور ان کمیٹیوں کی میٹنگوں میں ہریجنوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ اس قسم کی کمیٹیاں مستقبل میں متنازعہ مسائل کے حل میں بڑا موثر رول ادا کر سکتی ہیں۔
۲۔۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان اور ضرورت مند دلتوں کی مدد کے لیئے مقامی سطح پر عملی پروگرام ترتیب دیئے جائیں۔ اس سے ان شاء اللہ علاقے کی دلت بستیوں میں مسلمانوں کے تعلق سے ایک مثبت پیغام پہنچے گا۔
۳۔۔ دلتوں کے ساتھ مستقل طور سے رابطہ استوار کیا جائے، ان سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کیا جائے، ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر انھیں مسلمانوں سے قریب کیا جائے۔ یہ قربت ہی آئندہ غلط فہمیاں دور کرنے میں معاون بنے گی۔
۴۔۔ ایسے تمام امور سے سختی سے پر ہیز کیا جائے جو اونچ نیچ اور ذات پات کے تصور کی حمایت کرنے والے ہوں۔ دلتوں کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا جائے، جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔ وقت بدل چکا ہے اور وقت کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں، اعلی ذات کے ہندووں کی طرح جن لوگوں کو کل تک ہم بھی اچھوت اور ہریجن سمجھ کر نظر انداز کرتے تھے یا ان سے نگاہیں پھیر لیتے تھے وہ آج ہماری ضرورت ہیں، ملک کے موجودہ ماحول می برہمنی نظام مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے اور سفاک فسطائیت کی راہ پر گامزن ہے، جو اس نظام کے حامل ہیں وہ اس وقت سیاسی و معاشی طاقت سے بھی پوری طرح مسلح ہیں، ان کی نظر میں دلت ہوں یا مسلمان سب برابر ہیں، ان کے اپنے ایجنڈے میں تمام اقلیتیں اور دلت و پسماندہ ہندو دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔اس ماحول میں مسلمان اور دلت دونوں کو یہ بات سمجھنی ہے کہ اب تمام کمزور طبقے مل کر ہی ملک کی ظالم قوتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم دلتوں کو بھی اس برہمنی چال سے آگاہ کرنے کی طرف توجہ دیں۔ دور رس تبدیلی کا یہی ایک مستقل راستہ ہے۔ لیکن اس کے لیئے سب سے پہلے خطہ اعظم گڑھ کے مسلمانوں کے طبقہ اشرافیہ کو اپنی ذہنیت بدلنی پڑے گی اور خود کو روایتی زمیندارانہ سوچ سے الگ کرنا پڑے گا۔
۵۔۔ دیرپا تبدیلی کے لیئے دینی جماعتوں کو ان دلت بستیوں کے لیئے ایک ٹھوس دعوتی منصوبہ ترتیب دینا ہوگا۔۔ یہ بستیاں آج بھی دعوتی امکانات سے بھری ہوئی ہیں۔اگر یہاں دعوتی روابط کے تمام ممکنہ طریقوں کو آزمایا جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے: ایک تو دلتوں اور مسلمانوں کی بیچ دوریاں کم ہوں گی جو غلط فہمیوں کی اصل بنیاد ہے۔ دوسرے اس کے ذریعہ ہم اپنے ایسے نوجوانوں کو ایک مثبت کام میں مصروف کرسکتے ہیں جو زندگی میں کوئی متعین نصب العین نہ ہونے کی وجہ سے فریسٹریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اکثر مسائل کو فرقہ وارانہ زاویے سے دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں۔
۶۔۔ ان تمام کاموں کے ساتھ اپنے تحفظ و دفاع سے بھی ہمیں غافل نہیں رہنا ہے ، ہر گاؤں میں بیدار، باہمت اور باہم متحد نوجونوں کا ایک ایسا گروہ ضرور ہو جو وقت آنے پر پوری ہوش مندی اور خاموشی کے ساتھ اپنی دفاعی حکمت عملی ترتیب دے سکے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اور پولیس افسران سے بھی ہمارا تعلق مستقل طور سے استوار رہنا چاہیے، یہ ربط و تعلق کبھی کبھی پولیس کی یک طرفہ کاروائیوں سے ہمیں بچانے کے علاوہ قانونی لڑائی لڑنے میں بھی ہمارے کام آتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں کبھی کبھی ذاتی تعلق مذہبی تعصب پر بھاری پڑ جاتا ہے۔
لیکن سب سے بڑی بات یہی ہے کہ آزمائشیں جیسی بھی ہوں ہم ہمت کبھی نہ ہاریں کیونکہ ہمت ہارنا شکست کا آغاز اور ہمت باقی رکھنا جیت کی شروعات ہے، اگر موجودہ حکمراں طبقہ ہمیں مسلمان ہونے کی سزا دینے پر آمادہ ہے تو ہمیں بھی اس پر یہ ثابت کر دینا ہے کہ مسلمان ہر حال میں مسلمان ہی بن کر زندہ رہتا ہے۔اللہ ہماری مدد فرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *