Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ممبرا میں مقیم مولانا مبین کے انتقال پر تاسف بھری تحریر

by | Jun 29, 2020

مولانا مبین مرحوم

مولانا مبین مرحوم

دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ مولانا شوکت صاحب بستوی کے بہنوئی مولانا مبین صاحب کے افسوس ناک انتقال کی تفصیل
محمد سعد قاسمی ممبرا
مولانا مبین صاحب مرحوم ( 45سال ) کا آبائی وطن چنوریا ضلع سنت کبیر نگر یوپی ہے، لیکن وہ ممبرا سمراٹ نگر جین مندر کے ریحان محل بلڈنگ میں تقریبا 9 سال سے رہتے تھے ، مرحوم ممبئی کے مشہور صفا انگلش ہائی اسکول کے 2008 سے تا ہنوز موقر استاذ دینیات بھی رہے، جمعۃ الوداع کو سردی زکام سے ان کی علالت کا آغاز ہوا ،عید کے بعد بروز چہار شنبہ معمولی بخار وغیرہ بھی تھا ،قریبی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا لی اور کچھ افاقہ ہو گیا، ہھر دو دن بعد 29 مئی بروز جمعہ اپنی رہائش گاہ کے نیچے ڈاکٹر رضوان کی کلینک پر جا کر سانس پھولنے کی شکایت کی، ڈاکٹر نے ضروری دوائیں دیکر رخصت کر دیا اور مولانا مرحوم کی طبیعت بالکل ٹھیک سی ہو گئی ، پھر 31 مئی 2020 کو دیر رات 12:30 بجے ان کو سانس پھولنے کی اچانک تکلیف دوبارہ شروع ہوئی،گھر پر اہلیہ اور تین بچوں کے سوا کوئی بر وقت ساتھ نہیں تھا ، سب سے بڑا بیٹا 18 سال کا ہی ہے ، یہی مولانا کی کل کائنات ہے، جہد بسیار کے باوجود رات کوئی ڈاکٹر نہیں ملا، کرونا مریضوں کے ساتھ ہو رہی بد سلوکی کا خوف ہر کسی کے دل میں تھا اسلئے ہاسپٹل لے جانے سے قبل مقامی کسی ڈاکٹر کی تلاش میں تھے، طبیعت کی بدحالی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی خدا خدا کر کے صبح ہوئی، صبح ہوتے ان کے قریبی دوست مولانا ضیاء الرحمن مدرس صفا اسکول جو اس وقت انھیں کی بلڈنگ میں رہتے تھے بچوں کی اطلاع پر گھر آئے (رات میں بھی وہ ساتھ ہی رہے) اور صبح ہی یہاں وہاں فون لگا کر مشورہ لینے کے بعد مولانا موصوف نے ہاسپٹل لے جانے کی تیاری شروع کر دی، ممبرا شہر کے معروف عالم دین مفتی عبد الباسط صاحب کو ممبئی سے مرحوم کے رشتہ مولانا عرفان صاحب کا فون آیا کہ جلد سے جلد مولانا مبین صاحب کو کسی قریبی ہسپتال میں ایڈمٹ کرواؤ ۔۔۔۔ممکن ہو تو ممبئی لے آؤ، میں بعد فجر آرام کرنے کے لئے بستر پر لیٹا ہی تھا کہ مفتی عبد الباسط صاحب کا فون آیا کہ مولانا مبین صاحب کی طبعیت بہت بگڑتی جا رہی ہے، ممبرا کے ہسپتالوں کی بدسلوکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی مشورہ دو، عاجز نے کارپوریٹرس کی مدد سے ممبرا کے کالسیکر یا کسی مناسب ہسپتال میں داخلے کا مشورہ دیا، مفتی صاحب نے اپنے کانٹیکٹ لسٹ میں موجود دو ایک کارپوریٹرس کو کال بھی کیا مگر ہر ایک نے سوائے مشورہ دینے کے یا عذر و معذرت کے کوئی مؤثر اقدام از خود نہیں کیا جبکہ کیا جا سکتا تھا، صبح سے مولانا کو ایڈمٹ کرنے کیلئے مولانا ضیاء الرحمن اور مولانا مرحوم کے صاحبزادے کے ساتھ ساتھ برادرم محمد انس سلمہ اور مفتی عبدالباسط کوشش کرتے رہے لیکن ممبرا کے کسی بھی ہسپتال نے علاج سے انکار کر دیا، (درمیان کی روداد بر بناء مصلحت میں چھوڑ دیتا ہوں) بعد ازاں تھانہ کے Jupiter ہاسپٹل میں لے گئے ،انھیں وہاں بھی لینے سے انکار کر دیا ، کرونا کہہ کر تھانہ سول ہسپتال ٹرانسفر دیا۔۔۔۔جب وہاں پہنچے تو کاغذاتی کارروائی کے دوران ہی بتایا گیا کہ ان کی حالت بہت سیریس ہو چکی ہے، شاید فوت ہو چکے ہیں، چشم دید گواہ کے مطابق جسم پیلا پڑ چکا تھا ۔۔۔ تبھی MLA ڈاکٹر جیتیندر اوہاڈ صاحب کا کال آیا۔۔۔۔ انس سلمہ سے کہنے لگے کہ آپ لوگ انھیں ممبرا کے کالسیکر ہسپتال لے کر جائیں۔۔۔میں نے بیڈ خالی کروا دیا ہے۔جبکہ اس سے قبل بھی منسٹر موصوف سے رابطے کی کوشش ہو رہی تھی۔۔ دیر سہی مگر انھوں نے لائق ستائش کام انجام دیا تھا، جس پر ہم ان کے شکرگذار ہیں، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے۔۔۔ فوراََ مولانا کو کالسیکر ہسپتال ممبرا لے جایا گیا، یہ وہی کالسیکر ہسپتال تھا کہ ممبرا سے تھانہ شہر آنے سے قبل بشمول جملہ ہسپتال ممبرا ہم نے کالسیکر بھی چکر لگا لیا تھا مگر اب منسٹر آمدار کے حکم پر مولانا کو ایڈمٹ کرنے کیلئے راضی تھے،اور انھوں نے ایک مہربانی بہت دباؤ ڈالنے پر یہ کیا تھا کہ ایک آکسیجن باٹلا ہمیں وقتی ضرورت کیلئے دے دیا تھا جس کے سہارے ہمیں مولانا کو تھانہ لے جانا تھا، لیکن وہ آکسیجن باٹلہ بار بار Disconnect ہو جا رہا تھا۔۔۔۔۔ خیر مرتے کیا نہ کرتے۔۔۔۔تھانہ سے ممبرا کالسیکر ہسپتال پہنچنے تو ڈاکٹر نے کہا کہ موت واقع ہو چکی ہے۔۔ پھر بھی ہم چیک کرنے کیلئے اندر لے لیتے ییں۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے ہمیں اطلاع دی کہ Sorry ہم آپ کی مدد نہیں کر سکے۔۔(انا للہ واناالیہ راجعون)۔۔۔۔ اب مسئلہ تھا کہ ہسپتال کے ایمبولینس سے ممبرا پولس اسٹیشن کے پاس واقع ان کے گھر میت کو پہنچا دیا جائے ۔۔۔۔لیکن ہسپتال نے وہاں بھی 2000 فیس کا مطالبہ کیا ۔۔۔۔ میں نے خود مفتی عبد الباسط صاحب کے کہنے پر کئی ایمبولینس والوں کو فون کیا مگر کسی کا فون نہیں اٹھا ، یا اٹھا بھی تو معذرت کر لی کہ ہم کالسیکر سے کوئی باڈی ریسیور نہیں کر سکتے کیونکہ گورنمنٹ نے کالسیکر ہاسپٹل کو کووڈ سینٹر بنایا ہے جہاں ہم نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔۔ یہ صورت حال ہے ممبرا کی ……چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے جئے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...