خوف اور وائرس ہے !

new image
عمر فراھی
کالج ہاسٹل میں رہائش کے دوران ایک بار بجلی چلی گئی تو سارے بچے گرمی کی وجہ سے بلڈنگ کی چھت پر چلے گئے۔ہمارے گروپ کے دوستوں نے بھی کہا کہ جب سب چلے گئے ہیں تو ہم لوگ اکیلے نیچے کب تک چہل قدمی کریں اببستر لے کے چلو چھت پر سوتے ہیں ۔ان میں سے ایک ساتھی جو اپنے ماں باپ کے اکلوتے تھے اور بہت لاڈ پیار سے پرورش ہونے کی وجہ سے مزاج میں تھوڑا نازکیت تھی انہوں نے کہا نابابا میں نہیں جاسکتا اوپر بہت کھلی ہوا ہے میں بیمار پڑ جاؤں گا ۔سب نے کہا اعظم بھائی آپ اکیلے ہی بیمار کیسے پڑ جائیں گے جبکہ سارے ہی بچے جارہے ہیں ۔جب انہوں نے دیکھا کہ نیچے اندھیرا بھی ہے اور کوئی بھی نہیں ہے تو مجبورا تیار ہوگئے۔صبح جب ہم لوگ اٹھے تو دیکھا کہ سارے بچے اپنی کلاس کی طرف بھاگ رہے ہیں اور اعظم بھائی اپنے روم میں چادر اوڑھ کر بخار میں تپ رہے ہیں ۔ انہیں ڈاکٹر کو دکھایا گیا اور وہ دو تین دن میں ٹھیک بھی ہوگئے۔کہنا یہ تھا کہ اعظم صاحب کو جو بخار آیا وہ کوئی ڈینگو چکن گنیا نمونیا برڈ فلو کرونا یا سوائن فلو نہیں تھا ۔اس وائیرس کا نام خوف اور دہشت ہے اور اس کا تعلق آدمی کے ذہن اور نفسیات سے ہے ۔اسے آپ سائیکالوجیکل وائیرس بھی کہہ سکتے ہیں ۔جیسے کہ سائیکا لوجی کے طالب علموں کو پڑھاتے ہوئے کسی زمانے کا واقعہ بیان کیاکہ ایک بار کسی ملک کے کچھ طبیبوں نے یہ جاننا چاہا کہ کیا کسی بھی بیماری کا تعلق کھانے پینے یا باہر کی گندی آب و ہوا اور صرف جراثیم سے ہے یا انسان نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو کے بھی مر سکتا ہے ۔انہوں نے اس تجربے کیلئے اس ملک کے بادشاہ سے رابطہ کیا اور اپنے تجربے کے بارے میں بتایا ۔بادشاہ کے لوگوں نے دو ایسے شخص جنھیں پھانسی دی جانی تھی ان سے ملوایا اور پھانسی کا نظم بھی کر دیا گیا ۔طبیبوں نے ۔مجرموں کے سامنے ہی جلاد سے بات کرنی شروع کی کہ ایک شخص کو تو آپ پھانسی کے ذریعے موت کی سزا دی دیں لیکن یہ جو دوسرا مجرم ہے اسے ہم اپنے طریقے سے موت کی سزا دیں گے ۔اس کیلئے انہوں نے ٹوکری میں سانپ لایا ہوا تھا اور مجرم کو دکھایا بھی کہ تمہیں سانپ سے ڈسوایا جائے گا ۔پھر انہوں نے مجرم کی آنکھ پر پٹی باندھ دی ۔طبیبوں نے سانپ سے ڈسوانے کی بجائے صرف دو لوہے کی سوئی سے اس کے ہاتھ میں ایک ساتھ چبھایا اور مجرم بےہوش ہو گیا ۔تھوڑی دیر میں دیکھا گیا کہ اس کے پورے بدن میں زہر پھیل چکا ہے اور وہ مرگیا ۔چونکہ اس شخص نے پہلے ہی اپنے اندر سانپ کے ڈسے جانے کا تصور بٹھا لیا تھا اس لئے وہ زہر کی بجائے خوف سے ہی مر گیا ۔جدید لبرل طرز سیاست میں یہ بات بھی اپ عام ہو چکی ہے کہ سفید اور کالے کوٹ والے اپنے گاہکوں پر بیماری اور جیل کی سزا کا خوف بٹھا کر کس طرح لوٹتے ہیں ۔عوام کی اسی خوف کی نفسیات کا فائدہ عالمی فارماسیوٹیکل مافیاؤں نے بھی اٹھانا شروع کر دیا ہے۔کتنی عجیب بات ہے نا کہ دس سال پہلے اسی خوف کے عنوان پر ایک بیماری کے نام سے فلم بنائی جاتی ہے اور پھر ایک ملک اپنے ایک شہر کو پوری طرح محاصرہ کرکے پوری دنیا میں اس بیماری کی دہشت پیدا کرتا ہے ۔اس دہشت کو بھی اس طرح مشتہر کیا جاتا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر نہ اختیار کی گئی تو ایک تہائی آبادی ہلاک ہو جائے گی ۔حالانکہ جو ہلاکتیں ہوئی بھی ہیں وہ ہلاکتیں ہر سال دوسری عام بیماریوں سے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی ۔مثال کے طور پر کسی ملک میں دیگر فلو یا امراض سے ساٹھ سے ستر ہزار اموات ہوتی رہی ہیں اگر اسی ملک میں اگلے سال اسی ہزار لوگ مر جائیں تو اسے ایک مخصوص بیماری کی فہرست میں شمار کرکے دہشت پھیلانے کا کیا مطلب ؟ اس کا مطلب کہ کچھ مطلب ضرور ہے ! یا پھر یہ سمجھا جائے کہ دیگر فلو جیسے کہ ڈینگو چکن گنیا ٹائی فائیڈ سوائن فلو اور برڈ فلو شوگر اور کینسر جیسی بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہے اور لوگ صرف کرونا سے ہلاک ہو رہے ہیں !! یہ بھی ایک عجیب فتنہ ہے کہ WHO نے دنیا کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ وہ جو دکھا رہے ہیں لوگوں کو وہی دیکھنا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں ابھی تک ایسا کبھی تو نہیں ہوا ۔حیرت ہے ایسی دھاندھلی آزادانہ جمہوری ماحول میں ہو رہی ہے !
ایران کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہے اور اس سازش میں امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں ۔امریکہ کہتا ہے کہ یہ چین کی طرف سے بایولوجیکل وار ہے جبکہ چین خود یہ الزام امریکہ پر لگا چکا ہے ۔دنیا کے دیگر ترقی پزیر ممالک کے ڈاکٹر یا تو مختلف اوقات میں پیدا ہونے والے چیچک پولیو ایڈس اور کرونا جیسے اس وائیرس سے لا علم ہیں یا وہ WHO کی اجازت کے بغیر آزادانہ تحقیق کرنے کی جرآت نہیں کر سکتے ۔یا پھر یہ سمجھا جائے کہ میڈیکل سائنس کے یہ ماہرین ایک مخصوص ورلڈ آرڈر کے پابند ہیں !ہم اسے دجال کا فتنہ بھی تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ سازشی ذہنیت کا انکار کرنے والے کچھ مسلمان قرآن سے دجال کا ثبوت مانگتے ہیں !میں نے دیکھا ہے قرآن میں کہیں پر مسلمانوں کیلئے ختنے کا بھی حکم نہیں ہے پھر بھی مسلمان اپنے بچوں کا ختنہ کرواتا ہے ۔
قرآن سے دجال کا ثبوت مانگنے والے پتہ نہیں مختون ہیں یا غیر مختون ؟قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ جو مختون نہیں ہوتے اس نے ان کے ختنون میں بھی وائیرس پیدا کر دیا ہے !جن مذاھب میں ختنے کی کوئی روایت نہیں ہے وہ اس خوف سے ختنہ کروانے لگے ہیں کہ کہیں وائرس نے جڑ پکڑ لیا تو ختنہ جڑ سے ہی نہ کروانا پڑ جائے! احتیاط لازمی ہے لیکن دل میں خوف نہ پیدا ہونے دیں ۔موت ہو بھی گئی تو کیا ہوا ۔موت مومن کی معراج ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *