عبدالسلام عاصم
ہند چین ممکنہ جنگ کی صورت میں ہندستان کی خارجہ پالیسی چین پر بھاری پڑے گی۔ اگرچہ ہندستان نہ تو سرد جنگ کے زمانے میں جنگی ارادے کے ساتھ کسی بلاک میں شامل تھا اور نہ ہی آج وہ کسی بھی بڑے فوجی اتحاد کا حصہ ہے، باوجودیکہ یک قطبی دنیا کو ایک بار پھر ذوقطبی بنانے بظاہر چینی کوشش کے منفی نتیجے میں ہندستان کو دفاعی محاذ پر اپنی خارجہ پالیسی کا زبردست فائدہ ہوگا کیونکہ زیادہ تر بڑی طاقتوں کے ساتھ ہندستان کے اسٹریٹجک اور فوجی تعلقات ہیں۔ ہندستان کے قریب سمجھے جانے والے ممالک میں امریکہ، اسرائیل، روس اور فرانس ہی نہیں، بنگلہ دیش، افغانستان اوربھوٹان جیسے ہمسائے بھی شامل ہیں۔
زیادہ تر لوگ 1962 کی ہند چین جنگ کو دو حوالوں سے جانتے ہیں۔ ایک یہ کہ چین ہمیشہ ہندستان کو اپنی اس مسلط کردہ جنگ کی یاد دلاتا رہتا ہے اوردوئم یہ کہ ہندستان اس جنگ کے حوالے سے مسلسل اس موقف پر قائم ہے کہ ایک دھوکہ کھا چکے ہیں اور کھا سکتے نہیں۔ ان دونوں حوالوں سے قطع نظرسابقہ زائد از دو دہائیوں میں دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے! ذو قطبی دنیا کے یک قطبی ہو جانے کے بعد گلوبلائزیشن اور اطلاعاتی تیکنا لوجی کے انقلاب سے ہندستان سمیت کئی بڑے ممالک بڑے پیمانے پر انقلاب آفریں ہوئے ہیں!! ان سب کا جامع احاطہ کرنے کے بعد ہی کوئی نیا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ آیا آئندہ ہند چین روایتی جنگ کا کہیں کوئی اندیشہ ہے!!! اور بالفرض زبردست جنگی صلاحیت رکھنے والی دونوں نیوکلیائی طاقتیں ٹکراگئیں تو چین کو خود کس تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے!!!! اگر اس تجزیہ کو ایک جملے میں اس طرح سمیٹنے کی کوشش کی جائے کہ متعلقہ رخ کے طالب علم اس سے استفادہ کر سکیں تو کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح دو عالمی جنگوں کے بعد 1945 میں برطانیہ عظمیٰ کی توسیع پسندی کا آخری باب بند ہونا شروع ہواتھاا سی طرح 2045 تک چین اپنے تما م منفی توسیع پسندانہ عزائم سے تائب نظر آئے گا۔
اقتصادی ترقی میں اگر چین منڈی رخی اشیا سازی میں ہندستان کے ساتھ ساتھ کئی بڑی صنعت یافتہ ممالک کے صارفین تک پہنچ چکا ہے تو دوسرے ممالک نے بھی سائنسی ترقی بالخصوص اطلاعاتی تیکنالوجی کا جو جال پھیلا یا ہے اس کی کمان تک چین سمیت کسی بھی دھوکے باز تاجر کی رسائی اتنی آسان نہیں رکھی گئی ہے کہ پلک جھپکتے کوئی ان کا سب کچھ بگاڑ دے اور وہ منہ دیکھتے رہ جائیں۔ چین کوروناوائرس کے معاملے میں دنیا کو اعتماد میں نہ لے کر وہ غلطی کر چکا ہے جس کا ارتکاب تو لمحوں میں ہو جاتا ہے مگر پھر صدیوں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
دنیا سے آنکھیں ملانے کی فوجی طاقت حاصل کرنے کے بعد چین نے اقتصادی رخ پر رفتار زمانہ سے اپنی ہم آہنگی کواپنے توسیع پسندانہ عزائم سے اسی طرح جوڑ دیا تھا جس طرح برطانیہ نے اپنی اوراپنی کالونیوں کی فوجی طاقت کو استعمال کیا تھا۔ چین کا مقصد 2010 سے 2020 تک اپنی معیشت کے سائز کو دوگنا کرنا تھا، اور درون ملک غریبی کے خاتمے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے چھ فیصد سالانہ ترقی کو اس نے لازمی بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اس کے لئے اس نے جو اقتصادی چالیں چلیں وہ دنیا پر مرحلہ وار لیکن تیزی سے منکشف ہوتی گئیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 2020 کے لئے جو پیشن گوئی کی گئی ہے اس میں پورے سال کے دوران چین میں ایک عشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہی دکھایا جا رہاہے۔ یہ دوٹوک زوال ہے اور 1976 میں ماو زی تنگ کے ثقافتی انقلاب کے آخری سال کے بعد کی بدترین سالانہ کارکردگی ہے۔
یہی وجہ کہ چین نے اپنی معیشت کے مدافعانہ اور جارحانہ یعنی دو رخی ریسکیو آپریشن کا جارحانہ رخ ہندستان کی طرف موڑ دیا ہے تاکہ اسے سرحدی معاملات میں الجھا کر مدافعانہ محاذ کی وسعت کم کی جا سکے۔چین نے اپنے طورپر اس کی جو بھی پلاننگ کی ہو، عصری گلوبلائز عہد میں کسی بھی منصوبے کو ریموٹ کنٹرول سے عمل میں لانے کی محرکات کی بھنک پوشیدہ نہیں رکھی جا سکتی۔ ہندستان نے غالباً اسی ادراک کے ساتھ درون ملک عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کیلئے اپنی فوجی توجہ کا رخ جہاں سرحد کی طور موڑ رکھا ہے۔ دوسری طرف وہ برون ملک چین کے بدلے ہوئے سرحدی عزائم کو ناکام بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔پچھلے ایک ڈیڑماہ کے درران پیش آنے والے واقعات کا دنیا نے جس طرح نوٹس لیا ہے اور میڈیا تک جو باتین چھن کر آئی ہیں وہ ہندستان سے زیادہ چین کے اندیشوں سے عبارت ہیں۔
چین کے اس دوہرے کھیل کے باوجودایسا ہر گز نہیں سمجھنا چاہئے کہ چین سرحدی دراندازی یا متنازعہ علاقوں پر اپنے قبضے سے باز آجائے گالیکن دوسرا سچ یہ ہے کہ اِس رخ پر نہ تو چین1962 کو دہرانے کا متحمل ہے اور نہ ہندستان چین کی طرف سے کہیں پہ نگاہیں اور کہیں پہ نشانہ والی چال کو کامیاب ہونے دے گا۔ بہ الفاظ دیگر ہم واقعی دوبارہ دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ابھی کچھ دن پہلے ہندستان اور چین کے اسٹریٹیجک تعاون کا ایک سے زیادہ سیاسی گلیاروں میں تذکرہ ہو رہا تھا۔برطانوی کالونی سے چینی کالونی میں تبدیل ہوجانے والے پاکستان کو بھی ایسا لگنے لگا تھا کہ حالات (خارجی ترجیحات بدلنے والی) کروٹ لے رہے ہیں۔ بیجنگ میں ہندستانی سفیراشوک کانٹھا سے چینی صدر شی جن پنگ کی ایک خصوصی ملاقات نے اسلام آباد کے کان کھڑے کر دیئے تھے۔اس کے بعد آج کا منظر نامہ ایسا ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج کو محاذ آر ا دیکھ کران لوگوں کے بھی ہوش اڑ گئے ہیں جن کے تجزیوں پر اخبارات انحصار کرتے تھے۔
ہندستان نے چین کی دورخی چال کو سمجھنے میں اس بار کوئی غلطی نہیں کی۔ اگر دوسرا اشیاسازی کے ذریعہ دوسرے ملکوں کے صارفین تک پہنچنے کی طرح جنگی جنون کے ذریعہ بھی ہندستان کے عوام کو ہراساں دیکھنا چاہتا ہے تو ہندستان بھی اس کا اب پوری طرح متحمل ہے جبھی تو ہندوستانی فضائیہ نے ابھی پرسوں سنیچر کے روز لداخ میں سرحد کے قریب ایک فارورڈ ایئر بیس پر فضائی کارروائی کی۔ ہندستانی فضائیہ (آئی اے ایف) کا اپاچی جنگی ہیلی کاپٹر، ایس یو 30 ایم کے آئی اور مِگ 29 لڑاکا طیارہ اس اسکواڈرن کا حصہ تھا جس نے اونچائی والی پہاڑیوں میں جنگی انداز کی اڑانیں بھریں۔
وزیر اعظم کے سرحد کے دورے نے جہاں درون ملک عوام اور سرحد کے محافظوں کے حوصلے بلند کئے ہیں وہیں دوسری طرف چین نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ اگر اس نے اسے اہمیت نہیں دی ہوتی تو جس طرح 15جون کی فوجی جھڑپ میں اس نے اپنے جوانوں کے جانی نقصان کو تعداد کی شکل میں پیش کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ بس دوطرفہ نقصان تک منظر نامے کو متوازن دکھانے کی کوشش کی اسی طرح مسٹر مودی کے سرحدی دورے پر بھی گلوبل ٹائمز کا ردعمل نوٹس نہ لینا ولا ہی ہوتا۔
چین کے ساتھ دشواری یہ ہے کہ وہ عالمی اور علاقائی سطح پر بدلے ہوئے حالات کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے بری طرح متصادم پا رہا ہے جو اسے بار بار احساس دلا رہے ہیں کہ توسیع پسندی کا وہ دور ختم ہوچکا ہے جس کی روایت پر وہ آج بھی قائم ہے۔وزیر اعظم نے بھی اہپنے حالیہ سرحدی دورے میں چین پر یہی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دور ترقی کا دور ہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے اس دور میں اس توسیع پسندی کیلئے اب کوئی گنجائش نہیں جس نے بیسویں صدی میں ہی مرحلہ وار اپنی کشش کھونی شروع کر دی تھی۔ تاریخی دستاویزات مظہر ہیں کہ توسیع پسندی نے انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
نئی صدی میں عوامی خوشحالی رخی ترقی ہی سب کچھ ہے اور ہر قوم کے پاس بقا کے لئے ترقی ہی مستقبل کی بنیاد ہے۔ توسیع پسندی کی کی ضد جب جب کسی پر سوار ہوئی ہے، اُس نے دنیا کا امن و سکون غارت کیا ہے۔اس کا ادراک کرنے والوں میں برطانیہ بھی شامل ہے جس کے نام کے ساتھ لفظ عظمیٰ عملاً اب صرف عبرت کیلئے ہے۔انہی تجربات کی بنیا پر نئی الفی میں پوری دنیا میں توسیع پسندی کے خلاف ذہن بنالیا گیا جس کی طرف وزیر اعظم مسٹر مودی نے بھی دوٹوک اشارہ کیا ہے۔
رہ گئی بات باہمی انحصار کی دنیا میں عدم توازن ختم کرنے کا تو ہر تبدیلی راتوں رات نہیں آتی۔ہندستان اور چین کے درمیان در آمدات اور برآمدات میں نمایاں فرق کو ویسے بھی کم ہونا تھا اب اس میں مہمیز لگ جائے گی۔ زوم، اسکائپ، گوگل میٹ یا فیس بک میسنجر رومز کے شعبہ جاتی میدانوں میں اب ہندستان بھی قدم رکھنے جارہا ہے۔
ویڈیو چیٹ یا کانفرنسنگ کے محاذ پر نئی نسل کے ہندستانی صنعت کارمکیش امبانی ان تمام پلیٹ فارمز کو سخت ٹکر دینے کے لیے تیاربتائے جاتے ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق ریلائنس جیو کے پلیٹ فارم سے حال ہی میں 15 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور اب یہ کمپنی ویڈیو کانفرنسنگ کی دنیا میں بھی قدم رکھ رہی ہے۔ریلائنس جیو کی ویڈو کانفرنس سروس جیو میٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ زوم سے بے حد مشابہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ زوم اور گوگل میٹ کی طرح جیو میٹ میں بھی گنجائشوں کا دائرہ اتنا وسیع رکھا گیا ہے کہ ایک ساتھ کوئی سو لوگ ویڈیو کے ذریعہ آپس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر مربوط ہو سکتے ہیں۔جیو کی یہ اس سروس رات دن کام کرے گی تاکہ صارف کو معاملات کے سفر میں رکنے، ٹھہرنے اور انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع
ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...