Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

بیچن دادا

by | Jun 18, 2020

bechan dadaعبداللہ ذکریا
یوسفی نے ایک عام آدمی کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ صرف تین موقعوں پر لوگوں کی نگاہوں مرکز ہوتا ہے ایک جب وہ پیدا ہوتا ہے، دوسرا جب اس کی شادی ہوتی ہے اور تیسرا جب وہ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس مضمون کا مرکزی کردار بھی ایک عام آدمی ہے اس لئے بہت خاص ہے۔ یوسفی کے ذکر پر آپ بہت مسکرائیں گے لیکن کیا کریں یوسفی کے تذکرے کے بغیر ہمیں ہر تذکرہ ادھورا اور خالی خالی محسوس ہوتا ہے، اب اسے ہماری شیفتگی کہیں ، عشق کہیں، وارفتگی کہیں یا دماغ کا خلل ،یوسفی ہمارے لئے سب کچھ ہیں ،مرشد،پیشوا،رہنما،رہبر،متبع۔ ہم یوسفی کو اس دور کا سب سے بڑا مزاح نگار نہیں بلکہ سب سے بڑا نثر نگار مانتے ہیں۔ بیچن دادا کو جس وقت ہم نے دیکھا وہ عمر کی اس منزل پر تھے جہاں قوی پوری طرح مضمحل تو نہیں ہوئے تھے لیکن ڈھلتی عمر نے اپنا خراج وصول کرنا شروع کر دیا تھا۔ بیچن دادا کا اصلی نام کیا تھا ہمیں معلوم نہیں، سب لوگ ان کو بیچن کے نام سے ہی پکارتے۔ وجہِ تسمیہ شاید یہ رہی ہو کہ اس زمانے میں ایک رواج تھا کہ وہ لوگ جنکی اولاد نہیں بچتی تھی تو وہ آخر میں مجبور ہوکر آخری پیدا ہونے والے بچے کو کلو دو کلو میں بیچ دیتے تھے، عقیدہ یہ تھا کہ ایسا کرنے سے بچے زندہ رہیں گے، خدا کی قدرت دیکھئے ایسا ہو بھی جاتا تھا، یہی لوگ بعد میں بیچن ،گھورہو وغیرہ ناموں سے پکارے جاتے تھے جو دھندھلے دھندھلے نقوش یاد ہیں ان سے بیچن دادا کی جو تصویر بنتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ کوتاہ قد ،دبلے پتلے لیکن نحیف و نزار نہیں کہے جا سکتے تھے۔ پان کے کثرت استعمال سے لال لال ہونٹ، یہ وہ زمانہ تھا جب پان کھانا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا، جہیز میں بھی پاندان اور اگالدان کا اہتمام رہتا تھا، ہم نے اپنے بچپن میں ہر گھر میں چوکی پر پسری سروتے سے چھالیا کترتی ایک بزرگ خاتون ضرور دیکھی ہے۔ پان یوپی کے کلچر کا ایک اٹوٹ حصہ تھا۔ نئی تہذیب کی روشنی اسے بھی کھا گئی۔ بیچن دادا اشرافوں میں سے نہیں تھے، ذات کے نداف(دھنیا) تھے، لیکن ہم نے سب لوگوں کو انکے ساتھ ادب و احترام سے ہی بات کرتے دیکھا، ہمارے چھوٹے دادا ، جنھوں نے زمینداری کا زمانہ دیکھا تھا اور زمین دارانہ خو ب ان کے مزاج کا حصہ تھی عموماً سب کا نام بگاڑ کر پکارا کرتے تھے وہ بھی بیچن دادا کو ہمیشہ بیچن ہی کہ کر پکارا کرتے تھے۔ بر صغیر میں اسلام کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ رہی اس نے سومناتھ کا بت تو توڑ دیا لیکن رسوم و رواج کا بت نہیں توڑ پایا، منوسمرتی کے حساب سے اگر کوئی شودر کے گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ چاہے کتنا بڑا عالم ہو جائے شودر ہی رہے گا، بر صغیر کے مسلمانوں میں بھی محمود و ایاز کا فرق صرف نماز میں مٹتا ہے، نماز ختم ہونے کے بعد پھر سے وہی ذات پات کا قصہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں رہنے والے ایک ایسے خاندان سے میں واقف ہوں جو بدقسمتی سے قریشی ہے۔اپنی شرافت، رکھ رکھاؤ ، مجلسی آداب اور سب سے بڑھ کر علم کے معاملے میں علاقہ کے اشرافوں سے بہت بہتر لیکن جب شادی بیاہ کا معاملہ آتا ہے تو ان پڑھ قریشیوں میں ہی شادی کرنی پڑتی ہے۔ منبرو‌ں سے مساوات کی صدا تو بلند ہوتی ہے لیکن عملااس کا نفاذ نہیں ہوتا ہے۔ یہ بت آج بھی کسی محمود کا منتظر ہے۔ منبر و محراب سے مساوات،برابری اور اسلامی اخوت پر وعظ دینا اور بات ہے اور اس کو عملی زندگی میں نافذ کرنا اور بات۔ ہمیں معلوم ہے کہ فقہ کی کتابوں میں کفو کی شرط لگائی گئی ہے، حضرت زینب اور حضرت زید رضی اللہ تعالی عنھما کے واقعہ کا بھی علم ہے لیکن فقہ کی کتابیں بہت بعد میں لکھی گئی ہیں اور ایک واقعہ کو نظیر نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ بیچن دادا اپنے آبائی پیشہ سے وابستہ نہیں تھے بلکہ یکہ چلایا کرتے تھے اور یہی ان سے ہماری واقفیت کا سبب بنا۔ واقعہ یوں ہے کہ ہماری والدہ جو انتہائی شفیق خاتون ہیں تربیت کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھیں، آج ہم جس مقام پر بھی ہیں اس کا سہرہ والدہ صاحبہ ہی کے سر جاتا ہے۔ والد صاحب ملازمت کے سلسلہ میں بمبئی میں مقیم تھے اور تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر تھی۔ شام ہوتے ہی ہماری بہنیں ہمیں ڈھونڈھنے نکل پڑتیں، غروبِ آفتاب کے بعد گھر سے نکلنے کی ہمیں آزادی نہیں تھی، اگر اعظم گڑھ شہر جانے کی ضرورت پیش آ جاتی جو کہ ہمارے گاوُں سے تقریباً 13کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے تو رسولن دادی جو ہمارے گھر آیا جایا کرتی تھیں اور جن پر ہماری والدہ کو حد سے زیادہ بھروسہ تھا ،ہمیں ان کی معیت میں اس شاہی سواری پر بھیج دیا جاتا تھا، یہی ہماری بگھی تھی اور یہی ہماری فٹن، پر لطف باتوں پر محیط یہ سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوتا، بیچن دادا گو کہ کتابی علم سے بے بہرہ تھے لیکن مدرسہِ زندگی کے فارغین میں سے تھے، انپڑھ لیکن پڑھے لکھوں سے بہتر۔جو سبق ہمیں زندگی سکھا جاتی ہے کتابوں سے اس کا اکتساب ممکن نہیں، زندگی گزارنے کے کئی گر ہم نے یہیں سے سیکھے۔ بیچن دادا کے لہجے میں ایک عجیب طرح کا لوچ اور باتوں میں ایک سادگی تھی جو سیدھی دل میں اتر جاتی تھی۔ اثر الفاظ میں نہیں بلکہ لہجہ میں ہوتا ہے۔ بعض بعض الفاظ اتنے نازک مزاج ہوتے ہیں کہ لہجہ کی کرختگی سے مرجھا جاتے ہیں، بیچن دادا اس رمز کو جانتے تھے، مٹھار مٹھار کر باتیں کرنے کا انکا انداز بہتوں کو بناوٹی لگتا لیکن ہمارے لئے اس میں بہت کشش تھی۔ بقرعید کے دن وہ ہمارا بکرا کاٹنے آتے اور جب تک حیات رہے بکرا انہیں کے ہاتھوں قربان ہوتا رہا، ان کا ایک جملہ آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے، کھال اتارنے اور بوٹیاں کرنے میں دوپہر ہو جاتی تھی، ان کی رفتار بہت سست تھی۔بھوک سے سب کا برا حال ہو جاتا تو وہ شکایت جو اب تک دل میں تھی زبان پر آ جاتی، جواباً وہ کہتے کہ بھئی جو روز قلم چلاتا ہے اور جو سال میں ایک دن قلم چلاتا ہے اس میںکچھ تو فرق ہوگا۔ اس برھانِ قاطع کے بعد کسی کے پاس کچھ کہنے کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں تھا۔ اتنا سب لکھنے کے بعد خیال آیا کہ پڑھنے والے کہیں گے کہ اس میںکیا خاص بات ہے، یہ ایک عام آدمی کی عام سی زندگی ہے اس کے لئے اتنا طومار باندھنے کی کیا ضرورت تھی، صاحبو !خاص بات ہے اور بات یہ ہیکہ بیچن دادا سے زیادہ خرسند ،خوش و خرم اور اپنی زندگی سے مطمئن آدمی میں نے نہیں دیکھا، وہ کہا کرتے تھے کہ جب طاہر کی اماں(طاہر انکے بیٹے کا نام ہے) کھیتوں میں گھاس چننے جاتی ہیں اور میں باغ میں دور بیٹھے انکو دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں اپنے آپ ٹھنڈک اتر آتی ہے اور جب ان کاکام پورا ہو جاتا ہے اور ہم دونوں پیڑ تلے پوٹلی نکال کر کھانا کھاتے ہیں تو میں سب کچھ بھول جاتاہوں، نہ کوئی تکان، نہ کوئی غم اور نہ ہی اپنی کم مائیگی کا کوئی احساس کم سے کم مجھے تو وہ یہ سکھا گئے ہیں دنیا میں خوش رہنے کیلئے دولت نہیں بلکہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے، کیا تھا ان کےپاس؟ایک یکہ اور اس سے ہونے والی کمائی جس سے ان کا گھر بھی بمشکل چلتاتھا ۔ہم خوشی کی تلاش میں کہاں کہاں بھٹکتے رہتے ہیں، کبھی گاوُں کی سوندھی مٹی سے اپنا رشتہ توڑ کر شہر کی نامانوس تار کول سڑک پراپناپسینہ بہاتے ہیں، فیکڑیوں میں ہڈیوں تک کو گلا دینے والی مشینوں پر اپنی جوانی کا سونا لٹا دیتے ہیں اور کبھی دیارِغیر میں اپنی عزتِ نفس تک کا سودا کر لیتے ہیں، پیچھے برہ کی ماری کوئی زبانِ حال سے کہتی رہتی ہے سونا لاون پی گئے سونا کر گئے دیسسونا ملا نہ پی ملے رپاہو گئے کیس اور پھر جب اچانک ہوش آتا ہے اور صدائے رحیل سنائی دیتی ہے چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیستب پتہ چلتا ہیکہ منزل وہیں تھی جہاں سے سفر شروع کیا تھا. بات یوسفی کے ایک جملے سے شروع ہوئی تھی ختم بھی انہیں پر کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں “میں نے زندگی کو ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے دیکھا، پرکھا اور چاہا ہے۔ اسے اپنی بدنصیبی ہی کہنا چاہئے کہ جن بڑے اور کامیاب لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا انہیں بحیثیتِ انسان بالکل ادھورا، گرہدار اوریک رخا پایا، کسی دانا کا قول ہیکہ جس کثیر تعداد میں قادرِمطلق نے عام آدمی بنائے ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہیکہ انہیں بنانے میں اسے خاص لطف آتا ہے وگرنہ اتنے سارے کیوں بناتا اور قرن ہا قرن سے کیوں بناتا” یقین جانئے جس دن عام آدمی آپ کو اچھا لگنے لگے گا آپ کو اپنی معرفت بھی نصیب ہو جائے گی رب بھی مل جائے گا اور زیست بھی معتبر ہو جائے گی

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...