آج سارے ملک میں ڈاکٹر عاصمہ بانو کی طبی خدمات کی ستائش کیوں کی جارہی ہے۔؟

ڈاکٹر عاصمہ بانو
ڈاکٹر عاصمہ بانو

محمد امین نواز(بیدر)کرناٹک
کوویڈ۔19اسپتالوں میں بچوں (کورونا مثبت بچوں)کی تعداد روزانہ بڑھتی جارہی ہے۔ان متاثرہ بچوں کو اسپتال میں پُر سکون رکھنا ڈاکٹروں‘نرسوں اور دیگر ماہرین ِ صحت کیلئے یہ آسان نہیں ہے۔بیماری اور دواخانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘لوگ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کسی انسان کو پولیس اسٹیشن‘عدالت‘ اور دواخانے کا منہ کبھی نہ دکھائے۔اور اگر دواخانہ کسی بڑے شہر میں ہو تو غریب مریض تو چھوڑئے امیر لوگ بھی کانپ اُٹھتے ہیں۔ وجہ دواخانوں کی بھاری بھرکم فیس‘اکثر ڈاکٹروں کا بے رحمانہ رویہ ٹسٹ کے نام پر مُختلف شعبہ جات کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریضوں کا استحصال وغیرہ ایسی وجوہات ہیں جن کے بارے میں سوچ کر اچھے اچھے لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ایسے میں بچوں کے امراض کے ڈاکٹروں کی صورتحال بھی اسی طرح ہوتی ہے۔اکثر والدین اپنے بچوں کی بیماری نہیں سمجھتے۔اور بیماری کی پہچان ڈاکٹروں پر چھوڑ دیتے ہیں‘کیونکہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ انھیں کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے۔بچوں کے علاج کیلئے والدین ڈاکٹروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔اور آج کے اس پُرآشوب مہنگائی کے دور میں بچوں کے علاج کیلئے والدین کافی فکر مند اور پریشان رہتے ہیں اور ڈاکٹروں کی رحمدلی ان کیلئے ان کے بچوں کے ساتھ شفقت و سلوک اور ہمدردی ہی صحت مند ہونے کی اُمید کی نئی کرن ثابت ہوتی ہے۔
ایسے پُر آشوب مہنگائی کے دور میں کورونا وائرس کی وباء بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔کورونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ آج دنیا بھر میں جو سلوک کیا جارہا ہے وہ انسانی ہمدردی کے برعکس ہے۔ایسے ماحول میں بنگلورو میں ایک ڈاکٹر ایسی بھی ہیں جو کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کے علاج کے ساتھ ان کی ہر ممکن خواہش کو پورا کرتی ہیںبچوں کے کھلونوں سے لے کردوسہ،چاکلیٹ،برگر،نوڈلز،پیزا برگر،صابن،تیل،شیمپو،نیل کٹراور چپل جیسے ان کے مطالبات بھی مُختلف ہوتے ہیں۔ کئی بار تو وہ اپنے پیسوں سے ان متاثرہ بچوں کے مطالبات بھی پورے کئے ہیں۔بنگلورو شہر کے وکٹوریہ ٹروما اینڈایمر جنسی کیر سنٹر کی نوڈل آفیسر46سالہ ڈاکٹر عاصمہ بانو 20سال سے پیشہ طب سے وابستہ ہیں اور وہ مائیکرو بایولوجسٹ ہیں۔ڈاکٹر عاصمہ بانو کورونا متاثرہ بچوں (مریضوں)کیلئے ہمدرد و شفیق ڈاکٹر ہیں جن کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ڈاکٹرعاصمہ بانو نے بتایا کہ اسپتال میں کسی بھی دن15-20بچے مریض ہوتے ہیںان بچوں کے ساتھ سلوک کرنا ایک نیا تجربہ ہے جس میں ان کیلئے چیلنج بھی ہے۔وہ علاج کے ساتھ بچوں کی تقریبا ہر خواہش پوری کرتی ہیں۔ جب کچھ بچے خصوصی کھانا مانگتے ہیں تو کبھی کبھی وہ ان کی اس خواہش کو پوری کرنے کیلئے مارکٹ سے یا کبھی اپنے گھر سے بناکر انھیں دیتی ہیں۔ان کے مطابق بچوں کو اسپتال میں خوش،مطمئن اور پُر سکون رکھنا ضروری ہے۔ بچوں سے انھیں بے حد پیا رہے۔ انھو ں نے بتایا کہ بہت سے مریض (بچے)اسپتال یونیفارم پہننا نہیں چاہتے ہیںایسی صورتحال میں کئی بار وہ اپنے گھر یا یا رشتہ داروں سے کپڑے تک لا کر دیتی ہیں۔زیادہ تر بچے نئی چپلوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔جسکی وجہ وہ اب تک انھیں سمجھ میں نہیں آئی۔ کئی بار وہ بچوں کو چپل لاکر دی ہیں اور اس کام میں ان کے بیٹے نے کافی مدد کی ہے۔کئی بچے گیمس چاکلیٹ اور کیک کی ضِد بھی کرتے ہیںکئی بچوں سے تو وہ ملی تک نہیں ہیںکیونکہ وارڈ کے اندر زیادہ تر ڈاکٹروں اور نرسوں کو متعین کیا جاتا ہے۔ تاہم انھوں نے مریضوں کیلئے واہٹس ایپ گروپ برقرار رکھا ہےپیغام ان تک پہنچتا ہے جن کوضرورت ہوتی ہے۔وہ مجھے نہیں دیکھےانھیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ڈاکٹر عاصمہ انھیں وہی سب کچھ دیتی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ڈاکٹر بانو بتاتی ہیں کہ خوشی کی حقیقت یہ ہے کہ بچے مکمل صحت یا ب ہونے کے بعد گھر چلے جاتے ہیںدو سے چا رماہ کے بچوں کو بھی داخل کیا جاتا ہےاگر والدین ان کے ساتھ نہیں ہیں تو بچوں کو زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ وہ بچوں کیلئے مُختلف کھیلوں کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔بہت سے بچے خود کو پینٹنگ لڈو،کیرم فنگر بورڈ، اسٹوری بُکس میں مصروف رہتے ہیں ان کے مطالبات عمرکے مطابق ہوتے ہیں۔کئی بچے کپڑوں کا ماسک طلب کرتے ہیں۔ڈاکٹر بانو ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہی خاندان کے8اور10سال کے دو بچے تھے اور عید کی رات دونوں کسی بات پر ایک دوسرے سے لڑائی کررہے تھےکورونا نیگیٹیو ہونے کی وجہ سے ان کے والدین گھر پر تھے بعدمیں والدین سے فون پر بات کروانے سے بچوں کی مایوسی ختم ہوگئی۔وہ چاہتی ہیں زیر علاج بچوں کے ساتھ ان کے خاندان کی طرح حسنِ سلوکیا جائے‘اور ہمدردی اور شفقت سے بچے بہت جلدی صحت مند ہوجاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *