ایلوپیتھک سے بہتر ہے ہومیوپیتھک طریقہ علاج:ڈاکٹر عزیر عالم

ڈاکٹر عزیر عالم کومعیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے طلبہ محمد آفاق انصاری اور محمد سفیان خان کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے:تصویر معیشت
ڈاکٹر عزیر عالم کومعیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے طلبہ محمد آفاق انصاری اور محمد سفیان خان کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے:تصویر معیشت

ممبرا میں مقیم ہومیوپیتھک ڈاکٹر عزیر عالم کا شمار قابل قدر سماجی کارکنوں میں بھی ہوتا ہے۔علاج و معالجہ کے ساتھ مختلف رفاہی کاموں میں موصوف پیش پیش رہتے ہیں۔معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے طلبہ محمد آفاق انصاری اور محمد سفیان خان نےموصوف سےگفتگو کی جسے افادہ عام کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔
سوال ؛ ڈاکٹر صاحب آپ اپنا تعارف کر ائیں
جواب ؛ میرا نام عزیرعالم ہےاور میں ایم ڈی ہو مو پیتھک ہوں۔
سوال ؛ آپ نے پڑھائی کہاں سے شروع کی اور کہاں پر مکمل کی؟
جواب ؛ میری تعلیم عبداللہ پٹیل اردو ہائی اسکول سے شروع ہوئی۔ میں نے یہیں سے دسویں (SSC) مکمل کی اور تھانہ کے این ڈی ٹی کالج میں بارہویں(HSC) میں داخلہ لے لیا جبکہ ناسک سے گریجویشن مکمل کیا ہے۔
سوال ؛ آخر مختلف پیشہ ہوتے ہوئے آپ نے ڈاکٹر کا پیشہ کیوں اختیار کیا؟
جواب ؛ بچپن سے اس بات کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ اس لیے کہ میرے دادا بھی ڈاکٹر تھے اور میں دیکھتاتھاکہ لوگ پریشان حال آتے ہیں اور پھر خوش ہوکر جاتے ہیں اور آکر کہتے ہیں کہ آپ نے دوا دی تو بڑا فائدہ ہوا۔اس سے ایک خوشی محسوس ہوتی تھی۔ بچپن سے میں سوچتا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا پھر بڑا ہونے کے بعد جب ڈاکٹر بن گیاتومجھےاحساس ہوا کہ واقعتامیں نے ایک بہت اچھا پیشہ اختیار کیا ہےوہ اس اعتبار سے کہ میں پریشان لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرتا ہوں۔
سوال؛ ایلوپیتھك میںترقی کے مواقع ہوتے ہیں آپ نے ہومیوپیتھک کیوں پسند کیا؟
جواب ؛ بہت پہلے سے اس بات کو سوچے ہوئے تھا اور بہت پہلے سے اس بات کی کوشش کی تھی کہ ایم بی بی ایس (MBBS) کر کے ہومیوپیتھک ہی میں ایم ڈی( MD ) کروں کیونکہ میرے دادا بھی ہومیوپیتھک ڈاکٹرتھے اور میں ان سے بہت متاثر تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ پہلے میں ایم بی بی ایس (MBBS)کروں پھر ایم ڈی(MD) کروں لیکن(MBBS ) میں مارکس کی کمی کی وجہ سے ایڈمیشن نہیں ملا تو میں نے بی ایچ ایم ایس ( BHMS) کیا اور پہلے سے ہی ہمارا خاندانی لگائو اس پیتھی سے ہے۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے بڑھتے گئے محسوس ہوگیا کہ یہ ہومیو پیتھک بہتر ہے اور ویسے بھی یہ وقت ایسا آچکا ہےکہ متبادل دوائیں (Alternative medicine) جوبھی ہے لوگ اسے زیادہ پسند کررہے ہیں اورجو Mainstream Medicine ہیں لوگ انہیں صرف فوری طور پر استعمال کرتے ہیں اس لئے میں نے ہومیوپیتھک کو پسند کیا۔
سوال ؛کیا یہ درست ہے کہ ایلوپیتھك دوا کھانے سے عوارض جلدی ختم ہو جاتے ہیں اور ہومیو پیتھک کھانے سے عوارض دیر سےختم ہوتے ہیں اسکی کیا وجہ ہے؟ جواب ؛ ایلوپیتھك کھانے سے عوارض ( simtams)جلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں بیماری اپنی جگہ قائم رہتی ہے بعض مرتبہ بڑھ جاتی ہے اور بعض مرتبہ گھٹ جاتی ہے اور ہومیو پیتھک سے چونکہ بیماری کو نکلنا ہوتا ہے تو بیماری نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ اور ہمارے یہاں عوارض کو دبانے کی دوا نہیں دی جاتی ۔کوشش اس بات کی کی جاتی ہے کے وہ بیماری جسکی وجہ سے عوارض نے جنم لیا ہےوہ بیماریاں دور ہو جائیں تو عوارض خود بخود ختم ہوجائینگے اس وجہ سے وقت لگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
سوال ؛موجودہ دور جبکہ مہنگائی کا دور ہے تو کچھ لوگ مہنگائی کی وجہ سے پوری دوائیاں نہیں خرید پاتے تو آپ ایسے مریض کے ساتھ کیا کرتے ہیں ؟ کیا آپ انہیں دوائی مفت میں دیتے ہیں یا قیمت میں کچھ کمی کرتے ہیں؟
جواب ؛ یہ ہمارا ذاتی عمل ہے اس کو ہم بطور عبادت کے کرتے ہیں کبھی اگر ہم ایسا محسوس کرہیں کہ زیادہ دوائی دینی ہے اور ہم نہیں دے سکتے تو باہر سے لکھ دیتے ہیں اور اپنی فیس نہیں لیتے بعض مرتبہ فیس کم کر دیتے ہیں ۔الگ الگ طریقے سے کرتے ہیں کبھی کبھی مریض کے تعلق سے محسوس ہوتا ہے کہ کس کو کتنا کم کرنا ہے بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیس بالکل نہیں لیتے یہ اپنے اعتبار سے کرتے ہیں اسکا کوئی سسٹم نہیں۔
سوال ؛ آپ کو ڈاکٹر بن کر کیا محسوس ہوتا ہے؟ کیا اسکے ذریعے لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے؟
جواب ؛ دراصل یہ پیشہ تھا ہی نہیں بلکہ یہ مدد کرنے کا ذریعہ تھا۔ لیکن لوگوںنے اس کو پیشہ بنا لیاکیونکہ اس میں عزت بہت ہے اور پیسہ بھی بہت ہے بلکہ ہو نا یہ چاہئے تھا کہ اتنی فیس لیں کہ جتنے میں انکا خرچ اور گھر کا خرچ چل جائے۔ بہت زیادہ نہیں لینا چاہئے یہی نظام رہنا چاہئے تاکہ ان کی خدمات کو بھی باقی رکھا جا سکے۔
سوال ؛ اگر کوئی طالب علم آپ سے پڑھائی کے متعلق پو چھے تو کیا آپ ان کو ڈاکٹر بننے کی رائے دیں گے؟
جواب ؛ سب سے پہلے میں اسکو یہ رائے دوںگا کہ وہ ایک اچھاانسان بنے اور اگر وہ اچھاانسان ہے تو پھر میں رائے دوںگا کہ پڑھائی میں سے جو پسند ہو وہ پڑھے لیکن میں چاہوںگا کہ وہ ڈاکٹر بنے کیونکہ باقی سب ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ڈاکٹر ریٹائر نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے بچوں کے بارے میں بھی یہی سوچا ہے۔ا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *