پتن جلی : کیا کوئی گھپلہ انتظار کررہا ہے ؟ایک لاکھ روپے محض پانچ مہینے میں 85؍لاکھ کیسے ہوگئے؟

ندیم عبدالقدیر
پتن جلی کی یہ داستان بھی بالکل فلمی ہے جہاں ایک لاکھ روپے مالیت کے شیئر محض5؍مہینوں میں 85؍لاکھ روپے کے ہوجاتےہیں۔ شیئر بازار کے بارے میںتھوڑی سی بھی معلومات رکھنے والے کسی بھی شخص کیلئے یہ بات ناقابل یقین جیسی ہوگی لیکن بابا رام دیو کی کمپنی پتن جلی (اصل نام ’روچی سویا‘)نے یہ چمتکار بامبے اسٹاک ایکس چینج پر کردکھایا ہے ۔ بہت کم وقت میں بہت زیادہ ترقی کرنے والی دنیا کی جانی مانی کمپنیاں جیسےایپل ،فیس بُک یا مائیکروسافٹ بھی ایسا معجزہ نہیں دکھاپائی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب شیئر بازار میں پتن جلی کے شیئر کی قیمت کے بارے میں انگلیاں اٹھنے لگی ہیںکہ ایک ’ایف ایم سی جی ‘ کمپنی (یعنی صابن، شیمپو، تیل، ٹوتھ پیسٹ اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی اشیاء بنانے والی کمپنی) کا شیئر اتنی کم مدت میں اتنا زیادہ کیسے بڑھ گیا ؟ جبکہ ان پانچ مہینوں میں تین مہینے لاک ڈاؤن کے بھی شامل ہیں۔اگر یہ کہا جائےکہ چونکہ ’پتن جلی‘ ایک آیورویدک کمپنی ہے اورہندوستان میں لوگ آیوروید کے نام پر اس کے پروڈکٹ بہت خرید رہے ہیں تو آیوروید میں ’ڈابر‘بہت ہی معروف نام رہاہے اور پتن جلی سے بہت پہلے سے موجود ہے لیکن ’ڈابر‘ شیئر بازار میں کبھی یہ چمتکار نہیںدِکھا پایا۔ لاک ڈاؤن میں تمام کمپنیوں کے شیئرکی قیمت کم ہوئی ہےلیکن پتن جلی(روچی سویا) کے شیئرکی قیمت سرپٹ بھاگ رہی ہے ۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ کون ہے جو ا س شیئر کی قیمت کو آسمان پر پہنچا رہا ہے ۔جو کمپنی کے بزنس کے اعتبار سے کسی بھی طرح سے قابل جواز نہیں ہے ۔ پتن جلی کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔ بابا رام دیو نے 2012ءمیں ایک کمپنی شروع کی تھی جس کا نام ’پتن جلی‘ رکھا۔ کمپنی شیئر بازار میں درج ہونا چاہتی تھی ۔ اُسی وقت ’روچی سویا‘ نامی ایک کمپنی نے اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے دیا۔ ’روچی سویا‘ ایک ’ایم ایف سی جی ‘ کمپنی تھی جس کا خاص پروڈکٹ ’نیوٹریلا، سن رِچ آئیل‘ وغیرہ تھا ۔ کمپنی پر بینکوں کا قرض بہت زیادہ ہوگیاتھا۔اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور ڈی بی ایس بینکوں نے اسے عدالت میں گھسیٹ لیا اور عدالت نے کمپنی کو نیلام کرنے کا حکم دے دیا۔روچی سویا کے شیئر کو شیئر بازار سے ہٹالیا گیا۔ ’روچی سویا‘ کو خریدنے کیلئے کئی قدآورکمپنیوں نے بولی لگائی۔بابا رام دیو بھی ’روچی سویا‘ کو خریدنے کے خواہشمندتھےلیکن بازی گوتم اڈانی نے مار لی ۔ بابا رام دیونے ا س کے بعد اڈانی گروپ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور یہ دباؤ اتنا بڑھ گیاکہ اڈانی نے مجبور ہوکر ’روچی سویا‘ کو نہیں خریدنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں سے بابا رام دیو کا راستہ صاف ہوگیا اور انہوں نے 4300؍کروڑ میں کمپنی کو خرید لیا جبکہ اڈانی اس کمپنی کو خریدنے کیلئے 5500؍کروڑ کی بولی لگا چکے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ بابا رام دیو کے پاس اب بھی اتنی رقم نہیں تھی،اسلئے انہوں نے تمام نیشنلائز بینکوں سے قرض لیا او رحیرت کی بات یہ ہے کہ نیشنلائز بینکوں نے بابا رام دیو کیلئے اپنے خزانے کھول دئیےجبکہ اُس وقت رقم کےواپس آنےکے بھی کوئی خاص آثار نہیں تھے۔ یعنی پرائیویٹ بینکوں کا قرض بابا رام دیو نے سرکاری بینکوں سے قرض لے کر ادا کردیا۔ایس بی آئی سے 700؍کروڑ، پنجاب نیشنل بینک سے 600؍کروڑ، یونین بینک سے 400؍کروڑ، الہ آباد بینک سے 300؍کروڑنیز اوربھی کئی دیگر بینکوں سے بابا رام دیو کوکُل 3200؍کروڑ روپے کا قرض مل گیا۔ اس کے بدلے روچی سویا نے اپنے شیئرز بینکوں کے پاس گروی رکھادئیے۔اس کے بعد پتن جلی کو ایک کمپنی مل گئی جو کہ پہلے سے ہی اسٹاک ایکس چینج میں درج تھی اور جس کے پاس پہلے سے ہی ایک نیٹ ورک تھا۔روچی سویا کو دوبارہ شیئر بازار پر ٹریڈنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ یہ جنوری۲۰۲۰ء کی بات ہے اور اس کے بعد سے ’روچی سویا‘ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ’روچی سویا‘ جب شیئر بازار پر دوبارہ آئی تب اس کے ایک شیئر کی قیمت لگ بھگ 17؍روپے تھی۔ شیئر بھاگنا شروع کیا۔ مارچ میں ہی لاک ڈاؤن لگ گیا لیکن ’روچی سویا‘ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شیئر بھاگتا رہا اور محض پانچ مہینے میں یہ شیئر 17؍روپے سے بڑھ کر 1500؍روپے فی شیئر ہوگیا۔ یعنی ایک لاکھ روپے مالیت کے شیئر کی قیمت محض پانچ مہینوں میں 85؍لاکھ روپے ہوگئی ۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جو کمپنی جنوری میں صرف 500؍کروڑ کی تھی وہ صرف پانچ مہینوں میں 44500؍کروڑ کی ہوگئی ۔اپنے شیئر کے دام کے لحاظ سے محض پانچ مہینوں میں بابا رام دیو کی کمپنی ملک کی کئی قدآور کمپنیوں جیسے ٹا ٹا اسٹیل، ہندوستان پٹرولیم، پنجاب نیشنل بینک اور کولگیٹ انڈیا جیسی کمپنیوں سے بھی بڑی ہوگئی ۔کمپنی نے ترقی کے یہ گھوڑے لاک ڈاؤن میں دوڑا دئیےجبکہ اشیاء کی بہت زیادہ فروخت بھی نہیں تھی۔ اسٹاک مارکیٹ کوئی جوئے کا اڈہ نہیں ہے ، یہاں بہت سارے قوانین و ضوابط ہیںاور عروج و زوال کا ایک رجحان ہے ۔ کوئی بھی کمپنی ایسی آندھی طوفان سے عام طو رپر ترقی نہیں کرتی ہے اگر کسی کمپنی نے ایسی ترقی کی ہے تو اس میں اس کے منافع یا بزنس کا نہیں بلکہ کسی اور چیز کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ شیئر بازار میں بیٹھے لوگ بیوپاری ہوتےہیں ۔وہ کسی عقیدت یا روحانی طاقت کے قائل نہیں ہوتےہیں وہ صرف بازار کے قائل ہوتےہیں۔ شیئربازار میں بھی لوگوں نے پتن جلی کے شیئر کی معجزاتی رفتار پر سرخ بٹن دبا دیاہے ۔ سیبی کو اس بارے میں شکایت پہنچنے لگی ہے کہ وہ روچی سویا شیئر کی قیمتوں میں ہونے والے اندھا دھند اضافہ کی تحقیقات کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے۔ماہرین کے مطابق روچی سویا کے شیئر میں ہونے والا اضافہ بیوپار کے کسی بھی زاویے سے صحیح نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ کمپنی نے اپنے جنوری2020ء سے لے کر مارچ 2020ءکے سہ ماہی کی بیلنس شیٹ بھی پیش کردی ہے جس میں کمپنی کو پچھلے سال یعنی 2019ءمیں اسی مدت ہونے والے منافع کے مقابلے میں 41؍کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ روچی سویا کے بارے میں ایک بات اور دلچسپ ہے کہ اس کمپنی کے 99؍فیصد شیئر کمپنی کے پروموٹرس(مالکین) کے پاس ہے اور صرف ایک فیصد شیئر پبلک کے پاس ہے ۔ شیئربازار کے قوانین کے مطابق کسی بھی کمپنی کا کم از کم 25؍فیصد شیئر پبلک کے پاس ہونا چاہئے ۔ اس لحاظ سے اگلے ایک سال میں روچی سویا کو اپنے 24؍فیصد شیئر بازار میں اتارنے پڑیں گے۔ اگر یہ شیئر انتہائی مہنگی قیمت پر بازار میں اتارے گئےتو اس سے بابا رام دیو کو بازار سے ہزاروں کروڑ روپے نقد بہت ہی آسانی سے مل جائیں گےلیکن اس کے بعد شیئر میں کیا ہوگا؟ یہ بات کسی کو نہیں پتہ۔اس کے بعد اگر شیئر میں گراوٹ آئی تو جلد منافع بنانے کے چکّر میں یہ شیئر خریدنے والے چھوٹے سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے دھواں بن جائیں گےکیونکہ فی الحال کمپنی کا شیئر جس قیمت پر فروخت ہورہا ہے ، وہ قیمت اس کمپنی کے بزنس اور اس کے منافع و نقصان کو دیکھتے ہوئے کسی بھی طرح سے واجب نہیں سمجھا جارہا ہے ۔’روچی سویا‘ پر بابا رام دیو کا دست ِ شفقت ہونا اچھی بات ضرور ہے لیکن یاد رہے کہ ’روچی سویا‘ بذاتِ خود پتن جلی نہیں ہے ۔پتن جلی ایک علیحدہ کمپنی ہے جس نے روچی سویا میں سرمایہ کاری کی ہے ۔ رہی بات پتن جلی کے بہت زیادہ منافع کمانے کی ،تو پتن جلی کا منافع پچھلے تین سال سے کم ہورہا ہے ۔ 2012ء میں بنی یہ کمپنی 2016ء تک منافع میں اضافہ کررہی تھی لیکن اس کے بعد سے بتدریج تنزلی کا شکار ہے جو اچھے اشارے نہیں ہیں۔وہ خطرات جو ’روچی سویا‘ کے ساتھ ہوسکتےہیں، وہ یہ ہیں کہ یہ کمپنی بابا رام دیو کی ایک سرمایہ کاری ہے جو انہوں نے ۴۳۰۰؍کروڑ میں خریدی ہے ۔ کل کو ہوسکتا ہے کہ بابا رام دیو اس کمپنی کو 43؍ہزار کروڑ میں فروخت کرکے روچی سویا سے ناطہ توڑ لیں۔ بابا رام دیو کے بارے میں ایک بات تو اب پورا ہندوستان مان چکا ہے کہ بابا رام دیو بھلے ہی اچھے یوگا کے گرو ہیں یا نہیں لیکن وہ ایک اچھے بزنس مین ضرور ہیں جنہیں دوسروں کے پیسے سے کھیلنا آتا ہے۔