مرد قربانیوں کا پیکر ہے

ضیاء

مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی
مرد وہ ہے جو شادی کے بعد سب سے پہلے اپنی بیوی کے ناز ونکھرے اٹھاتا ہے۔اس کی آرایش و زیبائش کا معقول انتظام کرتا ہے۔ جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کے لئے مقوی غذا کا انتظام کرتا ۔ڈاکٹر کی فیسیں ادا کرتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں کا خرچہ بھی برداشت کرتا ہے ۔پھر بچے کی ولادت کے وقت بڑا خرچہ اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہے۔ جب اولاد کی ولادت ہو جاتی ہےتو ان کے دودھ پمپرز کپڑوں کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ پھر ان کی تعلیم و تربیت کا اچھی طرح سے انتظام کرتا ہے ۔آفس میں کچھ بھی چلتا رہے گھر والوں سے اس بات کو پوشیدہ رکھتا ہے۔ ہر دکھ ہنس کے سہتا ہے ۔کبھی اپنے چہرے پر شکن نہیں لاتا ہے۔ دھوپ کی شدت ہو ,یا گرم ہوائیں یا سردی ہو حتی کہ ہر موسم میں اپنے اہل و عیال کے لئے رزق کا بندوبست کرتا ہے اپنی چھوٹی بڑی تکالیف کو مکمل چھپا رکھتا ہے ۔ایک مسکراتا ہوا مجسمہ بن کر زندگی کے شب روز کو گذارتا رہتا ہے۔
لیکن اس مرد کے متعلق ہمارے معاشرے میں کبھی بھی کوئی آواز نہیں بلند کرتا ہے کیونکہ ہر طرف سے ایک ہی آواز بلند ہوتی سنائی دیتی ہے ۔عورت کا استحصال ہو رہا ہے عورت ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ عورت کو بکاؤ مال سمجھا جاتا ہےعورت کو جنسی ضرورت پوری کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے عورت کو بچہ پیدا کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے.میرا سوال ان لوگوں سے ہے جو اس قسم کی نفرت معاشرے میں پھیلاتے ہوئےنظر آ رہی ہیں۔ کتنے فیصد عورتوں کیساتھ ایسا ہو رہا ہے؟ جتنی فیصد عورتوں کیساتھ یہ سب ہو رہا ہے اتنے ہی فیصد مردوں کیساتھ بھی یہی معاملہ ہو رہا ہے اسے پیسہ کمانے کی مشین سمجھا جاتا ہے اس کا استحصال ایسے کیا جاتا ہے کہ اسے دنیاوی خواہشات کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس پر مسلسل یہ ذمہ داری عائد کی جاتی ہے۔ مرد کو بھی بکاؤ مال ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے۔ نوکری دیکھ کر کاروبار دیکھ کر اس سے رشتہ طے کیا جاتا ہے۔ اس مرد پر اپنے خاندان کےساتھ ساتھ بیوی کی خاندانی روایات کو نبھانے کی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے اتنی سب قربانیوں کے بعد بھی بیوی کی نظر میں شوہر کے والدین بہن بھائی کا وہ مقام نہیں بن پاتا جو اس کے اپنے بہن بھائی اور ماں باپ کا ہوتا ہے۔ یہ اسی شوہر پر اسی معاشرے میں یہی بیویاں ہی ہیں ۔جو اپنے شوہر کو اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ جلد سے جلد گھر الگ کر لو اس بات کو پوچھنا عیب سمجھا جاتا ہے کہ ماں سے جدا ہوتے وقت اس کی دل پر کیا گذرتی ہے۔ کہ اج وہ اپنی بیوی سے مجبور ہوکر اپنے ماں کو چھوڑ رہا ہے ۔اس ماں کو جس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی جو اپنے لخت جگر سے آج الگ ہو رہی ہے ۔
افسوس صد افسوس ؟وہ شوہر اپنے اولاد کی محبت میں مجبور ہوکراس ماں کا گھر چھوڑ دیتا ہے جس نے اسے لوریاں دیکر سلایا راتوں کو جاگ جاگ کر اسے دودھ پلایا اور پروان چڑھایا وہ کسی سے کچھ نہیں کہتا ہر ستم ہر دکھ ہنس کر گزار لیتا ہے لیکن جب درد حد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنے قریبی دوستوں میں کبھی کبھی رو یا ہنس کر دل کی بات کر لیتا ہے پوری زندگی اسی محنت و مشقت کیساتھ گذارنے کے بعد عمر کے نصف حصہ میں ہی کبھی شوگر تو کبھی عارضہ ء قلب یا پھر فشار ِخون کی بیماری میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور پھر اچانک ہی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مرد بردبار ہوتا ہے لیکن اپنے حالات کا رونا نہیں روتا تکالیف کو مخفی رکھتا ہے اپنے حقوق کے لئے کوئی تحریک نہیں چلاتا ان تمام کاموں کو جو بیان کئے گئے اپنا فرئضہ سمجھ کہ پوری زندگی انجام دیتا ہے۔ مرد قربانیوں کا پیکر ہے لیکن اسے اس کے بدلے اسے اس کی آرائش کا صلہ ملنا چاہئے۔لھذا ہمیں اپنے معاشرے میں اس قسم کی روش کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *