ڈاکٹر سلیم خان
عبدالباری مومن صاحب بھی درمیان سے اٹھ کے چلے گئے اور اپنے پیچھے بہت ساری یادیں چھوڑ گئے۔ یادوں کے گلشن میں پھول اور کانٹے دونوں ہوتے ہیں اور بیشتر پودوں میں بیک وقت پھول اور کانٹے ہوتے ہیں لیکن عبدالباری مومن سراپہ خوشبو تھے ۔ہمارے دوست حسرت خان نے ایس آئی ایم سے تعارف کرایا اور ڈاکٹر رحمت اللہ نے تنظیم سے جوڑ دیا۔ڈاکٹر احمداللہ صدیقی ناگپور کانفرنس کی دعوت دینے کے لیے ممبئی آئے تو ایک قافلہ بن گیا۔ صدی ہجری تقریبات کا انعقاد ہواتو کل ہند صدر ڈاکٹر ذکی کرمانی نے ممبئی آکر کیرالہ میں تربیتی اجتماع کی دعوت دی ۔ اس موقع جن لوگوں کو ناگپور میں دور سے دیکھا تھا انہیں اور تحریک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ سچ تو یہ ہے مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کا شعوری سفر وہیں سے شروع ہوا۔اس یادگار سفر میں عبدالباری مومن صاحب بھی میرے ساتھ تھے ۔ ان کی رحلت پر اس سفر کا ایک دلچسپ واقعہ دل کے نہاں خانے سے جھانک رہا ہے ۔ریل گاڑی میں ریزرویشن نہیں ملا تو بس سے جانے کا ارادہ کیا گیا ۔ممبئی سے کالی کٹ 36گھنٹے اور وہاں سے کوچین مزید 4،اس طرح جملہ ۴۰ گھنٹوں کا سفر میرے لیے پہلا تجربہ تھا۔ ہم لوگوں نے لگژری سے ٹکٹ مختص کروایا اور اور سائن پہنچے تو وہاں عام سی بس کھڑی تھی۔ عزیزم آزاد اقبال نے بس والے سے کہا ہم نے آرام دہ بس کا کرایہ دیا ہے ہم اس سے سفر نہیں کریں گے۔ وہ بولا صاحب بس اچانک خراب ہوگئی ہے ۔ ایک دن میں ایک ہی بس جاتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسی کرایہ پر کل اسی وقت سفر کریں میں سیٹ بک کردیتا ہوں ۔ یہ سن کر ہم لوگ سکتہ میں آگئے۔ ایک دن تاخیر کا مطلب اجتماع سے ایک دن کی محرومی تھا ۔ عبدالباری صاحب بولے وقت پر پہنچنا اہم اور آرام ثانوی ہے ۔ ان کاارادہ ایسا پختہ تھا کہ اگر ہم لوگ اگلے دن جاتے تب بھی وہ اسی دن چلے جاتے خیر ہم تینوں روانہ ہوگئے۔ہم تینوں میں سب سے معمر اور تجربہ کار عبدالباری مومن صاحب تھے اس لیے وہی امیر سفر ہوگئے۔ رات کو میں نے ان سےکہا مجھے نیند آرہی ہے ۔ وہ مسکرا کر بولے تو سوجاو۔ میں نے کہا لیکن بیٹھے بیٹھے نہیں سوسکتا ۔ انہوں نے پوچھا چادر ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں تو بولے دیکھو آگے ڈرائیور کے پاس ذرا سی کشادہ جگہ ہے وہیں چادر بچھاکر سوجاو۔ میں ہمت کرکے وہاں گیا اور چادر بچھا سوگیا ۔ صبح دم بس کسی مقام پر رکی تو عبدالباری صاحب نے مجھے جگا کر کہا اٹھو نماز پڑھ لو۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگانے والا عبدالباری آج چپ چاپ ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلا گیا۔ اس سفر سے واپسی پر ایک ایسا انوکھا واقعہ رونما ہوا جو چالیس سال بعد بھی ذہن میں تازہ ہے۔ ہم لوگ سائن اسٹیشن ا ٓئے ۔ عبدالباری مومن صاحب کو کلیان سے ہوکر بھیونڈی جانا تھا ۔ انہوں واپسی کا ٹکٹ خریدا ، میں نے پوچھا یہ آپ ریٹرن ٹکٹ کیوں لے رہے ہیں؟ کل واپس آنا ہے کیا؟ انہوں نے کہا نہیں آتے وقت طویل قطار اور بس کے چھوٹ جانے کے سبب ٹکٹ نہیں لے سکا تھا ۔ اس لیےلوٹ کر آنا نہیں ہے مگر واپسی کا ٹکٹ لے رہا ہے۔ تقویٰ کا ایسا درس مجھے پھر اس کے بعد زندگی میں کبھی نہیں ملا۔ یہ درس وہی دے سکتا ہے کہ جسے اپنی جیب میں پڑے دنیا سے واپسی کے ٹکٹ کا شعور ہو۔ عبدالباری مومن صاحب نے اس بار اس ٹکٹ کا استعمال کرلیا اور کبھی نہ لوٹنے کے لیے اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے۔ یہ سہانا سفر اپنے اس خالق و مالک کی طرف ہے کہ جس سے وہ عمر بھر ڈرتے اور محبت کرتے رہے ۔ بقول تابش دہلوی ؎
ربط کیا جسم وجاں سے اٹھتا ہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
ابتدائی زمانے میں ممبئی اور اس کے قرب جوار کے اندر ایس آئی کا اپنا دفترکہیں بھی نہیں تھا ۔ پہلے باندرہ ایجوکیشن سوسائٹی میں جی ایم صدیقی صاحب نے بیٹھنے کی اجازت دے دی پھر مرحوم فیض الرحمٰن صاحب نے ممبئی میں اپنی ایک دوکان استعمال کرنے کے لیے عطا کردی ۔ اس دوکان کے دودروازے اور دو دیواریں تھیں۔یوم ملاقات کے دن شام کے وقت جتنے لوگ اندر اس سے زیادہ باہر ہوتے تھے لیکن بھیونڈی میں تنظیم کا خاصہ کشادہ دفتر تھا۔ اس میں لائبریری تھی اوراجتماعات بھی ہوتے تھے ۔میں نے اپنے کسی ساتھ سے دریافت کیا یہ بھیونڈی میں ہی اپنا دفتر کیوں ہے ؟ تو جواب ملا وہاں عبدالباری مومن ہیں۔ وہ ہم لوگوں سے پہلے ریٹائر ہوگئے اور اس کے بعد بھیونڈی میں ممبرس کا اجتماع منعقد ہوا۔ عبدالباری صاحب سارے کاموں میں پیش پیش ہوتے لیکن پروگرام کے وقت اجتماع گاہ سے چلے جاتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں نکل جاتے ہیں تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔ اب میں ریٹائر ہوگیا ہوں ۔ ان کے لیے تنظیم میں شامل ہوجانا اور اس سے ریٹائر ہوجانا کس قدر آسان تھا ۔ ان کے مزاج ایک خاص قسم کی متانت و سنجیدگی تھی کہ چالیس سالوں کے ساتھ میں ان کو میں نے کبھی کسی کی شکایت یا ناراضی و بیزاری کا اظہار نہیں دیکھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان سے مل کرہمیشہ یک گونہ مسرت و اطمینان حاصل ہوتا تھا۔
بھیونڈی میں کتاب میلہ کے وقت کہنے لگے گھر چلو ۔ میں نے پوچھا کیوں تو کہا کھانا کھائیں گے ۔ میں ازراہِ مذاق کہا میں یہ دوکانداری چھوڑ کر آپ کے ساتھ کیوں آوں تو بولے اچھا تومیں کھانا لے آتا ہوں ۔ وہ بڑی آسانی سے مشکل مسائل کا حل پیش کردیتے تھے ۔روزنامہ انقلاب اورسہ روزہ دعوت میں ان کے مضامین دیکھ کر جی خوش ہوجاتا کہ ہمارا ایک ہم پیالہ ہم نوالہ ان مؤقر اخبارات کی زینت بنتاہے۔تحریکی سفر کے دوران ہم لوگ بحث و مباحثے میں مصروف رہتے اور ریل گاڑی کے چھوٹنے کا وقت آتا تو عبدالباری صاحب یاد دلاتے چلو جلدی کرو وقت ہوگیا ہے۔ صبح دم سفر درپیش ہوتا تو پہلے خود تیار ہوتے اور پھر ہمیں جگاتے اٹھو وقت ہوگیا ۔ اس بار وہ جگائے بتائے بغیر تیار ہوکر چلے گئے لیکن ان کے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں۔ چلو اٹھو ، جلدی کرووقت ہوگیا ۔ گاڑی چھوٹ جائے گی لیکن یہ اب وہ ایک ایسی سواری میں محو سفر ہیں جو اپنے مسافر کو پیچھے نہیں چھوڑتی ، اپنے ساتھ لے کر ہی جاتی ہے۔ اس سفر کی منزل پر اللہ تعالیٰ ان کے استقبال میں ارشاد فرماتا ہے :’’اے نفس مطمئن ، اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا ۔ رب کائنات ان کا یہ سفر خوشگوار کرے ۔ مگر پھر بھی اس غمگین دلِ کو یہ کہنے سے کوئی کیسے روکےکہ ؎
اک خلاہے جو پر نہیں ہوتا جب کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے۔