1875ء میں مدرسہ دیوبند اور ایک انگریز اہل کار کے دلچسپ مشاہدات

دیوبند میں مدرسہ جس زمانے میں (30 مئی 1866ء) قائم ہوا، اس وقت 1857ء کی جنگِ آزادی پر صرف 9 سال گزرے تھے، صوبہ متحدہ (اترپردیش) کے گورنر سر جان اسٹریچی نے اپنے ایک معتمد جان پامر کو اس غرض سے دارالعلوم میں بھیجا کہ وہ خفیہ طور پر تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے کہ مسلمان علماء دارالعلوم کے پسِ پردہ کس فکروعمل میں مصروف ہیں؟جان پامر نے دارالعلوم کو دیکھ کر جو رپورٹ تیار کی اور جو تأثرات اُس نے اخذ کیے وہ اُس نے اپنے ایک دوست کو خط لکھتے ہوئے نہایت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔جان پامر نے دارالعلوم کی تعلیمی کیفیت کا انگریزی یونیورسٹیوں سے موازنہ کرتے ہوئے اپنے مشاہدات وتأثرات کا جس دلچسپ اور عالمانہ انداز میں اظہار کیا ہے وہ دارالعلوم کے علمی موقف کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتا ہے۔
موجودہ دور کے مدارس کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو دیوبند کی طرف منسوب کرتی ہے، مگر وہ دانستہ یا نادانستہ اس کی روایت سے انحراف کر چکی ہے، سوائے بچوں کو حفظِ قرآن کے تختہ مشق بنانے کے۔
جان پامر لکھتا ہے کہ: لیفٹیننٹ گورنر ممالکِ مغربی و شمالی کے ساتھ دورے میں 30/جنوری 1875ء کو دیوبند میں قیام ہوا، گورنر نے مجھ سے کہا کہ یہاں دیوبند میں مسلمانوں نے گورنمنٹ کے خلاف ایک مدرسہ جاری کیا ہے، تم اجنبیانہ طور پر اس مدرسہ میں جا کر پتہ لگاؤ کہ کیا تعلیم ہوتی ہے اور مسلمان کس فکر و خیال میں لگے ہوئے ہیں…؟
چنانچہ 31/جنوری کو اتوار کے دن میں آبادی میں پہنچا، قصبہ نہایت صاف ہے، یہاں کے باشندے خلیق اور نیک ہیں، مگر غریب اور فلاکت زدہ ہیں، پوچھتے پوچھتے مدرسہ میں پہنچا، یہاں پہنچ کر میں نے ایک بڑا کمرہ دیکھا، جس میں چٹائی کے فرش پر لڑکے کتابیں سامنے رکھے ہوئے بیٹھے تھے اور ایک بڑا لڑکا اُن کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے لڑکوں سے دریافت کیا کہ تمہارا استاد کون ہے؟ ایک لڑکے نے اشارہ سے بتایا، معلوم ہوا کہ جو شخص درمیان میں بیٹھا ہوا تھا، وہی استاد ہے۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیا استاد ہو گا۔(یہ مولانا منفعت علی دیوبندی مدرس فارسی تھے، جن کا اسی سال 1291ھ میں تعلیم سے فراغت کے بعد تقرر ہوا تھا، یہ ابتداً مدرس فارسی رہے، پھر چند سال کے بعد مدرس عربی بنائے گئے اور 1900ء/1318ھ تک دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں)میں نے اس سے پوچھا: آپ کے لڑکے کیا پڑھتے ہیں؟ جواب دیا: یہاں فارسی پڑھائی جاتی ہے۔ یہاں سے آگے بڑھا تو ایک جگہ ایک صاحب میانہ قد، نہایت خوب صورت بیٹھے ہوئے تھے، سامنے بڑی عمر کے طلبہ کی ایک قطار تھی، قریب پہنچ کر سنا تو علمِ مثلث Trigonometry کی بحث ہو رہی تھی، میرا خیال تھا کہ مجھے اجنبی سمجھ کر یہ لوگ چونکیں گے، مگر کسی نے مطلق توجہ نہ کی، میں قریب جا کر بیٹھ گیا اور استاد کی تقریر سننے لگا، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ علمِ مثلث کے ایسے ایسے عجیب اور مشکل قاعدے بیان ہو رہے تھے جو میں نے کبھی ڈاکٹر اسپرنگر سے بھی نہیں سنے تھے۔
یہاں سے اٹھ کر دوسرے دالان میں گیا تو دیکھا کہ ایک مولوی صاحب کے سامنے طالب علم معمولی کپڑے پہنے بیٹھے ہوئے ہیں، یہاں اُقلیدس کے چھٹے مقالے کی دوسری شکل کے اختلافات بیان ہو رہے تھے اور مولوی صاحب اس برجستگی سے بیان کر رہے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اقلیدس کی روح ان میں آ گئی ہے۔(یہ مولانا سید احمد دہلوی تھے، جو 1285ھ میں مدرس دوم مقرر ہوئے اور 1302ھ میں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی وفات پر صدر مدرس بنائے گئے اور 1307ھ تک مسند تدریس پر فائز رہے، علومِ ریاضی میں یگانہ روزگار تھے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ ”مولوی سید احمد صاحب کو خداوند کریم نے فنونِ ریاضی میں وہ استعداد اور مناسبت عطا فرمائی ہے کہ ان علوم کے موجدوں کو بھی شاید اتنی نہ ہو۔“ (روداد 1293ھ، ص:13)میں منہ تکتا رہ گیا، اسی دوران مولوی صاحب نے الجبر و المقابلہ ٹاڈ ہنٹر (Isaac Todhunter) سے مساوات درجہٴ اول کا ایک ایسا مشکل سوال طلبہ سے پوچھا کہ مجھے بھی اپنی حساب دانی پر پسینہ آ گیا اور میں حیران رہ گیا، بعض طلبہ نے جواب صحیح نکالا۔یہاں سے اٹھ کر میں تیسرے دالان میں پہنچا، ایک مولوی صاحب حدیث کی کوئی موٹی سی کتاب پڑھا رہے تھے اور ہنس ہنس کر تقریر کر رہے تھے۔(غالباً مولانا محمد یعقوب نانوتوی صدر المدرسین کی جانب اشارہ ہے، مولانا موصوف دارالعلوم کے آغاز ہی سے صدارت تدریس کی مسند پر فائز تھے۔ [سید محبوب رضوی])
یہاں سے میں ایک زینے پر چڑھ کر دوسری منزل میں پہنچا، اس کے تین طرف مختلف مکان تھے، بیچ میں ایک چھوٹی سی صحنچی تھی، جس میں دو اندھے بیٹھے بڑبڑا رہے تھے، میں یہ سننے کے لیے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، دبے پاؤں اُن کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ علم ہیئت کی کسی کتاب کا سبق یاد کر رہے ہیں، اتنے میں ایک اندھے نے دوسرے اندھے سے کہا: بھائی! کل کے سبق میں شکل عروسی اچھی طرح میری سمجھ میں نہیں آئی، اگر تم سمجھے ہو تو بتلاؤ…! دوسرے اندھے نے پہلے دعویٰ بیان کیا اور اس کی ہتھیلی پر لکیریں کھینچ کر ثبوت شروع کیا، پھر جو آپس میں اُن کی بحث ہوئی تو میں دنگ رہ گیا اور مسٹر بریگر پرنسپل کی تقریر کا سماں میری آنکھوں میں پھر گیا۔
وہاں سے اٹھ کر ایک پچدرے میں گیا، چھوٹے چھوٹے بچے صرف ونحو کی کتابیں نہایت ادب سے استاد کے سامنے بیٹھے پڑھ رہے تھے، تیسرے درجہ میں علم منقول کا درس ہو رہا تھا۔میں دوسرے زینے سے اتر کر نیچے آیا، میرا خیال تھا کہ مدرسہ بس اسی قدر ہے، اتفاق سے ایک شخص سے ملاقات ہوئی، میں نے اس سے اپنے خیال کی تصدیق چاہی، اُس نے کہا: نہیں! قرآن شریف دوسری جگہ پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ وہ مجھ کو مسجد میں لے گیا، مسجد کے دالان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے ایک نابینا حافظ کے سامنے قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ (یعنی حافظ نامدار خاں، حافظ صاحب مرحوم بستی ضلع مظفرنگر کے رہنے والے تھے، قیام دارالعلوم کے دوسرے سال 1867ء/1284ھ میں جب درجہٴ قرآن کا اجراء عمل میں آیا تو حافظ نامدار خاں اس کے معلم مقرر ہوئے اور 1920ء/1339ھ تک تقریباً 55 سال درجہ قرآن شریف کی خدمات انجام دیں، ان کے شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع ہے، ناظرہ پڑھنے والوں کے علاوہ ان کے فیض ِ تعلیم نے سینکڑوں بچوں کو حافظ قرآن بنا دیا، جن میں دارالعلوم کے بہت سے اساتذہ بھی شامل ہیں۔{سید محبوب رضوی}) حافظ نے ایک چھوٹے سے بچے کو پکڑ کر بڑی بے رحمی سے پیٹا، بچہ چلاّیا۔ میں نے اپنے راہ نما سے کہا کہ ننھے بچوں سے ایسی سخت محنت لینا بڑا ظلم ہے۔ اُس نے ہنس کر جواب دیا: بظاہر تو یہ ظلم نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ شفقت ہے! بچوں کو شروع ہی سے محنتِ شاقہ کا عادی بنا دینا ان کے حق میں عین حکمت اور آئندہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے بہت ضروری ہے، آج کل مسلمانوں میں یہی تو ایک بات ہمت اور محنت کی رہ گئی ہے اور اسی لیے کچھ ٹوٹا پھوٹا دین ان کے پاس باقی ہے !میں نے پوچھا: گزشتہ سال اخباروں میں دیکھا تھا کہ چار طالب علموں کے دستار فضیلت باندھی گئی تھی ان میں سے یہاں کوئی موجود ہے؟(دارالعلوم کی زندگی کا یہ بالکل ابتدائی زمانہ تھا، مگر جان پامر کے اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم کے حالات وکوائف اُس زمانے کے اخبارات میں شائع ہوتے تھے اور اخبارات میں دارالعلوم کی خبروں کو اہمیت دی جاتی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں اُسی وقت دارالعلوم مرکزی اور امتیازی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا) وہ بولا کہ ہاں! ایک صاحب ہیں، چلیے! میں ملائے دیتا ہوں۔ وہ مجھے ایک مکان میں لے گیا، جہاں ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا، ایک موٹی سی کتاب سامنے رکھی تھی اور دس بارہ طالب علم بیٹھے پڑھ رہے تھے، ایک طرف دو بندوقیں پڑی ہوئی تھیں، میں نے سلام کیا، اس نے کمالِ اخلاق سے جواب دیا، میں نے پوچھا کہ سال گزشتہ آپ ہی کے دستارِ فضیلت بندھی ہے؟ بولے کہ “اساتذہ کی عنایت ہے”۔ میں نے کہا کہ یہ کیا کتاب ہے؟ فرمایا کہ عربی زبان میں ایک فنی کتاب ہے، ایک مطبع کے مہتمم نے ترجمے کے لیے بھیجی ہے، اس کی اجرت ایک ہزار روپے ٹھہری ہے، مجھے ترجمہ کرتے ہوئے تین مہینے ہوئے ہیں اور تین چوتھائی کے قریب ہو چکا ہے، بقیہ ان شاء الله ایک مہینے میں ہو جائے گا۔ میں نے پوچھا یہ بندوقیں کیسی ہیں؟ کہنے لگے مجھے شکار کا شوق ہے، سات بجے سے دس بجے تک پڑھاتا ہوں، گیارہ سے ایک تک شکار کھیلتا ہوں اور دو سے چار بجے تک ترجمہ کرتا ہوں۔“میں نے دریافت کیا، آپ نوکری کیوں نہیں کرتے؟ بولے کہ ”خدائے تعالی گھر بیٹھے بٹھائے ڈھائی سو روپے مہینہ دیتا ہے ، پھر کس لیے نوکری کروں؟“ (غالباً یہ مولانا محمود حسن (شیخ الھند) تھے، 1874ء/ 1290ھ میں فارغ ہوئے تھے اور 1291ھ میں بلا تنخواہ کے مدرس مقرر ہوئے، 1290ھ کے فارغ ہونے والے حضرات میں صرف مولانا محمود حسن ہی دیوبند کے رہنے والے تھے، شکار کا بے حد شوق تھا، جان پامر نے جس زیر ترجمہ کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے افسوس ہے کہ اس کا پتہ نہیں چل سکا۔)
یہاں سے اُٹھ کر کتب خانہ میں آیا، منتظم کتب خانہ نے میرا خیر مقدم کرتے ہوئے فہرست دکھلائی، میں حیران رہ گیا، کوئی فن ایسا نہ تھا جس کی کتاب موجود نہ ہو، ایک دوسرا رجسٹر دکھلایا، جو طلبہ کی حاضری کا تھا اور نہایت صاف، خوش خط لکھا ہوا تھا، من جملہ 210 طلبہ کے 208 طلبہ حاضر تھے۔میں اٹھنے والا ہی تھا کہ ایک صاحب سبزہ رنگ آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا آپ کی تعریف؟ بولے کہ”میں مہتمم ہوں“ (یعنی مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند 1867ء /1284 سے 1869ء/ 1286ھ تک اور پھر دوبارہ 1871ء /1288ھ سے 1888ء/ 1306ھ تک مسندِ اہتمام پر فائز رہے۔) اور تین بڑے بڑے رجسٹر میرے سامنے رکھ دیے اور بتلایا کہ ”یہ سال بھر کے آمد وصرف کا حساب ہے، ملاحظہ کیجیے !“میں نے دیکھا تو تاریخ وار نہایت صحت کے ساتھ حساب لکھا ہوا تھا، گوشوارے سے معلوم ہوا کہ گزشتہ سال کے آخر میں خرچ کے بعد کچھ روپیہ بچ گیا تھا۔ طبیعت چاہتی تھی کہ کتابوں کی کچھ سیر کروں، مگر وقت تنگ ہو گیا تھا اور شام ہونے کو تھی، مجبوراً واپس ہوا۔
میری تحقیقات کے نتائج یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ، نیک چلن اور نہایت سلیم الطبع ہیں، کوئی ضروری فن ایسا نہیں جو یہاں پڑھایا نہ جاتا ہو، جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں کے صرفہ سے ہوتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپے میں کر رہا ہے، مسلمانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی تعلیم گاہ نہیں ہو سکتی ! اور میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلمان بھی یہاں تعلیم پائے تو نفع سے خالی نہیں، انگلستان میں اندھوں کا اسکول سنا تھا، مگر یہاں آنکھوں سے دیکھا کہ دو اندھے تحریراً اقلیدس کی شکلیں کفِ دست پر اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ باید و شاید ! مجھے افسوس ہے کہ آج سر ولیم میور موجود نہیں ہیں، ورنہ بکمالِ ذوق وشوق اس مدرسہ کو دیکھتے اور طلبہ کو انعام دیتے“۔(جان پامر کا خط مشمولہ روداد 1304ھ، بعنوان ”بشارت“۔)