
آیاصوفیا،پھر میوزیم سے مسجد میں تبدیل
عالم خان ترکی
عجیب روح پرور منظر تھا نماز عصر کے لیے جماعت کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا تھا ہر طرف خاموشی تھی ایک نوے سالہ بابا جی جوں ہی اپنے پوتے کے سہارے مسجد میں داخل ہوئے اور نعرہ لگایا “اللہ اکبر وللہ الحمد” تو تمام حاضرین کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے سب کی خوشی اور جذبہ دیدنی تھا ایسا لگ رہا تھا کہ استنبول 1453ءمیں نہیں بلکہ آج فتح ہوا کیوں کہ آج آیا صوفیہ کا تاریخی فیصلہ تھا جو خلافت عثمانیہ کی تاریخ کا ایک اہم باب تھا۔ اس تاریخی فیصلے سے جہاں عیسائیوں کو تکلیف تھی ان سے کہیں زیادہ بعض مسلمانوں کو بھی تکلیف تھی جو اس وقت افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس چرچ کو جامع مسجد میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کو تاریخی ورثے پر ایک حملہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت تاریخ کے اوراق سے لاعلم ہیں یا ان سے مسجد میں توحید کی صدائیں برداشت نہیں ہوتی۔
یہ دراصل وہی لوگ ہیں جن کو غرناطہ اور قرطبہ کی تاریخ تو درکنار شاید قرطبہ اور غرناطہ کے نام بھی یاد نہیں جہاں مسلمانوں کی لہولہان تاریخ دفن ہے اس لیے ان لوگوں سے چند تاریخی حقائق عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ان کا درد تھوڑا کم یا زیادہ ہوجائے۔
ان واویلا کرنے والوں کو شاید علم نہیں کہ 1928ءتک دنیا کا قانون تھا کہ فاتح مفتوحہ علاقے کا مالک بن جاتا تھا اور اس میں تصرف کا مختار ہوتا اگر وہاں کی مساجد کو چرچوں یا چرچوں کو مساجد میں کوئی تبدیل کرتا تو کسی کو اعتراض نہیں تھا صرف مسلمان فاتحین نے چرچوں کو مساجد نہیں بلکہ عیسائیوں نے کئی قدیم مساجد کو بھی چرچ میں تبدیل کیا تھا۔ یہ بھول گئے ہیں کہ آیا صوفیہ سے پہلے سپین کے مشہور [Seville] جامع جو 1183-1198ء میں بنایا گیا تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک رمز سمجھا جاتا تھا جوں ہی عیسائیوں کے قبضہ میں آیا تو انھوں نے 1247ء میں اس کی حثیت تبدیل کرکے چرچ بنایا جو تاحال موجود ہے۔ اسی طرح ان کو سپین کے کورڈوبہ [Cordoba] کی وہ تاریخی مسجد یاد نہیں جس کو اموی خلیفہ عبد الرحمن نے 784ء میں بنایا تھا اور فن تعمیر کا ایک شاہکار سمجھی جاتی تھی لیکن عیسائیوں نے 1492ء میں اس کو [Cathederal] چرچ میں تبدیل کردیا۔ یہ لوگ عصر قریب کی الجیریا کی [Ketchaoua] جامع مسجد کا تذکرہ بھی نہیں کرتے جو 16ویں صدی عیسوی میں عثمانیوں نے بنائی تھی جس کو فرانس نے قبضہ کرنے کے بعد 1831ء میں چرچ میں تبدیل کیا اور 1832ء میں اس کے مینار پر فرانس کا جھنڈا لگاکر فتح کا نشان قرار دیا۔
اگر ان کو تکلیف ہے تو صرف آیا صوفیہ کی حیثیت تبدیل کرنے سے ہے حالانکہ ان کو علم نہیں کہ 1453ءمیں سلطان محمد الفاتح اور مجاہدین کے گھوڑوں نے جب استنبول میں قدم رکھ دئے تو اس وقت کے رائج عالمی دستور کے مطابق آیا صوفیہ کو فتح کا نشان قرار دے کر پہلا جمعہ اس میں پڑھایا اور بعد میں رسمی طور پر اس کو مسجد کی حیثیت دے دی گئی جس کو خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد 1934ء میں کمال اتاترک نے مغرب کی خوشنودی کے لیے وزیروں کے مشورہ اور اتفاق سے میوزیم میں تبدیل کیا۔ ترک عوام کی اکثریت اس حیثیت سے ناخوش تھی لیکن جو بھی برسر اقتدار آتا تھا تو مغربی دنیا، دیسی لبرلز اور کمالسٹوں کے خوف کی وجہ سے اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا رجب طیب اردوغان نے وہی پراسیس کرکے اتفاق اور مشورہ کے ساتھ آیا صوفیہ کی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیس کو انتظامی عدالت بھیجا جہاں 1934ء کے میوزیم کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا اور فیصلے کا اختیار صدر مملکت رجب طیب اردوغان کو دیا۔ انھوں نے آج مسلمانوں کے سینوں کو ٹھنڈا کرکے آیا صوفیہ کو دوبارہ جامع مسجد میں تبدیل کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کیا۔ الحمد للّٰہ
معترضین کو شاید علم نہیں کہ اردوغان نے چرچ کو مسجد میں تبدیل نہیں کیا بلکہ ایک مسجد کو میوزیم بنایا گیا تھا اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جہاں اب داخل ہونے کے لیے ٹکٹ کی نہیں بلکہ وضو کی ضرورت ہوگی۔