علامہ سر محمد اقبالؒ کی دعوت نماز

علامہ اقبال
علامہ اقبال

ابونصرفاروق
دین اسلام میں نماز کی کیا حیثیت ہے، ہر مسلمان کو اس کا علم اور شعور ہونا ضروری ہے۔نماز کے علم اور شعور کے بغیر کوئی فرد مومن و مسلم ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا :بندگی اور کفر کے بیچ فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ (مسلم)انسان نماز قائم کر کے دین اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور نماز سے غافل رہ کر اسلام کے قلعہ میں داخلے سے محروم ہوجاتا ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا : نمازدین کا ستون ہے،جس نے نماز قائم کی اُس نے دین قائم کیا ، جس نے نماز ڈھادی اُس نے دین ڈھا دیا ۔(مؤطا امام مالکؒ)نماز کو دین کے ستو ن سے مثال دے کر نبی ﷺ نے اتنی آسانی سے مضمون سمجھایا ہے کہ جب پایے ہی نہیں ہوں گے تو چھت کیسے قائم رہے گی اور جب سر سے چھت ہی غائب ہو گئی تو پھر ٹھکانہ کہاں ملے گا۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تین آدمی کی نماز اُن کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔(یعنی قبول نہیں ہوتی)وہ امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ وہ عورت جس کا شوہر اُس سے ناراض ہو۔وہ بھائی جو اپنے بھائی سے تعلق توڑے ہوئے ہو۔(ابن ماجہ)نماز پڑھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت نہیں جانتی کہ اُس کی نماز اس حدیث کے روشنی میں اُس کے تین گناہوں کی وجہ سے اللہ کے دربار تک پہنچ ہی نہیں رہی ہے۔عبد اللہ بن قُرط رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر بندہ اس میں پورا اترا تو بقیہ اعمال میں بھی کامیاب ہوں گے۔ اور اگر نماز میں ناکام ہو گیا تو سارے اعمال خراب ہو جائیں گے۔(طبرانی)نماز جو دین کی بنیاد ہے اُس کی حفاظت اور قبولیت پر آخرت کی کامیابی کا دارو مدار ہے۔جو آدمی نماز کے ان احکام سے ناواقف ہے اُس کی نماز کے متعلق اللہ کہتا ہے کہ تباہی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں۔(سورۂ ماعون)نماز کے متعلق شریعت کے احکام کی روشنی میں دیکھئے کہ مفکر ملت،مصلح امت علامہ اقبالؒ کیا کہتے ہیں اور کیسے کہتے ہیں؛
وہ سحر جس سے لرزتاہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
نماز کی ابتدا اذان سے ہوتی ہے۔ علامہ کہتے ہیںمومن کی اذان میں اتنی طاقت اور اتنا اثر ہے کہ وقت سحر جب وہ اذان دیتا ہے تو اُس کی اذان سے رات کی تاریکی کا دم نکل جاتا ہے اور روشن سحر نمودار ہونے لگتی ہے۔شاعرانہ اندا زمیں علامہ نے شبستاں کا استعمال نظام باطل کے لیے اور سحر کے لفظ سے نظام حق کو تعبیر کیا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبیﷺ کی کامیابی کی بشارت اس طرح دیتا ہے کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو ہے ہی مٹ جانے والا‘‘(النحل:۸۱)دوسرے شعر میں فرماتے ہیں کہ وہ اذان جس سے باطل کے خیمے میں زلزلہ پیدا ہو جاتا ہے اور قیصرو کسریٰ کے محل مسمار ہو جاتے ہیں کسی ملا کی اذان نہیں ہو سکتی ہے ۔ وہ اذان تو کوئی مجاہد ہی دے سکتا ہے۔اسلام زمین پر ملا پیدا کرنے کے لیے نہیں مجاہد پیدا کرنے کے لیے آیا ہے۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اذان اور نماز کے لیے مسجد کا قیام ضروری ہے۔لیکن اس دور کی جو مسجدیں ہیں اور جیسے نمازی ہیں اُن کا نقشہ اس شعر میں علامہ نے بیان کیا ہے کہ مسجدیں تو نہایت شاندار اور عالی شان بنائی جارہی ہیں،لیکن ان میں نمازیں پڑھنے والے وہ پرانے پاپی ہیں جو خود کو بدلنے اور برائیوں سے بچنے کو تیار نہیں ہیں۔ان کی حرارت ایمان یہیں تک ہے کہ یہ شاندار مسجدیں بنا دیتے ہیں، لیکن ان کی نمازیں حقیقت میں ان کو وہ نمازی نہیں بنا پاتی ہیں جن کی نمازوں کی صفت آگے والے شعر میں بتائی گئی ہے۔
وہ سجدہ ، روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
نماز کا سب سے قیمتی رکن سجدہ ہے۔جب بندہ مومن نماز میں سجدہ ریز ہوتا ہے تو وہ اُس وقت اللہ سے ہم کلام ہونے لگتا ہے اور وہ عظمت کی اُس معراج پر پہنچ جاتا ہے کہ زمین کی روح اُس کے سجدے سے کانپنے لگتی ہے۔لیکن اس دور کی مسجدیں اور اُن کے محراب ایسے سجدے کو ترستے ہیں کہ کہاں چلے گئے ایسے سجدے کرنے والے جن کے سجدوں سے زمین کانپ جایاکرتی تھی۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
علامہ فرماتے ہیں کہ وہ سجدہ جس سے زمیں کانپتی تھی ایسا سجدہ اس لیے نہیں کیاجارہا ہے کہ نمازی کا تعلق نماز کی روح سے ٹوٹ چکا ہے اور نمازی ایسا سجدہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ ہی نہیں رکھتے ہیں۔ان نادانوں کو نہیں معلوم کہ ملت کے اسلاف جب ایسے سجدے کیا کرتے تھے تو پھر اُنہیں دنیا والوں کو سجدہ کرنے کی محتاجی نہیں تھی۔ دنیا والے اُن کے سامنے رکوع اور سجدے کیا کرتے تھے۔ان بدنصیب مسلمانوں نے اُس گراں قدر سجدے سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور زندگی کی بھیک مانگنے کے لئے ہر در پر سجدہ کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر
مسجد میںنماز کسی نہ کسی امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے۔اس وقت حال یہ ہے کہ امام جو قرآن کی قرأت کر رہا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ کیا پڑھ رہا ہے۔اُس نے قرآن رٹ تو لیا ہے لیکن قرآن کی روح سے اُس کا تعلق پیدا نہیں ہو سکا ہے۔چنانچہ اُ س کی آواز چاہے کیسی ہی دلکش ہو اُس کا ذہن الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔اُس کا جسم تو نماز میں مصرور ہے لیکن اُس کا دماغ کسی اور دنیا کی سیر کر رہا ہے۔امام کے دماغ کی اس غیر حاضری کے سبب مقتدی کی نماز میں وہ کیفیت اور سرورپیدا ہو ہی نہیں رہا ہے جو مطلوب ہے۔کہہ رہے ہیں کہ یہ دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں کی بد اعمالیوں سے دنیا کو نقصان ہوگا اور اسلام اور ملت بدنام ہوگی۔ ایسے نماز یوں کے نماز پڑھنے سے اچھا ہے کہ یہ نماز ہی نہ پڑھیں۔لوگ ان کے نمازی ہونے سے دھوکہ تو نہیں کھائیں گے۔
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
علامہ ان دو اشعار میں کہہ رہے ہیں کہ،تہجد گزاری بھی ہو رہی ہے،خانقاہوں میں مراقبے بھی ہو رہے ہیں اور مجلس سماع میں کیف و سرور کا رقص بھی جاری ہے لیکن ایسا کرنے والوں نے اپنی خودی اور خود داری کا اغیار سے دنیا کے آرام و آسائش کے بدلے سودا کر لیا ہے چنانچہ ان کی یہ عبادتیں اس سبب سے رائگاں ہو رہی ہیں کہ یہ ان کی خودی اور خود داری کی نگہبانی نہیں کر پا رہی ہیں۔یہ لا الہ اللہ کا ورد تو کر رہے ہیں لیکن نہ ان کے دل نے سچے اسلام کو قبول کیا ہے نہ ان کی نگاہوں میں نبی ﷺ کی حیات پاک کا وہ نمونہ ہے جو حقیر ترین بندے کو اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
لاک ڈاؤن میں مسجدیں بند ہو گئیں تو ایسا لگا کہ اسلام کا ہی خاتمہ ہو گیا۔علامہ مسلمانوں کی اس کھلی نادانی کا ماتم کر رہے ہیں کہ احمق لوگو ! تمہیں مسجدوں میں نماز پڑھنے کی اجازت تو دے دی گئی ہے لیکن مکمل اسلام پر عمل کرنے کی آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ بدنصیب مسلمانوں کو سونے کی اشرفیاں کھوجانے کا غم نہیں ہے۔اطمینان اس کا ہے کہ لوہے کا سو روپے کا سکہ تو میسر ہے۔
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
مسلمانوں کی نادانی کا اس شعر میں بھی مرثیہ پڑھ رہے ہیں کہ ان نمازیوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ نماز میں قیام کب کرنا ہے اور سجدہ کب کرنا ہے۔ شاعرانہ انداز میں قیام سے مراد ہے وہ زندگی جس کی سرگرمیوں اور کش مکش کے بعد دنیا کی امامت ہاتھ آتی ہے، اور سجدے سے مرا د وہ بے دینی اور بے شعوری ہے جو اپنے نکمے پن اور ناکارے پن کو قسمت اور تقدیر کے نام کا سہارا دے کر بے روح اور بے عمل بنا دیتی ہے۔پوری مسلم ملت کی عملی زندگی کو دیکھئے تو اندازہ ہوگا کہ قائدین کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے نہ حکمت عملی ہے اور نہ ہی ان کے فیصلے دانشمندی کا پتا دیتے ہیں۔یعنی چھوٹے میاں توچھوٹے میاں بڑے میاں بھی سبحان اللہ۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ اللہ
علامہ فرما رہے ہیں کہ اگر چہ مسلمانوں کی جماعتیں خدا پرستی کی جگہ بت پرستی میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ہر جماعت کا بت جدا جدا ہے اسی لیے اُن کے فرقے بھی ایک دوسرے کے خلاف جہاد پر آمادہ اور برسر پیکار ہیں۔اُنہوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے بتوں کو اپنی آستینوں میں چھپا رکھا ہے۔لیکن میں ان سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔مجھے تو اللہ اور نبیﷺ کا حکم ہے کہ لوگوں کو سناتا اور بتاتا رہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے ہی نہیں۔ان بت پرستوں کی غلامی سے آزاد ہو کر اللہ کی بندگی اختیار کر لو۔
ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
وضو نماز کا لازمی رکن ہے۔وضو کرتے وقت ہی نماز کا موڈ بن جانا چاہئے۔وضو اور نماز میں وہ روحانی کیفیت اُس وقت تک پیدا نہیں ہوگی جب تک اللہ کا تصور، اُس سے اٹوٹ رشتہ،اُس کے قہر و غضب کا خوف، اُس کی رحمت اور مغفرت کا یقین، اور اُ س سے فریادکرنے میں خون جگر شامل نہیں ہوگا۔ یعنی کلمات تو زبان سے ادا ہوں گے اور آواز تو حلق سے نکلے گی لیکن اُس کی روح جگر کا وہ لہو ہوگی جو خداوند عالم کو مطلوب و مقصود ہے۔جن کے پاس یہ سرمایہ ہے اُن کا وضو وضو ہے او راُن کی نماز نماز ہے۔
میں جو سر بہ سجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
نماز سے متعلق شعروں کے انتخاب کا یہ آخری شعر مسلمانوں کی موجودہ زندگی کا سچاآئینہ دار ہے۔آج کے مسلمان جب سجدے میں زمیں بوس ہوتے ہیں تو زمین کہنے لگتی ہے کہ تیرا دل تو دنیا کی رنگینی و رعنائی ، اس کی دل فریبی اور دل چسپی اور عیش و مستی کا طلب گار اور خریدار ہے۔تو صنم یعنی بتوں سے آشنائی اور شناسائی رکھتا ہے اور اُن کی خوشنودی کا طلبگار ہے۔دیوانے ! تجھے اس نماز سے کیا ملے گا ؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔
علامہ اقبال اور قرآن کے عنوان پر لکھے گئے میرے مضمون کو قارئین نے کافی پسند کیا اور یہ بھی فرمائش کی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ایسے قدردانوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں نے دین کے بنیادی رکن نماز کو اس بار موضوع بنایا ہے۔ کاش اس کو پڑھ کر بے نماز ی نمازی بن جائیں اور جو لوگ بے روح نمازیں پڑھ رہے ہیں وہ ایسی نمازیں قائم کرنے والے بن جائیں جن کے سجدوں سے زمین بھی کانپ اٹھے اور جن کی اذانوں سے باطل کے خیمے میں زلزلہ آ جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *