خطہ اعظم گڑھ کاعلاقہ قالین گنج ،ماضی کے حوالے سے

قالین گنج کی خستہ عمارتیں
قالین گنج کی خستہ عمارتیں

محمد مرسلین اصلاحی
ایک تاثراتی تحریر قالین گنج کی یہ خستہ کوٹھریاں سیاہ رات کے گناہوں کی یادگاریں ہیں ۔ جہاں یارباشوں کی شبینہ خلوتوں کی کہانیاں مدفون ہیں جب رندوں ، سازندوں اور آوارہ طائفوں کے نقرئی قہقہوں سے یہ بازار پر رونق تھا ۔ جہاں کسبیاں بیٹھتی تھیں اور شباب شراب کے جرعوں میں ڈھلتے اور گھل کر شب کی سیاہی مائل رنگت میں گم ہوجاتے۔ اور اجنبی ہاتھ سرسراتے ہوئے آنچلوں ، کنہ نی بانہوں اور عارضوں کی حیا پر بے نام فسانہ لکھ جاتے ۔
اف روشنیوں کا شہر ! جہاں ظلمتیں عام ہوتی ہیں ۔ جہاں عورت تاش کے پتوں کے مانند بکھرتی اور پھر سمیٹ کر واپس اپنی گڈی میں کسی نئے جواری کے انتظار میں رکھ دی جاتی ۔ جہاں کہہ مکرنیاں ہرنیوں کے مانند چوکڑیاں بھرتیں ۔اور جس سے دل کے اٹکاو کا سامان کر لیتیں وہ ان شرفاء کی جاگیر ہوجاتیں ، رباب کے تاروں کی دھنک پر مغنیہ ٹھمریوں کے دھیمے سروں میں قصہء روزگار سناتی ۔ پر درد گیتوں کی ردھم اور نرتکی رقص سے محفلیں جوان ہوتیں ۔ جن شرابیوں اور نشہ خوروں سے یہ بدنام گلی کل تک آباد تھی آج ویرانیوں کا ڈیرہ ہے ۔ وقت نے کیسے اس بازار کی ساری رونقیں چھین لیں پتہ ہی نہیں چلا جو معصیتوں کا اڈہ تھیں ۔ دھیرے دھیرے وقت شرفا کے اثر رسوخ اور کسبیوں کے حسن و جمال کو چباتا گیا ۔ محفلیں اجاڑ ہوگئیں ، درو دیوار کی ساری رونقیں مر گئیں ، فانوس کی روشنیاں بے نور ہوگئیں ،اور شب آرائیوں کے نقشے مٹ گئے۔ جہاں اب شام ہوتے ہی بڑ اور پیپل کے درختوں کا سحر زدہ ماحول خوف کا اعلامیہ ہے ۔ قالین گنج کی یہ رونقیں آج قصہ پارینہ ہوچکی ہیں ۔ جہاں کسبیاں ہر آنے جانے والے راہگیروں کو لبھاتیں ، رجھاتیں ، بلماتیں اور ہر اس شخص کو اپنی طرف متوجہ کرتیں جو “آنکھیں میری باقی ان کا” کی تصویریں ہوتے ۔ جہاں جسم بکتے اور عفتوں کا سودا ہوتا ۔ جہاں دن سوتے اور راتیں جاگتیں ۔ جہاں شرفا داد عیش دیتے اور شرافت کی متاع اس ڈیوڑھی پر لٹا کر نامراد لوٹ جاتے ۔ لیکن ان کی غیرتوں کو ٹھیس نہ پہنچتی۔ گوشت پوست کے اس بازار میں زمانے کا ایک کرب نفس کو مجروح کرتا لیکن دل کے سیاہ خانے میں کہیں بھی اس پر تاسف کا نشان نہ ہوتا اور معصیت کی ساری چکا چوند رات کی دمکتی روشنیوں میں سمٹ کر ناپید ہو جاتیں ۔ اور پھر صبح کے ہاتھوں سب کچھ یوں پر سکوں ہو جاتا جیسے اس گلی میں کبھی کچھ تھا ہی نہیں، صرف پردرد گیتوں کی ٹوٹی ہوئی دھنیں رہ جاتیں ۔ چاندنی ایک معمر قحبہ تھی جس کی تمام عمر اسی بالا خانے کی آلائشوں کی نذر ہوگئی ۔ آج بھی باحیات ہے جس نے اپنی حیا کا جنازہ اس وقت نکالا تھا جب اس کے سگے ماموں نے آیا کے ہاتھوں اس کا سودا کرلیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنی جوانی کی صبحیں اور شامیں قحبہ خانے کی تنگنائے میں کاٹ دیں ۔ اس وقت وہ جواں سال تھی اب معمر ہوچکی ہے۔ کل تلک اس کے لب لعلیں پہ زندگی مچلتی تھی اور آج زندگی کی تلخ حقیقتوں کا ذکر کرتی ہے تو اس کے چہرے کی جھریاں سمٹ کر ایک ہالہ بنا لیتی ہیں ۔ جی لرز اٹھتا ہے ۔ایک چمک عود کر آتی ہے لیکن اب ان تذکروں کا کیا حاصل ۔ ایک ایسا کرب جس کا کوئی رنگ نہ تھا کوئی روپ نہ تھا ، ایک ایسی روئداد جس کا کوئی آغاز نہ تھا کوئی انجام نہ تھا ۔
اس نے اپنی جواں عمر کے ماہ و سال انہیں اجنبی گاہکوں کے ہاتھوں خود سپرد کئے جن کے لئے وہ محض ایک کھلونا بن کر رہ گئی تھی ۔ اس نے کئی درد ناک واقعے بیان کئے ۔ ایک مغویہ کی کہانی اسے اب تک یاد ہے ۔ حالاں کہ وہ بہت کچھ بھول چکی ہے ۔ اس کی آنکھوں میں گزرے ہوئے بے درد ایام کی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں ۔جب وہ بارہ دری کی اوٹ سے جھانکیاں کرتی تو دل درد آشنا جھوم اٹھتے ۔سازندوں کی انگلیاں تار رباب پر گھوم جاتیں ، وہ ماہ تمام کی طرح اندھیری شب میں اپنے جلووں کی تابانی بکھیرتی ، گھنگھرووں کے تال پر تھرکتی ، دھن دھنا دھن تاک کی آواز پر ناچتی ، لہراتی ، بل کھاتی ، ادائیں بکھیرتی، شاخ بریدہ کی طرح ٹوٹتی ، برق کی طرح کوندتی ، خوشبوؤں کی طرح پھیلتی ، مینا کی طرح چھلکتی ، گلاب کی طرح مہکتی ، شعلوں کی طرح دہکتی ۔ کبھی ٹھمری تو کبھی ساز ، کبھی شمع تو کبھی افسانہ ۔ وہ سراپا اک سوال تھی ، کمال تھی ۔ استفسار پر اس نے اک آہ بھری ، اور اک توقف کے بعد کہنے لگی اس کو آج جس پر سب سے زیادہ ترس آرہا ہے وہ !! ہاں وہ سکینہ تھی۔ اس بازار میں مغویہ ہو کر آئی تھی ۔ اس وقت وہ کم سنی کے باعث اس ماحول سے خود کو تو ہم آہنگ نہ کر سکی لیکن ہر سال کیکر کے درختوں کی اوٹ سے جب عید کا چاند خلاؤں میں نظر آتا تو وہ مشیت سے گلہ مند ہوتی ۔ وہ کہتی اس کے مقدر میں یہ کیسا زہرخند ہے ۔ جس کی ترشی میں اس کا شباب گھل رہا ہے ۔ جہاں شراب کے نشے میں لڑکھڑاتا ہوا کوئی جسونت آتا یا نواب ملک ! وقت اسے کس موڑ پر لایا ہے ۔جہاں سے اب اس کی واپسی کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ اسے زندگی کے اس ماحول میں گھٹن سی محسوس ہوتی ، وہ اس پنجر سے آزاد ہونا چاہتی تھی ، فضاؤں میں اڑنا چاہتی تھی لیکن اس کے پر کتر دئے گئے تھے ۔اس کے لئے اب کوئی راستہ نہ تھا ۔ وہ مر جانا چاہتی تھی لیکن بے بس تھی۔ وہ سہیلیوں کو یاد کرتی ۔ بچپن کی بہاروں کے گزرے ہوئے پل کی کسک آج بھی اس کے دل میں موجود تھی ۔ حسرتوں کے مزار پر محض نوحہء غم کے سوا کچھ نہ تھی ۔ وہ سوچتی اور سوچتی چلی جاتی ۔ اے کاش ! میں نے اس کی کچھ مدد کی ہوتی تو وہ بھی سہاگن ہوتی لیکن یہ ایک فسردہ خواب تھا ۔ ایک مزاق خام تھا۔ وہ سوچتی کیاعورت کا جوان ہونا جرم ہے کیا اس کا سولہواں سال چڑھنا اس جرم کی سزا ہے جو وہ کاٹ رہی ہے اور جو کچھ اس پر بیت گئی اور اب تک بیت رہی ہے۔ حزن و ملال میں ڈوبی اپنے زانو میں سر لٹکائے نڈھال آنچل میں منھ چھپائے سراپا نوحہ کناں ہوتی ۔ یادوں کے جھرمٹ میں کھوئی ہوئی قسمت پر آنسو بہاتی ۔ وہ سوچتی اور سوچتی چلی جاتی اس کی فریاد کون سنتا ، اس کا یہ ملال کون محسوس کرتا ، اس کا یہ درد کون سہتا ؟۔ وہ چراغ سحری کی طرح بجھ جاتی ۔ لیکن اس کی یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہوتی پھر کبھی اس نے ہاتھ اٹھا کر خدا کو نہ پکارا کہ جس کا مقدر طوائف کی زندگی ہو جو اپنے جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہی تھی ۔ وہ انہیں خیالوں میں گم ہوتی کہ اچانک آیا کی کریہہ آواز سنائی دیتی ارے او سکینہ ۔۔۔ تو کہاں مر گئی۔ دیکھ تیرا پیا آیا رے ،جا اس کے ساتھ بیٹھ جا ،روز کی طرح آج بھی اس نے وہی کیا جو اس کا پیشہ تھا۔ جس نے اسے ایک رن کا خالص وحشیانہ نام دیا ۔ اس زمانے میں اس بدنام گلی کا کیا حال تھا چاندنی نے پاندان سے پان کی گلوری نکالی منھ میں دبائی ۔چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے فضا کو گھورا اور پھر کہنے لگی ۔اس وقت میں جواں سال تھی اور اس بازار میں مجھے آئے ہوئے کم ہی روز ہوئے تھے ۔ میں یہاں کی آب و ہوا سے واقف نہ تھی صرف یہ جانتی تھی کہ اجنبی ہاتھوں میرا سودا ہو چکا ہے ۔ لیکن رفتہ رفتہ پورے شہر میں میرے حسن کا شہرہ ہو گیا ۔ زیادہ تر شرفا آتے ۔ داد عیش دیتے اور چلے جاتے ۔ متوسط طبقہ کم ہی اس بازار کا رخ کرتا ۔ زردار اپنی سیاہیوں کے پس پردہ شرافت کا سارا ٹھیکرا یہیں پر آ کر پھوڑتے ۔حنائی ریش کا تقدس اور تقوی کی متاع شب کے اس گہرے سکوت میں گناہوں کی سیج پر تسکین کی چند ساعتوں کی نذر ہو جاتے اور بس ۔ جن کے کرتوت کی بستر کی شکنیں چغلی کھاتیں ۔ اف کیسی کیسی ہستیاں خاک آلود ہوگئیں ۔ وہ رونقیں اب مرچکی ہیں ۔ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت ایک کسبی کے روپ میں خود سے مفاہمت کرنے پر مجبور ہوتی ہے یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کوئی گناہ نہ کرنا چاہے اور اسے اس پر ابھارا جائے ۔
عورت کسبی کب ہوتی ہے جب کسی حادثہ کا شکار ہوتی یا پھر اس کے عزیز پیسوں کے عوض سودا کرلیتے اور پھر یہی تنگ و تاریک کوٹھریاں اس کی حیات کا آخری گھر ہوتی ہیں ۔ اس زمانے کا کیا حال ہے مجھے نہیں معلوم، اک زمانہ ہوا میں اس گلی کو چھوڑ چکی ہوں۔ جہاں عورت ہر روز بکتی اور تاش کے پتوں کی مانند بکھرتی ، قاش قاش ہوتی ۔اس میں حیا کا پاس نہیں ہوتا ، وہ ایک پامال عصمت ہوتی ہے ، اور اس میں ایک کسبی کی مجموعی صفات گھل مل جاتیں تو پھر مفاہمت کا کیا سوال بلکہ وہ اس کی حامی کار ہوتی ہے ۔ یہی اس کا دھندا اور یہی اس کے شب و روز کا پیشہ ہوتا ہے ۔ خال خال ایسی کسبیاں ہیں جو اس ماحول سے خود کو نکالنے میں کامیاب تو ہوئیں لیکن سماج نے انہیں ناکار دیا ۔وہ لوٹ کر پھر اسی آباد خانے میں آگئیں ۔اور پوری زندگی ان کا یہی گھر رہا ۔ بحیثیت ایک عورت آپ کے جذبات ۔۔۔۔؟ جذبات !! ۔۔۔۔۔۔اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔ یہ ایک کرب تھا جسے میں پیتی رہی اور پیتی چلی گئی ورنہ عورت چھن چھنا چھن پازیب کی جھنکار میں ایک رقاصہ اور گداز بستروں پر اجنبیوں کے لئے ایک سامان عیش ہوتی جس کی قیمت پہلے ہی وصول کر لی گئی ہو وہ کب اپنے خواب بن سکتی ہےاور اپنی آرزوؤں کی سیج سجا سکتی ہے جب کہ اسے معلوم ہے کہ وہ ایک اہسی متاع ہے جس کی تمناؤں کا ہر گھڑی اور ہر پل خون ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بالا خانوں کی معصیت کا کفارہ ادا کرتے کرتے عورت سے قحبہ ہوجاتی ہے ،جو خود اپنے لئے اک تماشا اور دوسروں کے لئے عشرت کا سامان ! معصیت کی اس دنیا سے کبھی نکلنے کا خیال آیا نہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آیا بڑی سنگ دل ہوتی ہیں جو کوئی کسبی بھی اس طرح کے اقدام کا خیال کرتی بھی ہیں اس کے بھڑوے ان کا کام ہی تمام کر دیتے ہیں ۔ اس لئے نئی آنے والی کسبی کی غیر معمولی تربیت کی جاتی اور ایسے سارے مواقع مسدود اور امیدیں معدوم ہو جاتی جس کا کبھی خیال بھی نہیں گزرتا ۔ شروعاتی دور بڑا کرب ناک ہوتا ہے لیکن جب غیرت مر چکی ہو اور ضمیر روند کر مردہ کردیا جائے تو پھر دل کو وہی دنیا بھاتی ہے جہاں عورت ایک گالی اور قحبگی کی مزادانیاں ہی اس کا سرمایہ کار ہوتی ہوں ۔ دوسرے سماج کا خوف ذہنوں پر مسلط ہوتا ہے ۔ وہ اس جہان سے نکل کر جائے تو کہاں جائے ۔جس کی گنگا میلی ہوچکی ہو اس کی تقدیس کو کون باور کرے گا ۔ ہماری محدود زندگی ہی ہمارے لئے کل کائنات ہوتی ہے ۔ عورت اس معاملے میں بڑی کمزور ثابت ہوتی ہے وہ بہت جلد کسی ماحول سے توافق پیدا کر لیتی ہے ۔عوامل چاہے جو بھی ہوں چوں کہ وہ بے بسی اور لاچاری کو اپنے مقدر کا حصہ تصور کرتی ہے اور یہی اس کا سب سے کمزور پہلو ہے ۔ جب اس کے سہارے ٹوٹتے ہیں تو قدم میں لغزش پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ وقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہے۔ عمر کی لغزش پا ہو یا اغوا کی گئی عصمت ۔ دونوں کی سب سے پہلے عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور پھر وہ ایک چھنال زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ اس عمر میں پہنچنے کے بعد آپ نے کیا کیا کھویا کیا پایا سب کچھ کھو دیا ۔ سوائے رسوائی ، بدنامی ، گالی اور قحبہ خانے کی کی گندگی کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں لگا ۔
ہم نے اجنبی مردوں کے دھکے سہے اور ان کی کڑوی کسیلی سنی ۔ زندگی کے حصے میں ایسے ایسے تلخ تجربات ہوئے کہ عورت محض مغلظات کے طرحیہ مصرعے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ایک کھلونا ہے جو چاہے پیسوں سے خرید لے، کھیلے اور جب جی بھر جائے تو اٹھا کر اسے کچرے میں پھینک دے ۔ اس کے سوا اس کا اور کوئی مقام نہیں ہے ۔ بالا خانوں کی زندگی کرب و اندوہ کا ایک حزنیہ شبستان ہے جہاں معصیت پروان چڑھتی ہے ۔اور روشنیوں میں ظلمت شب بانٹیں جاتی ہے ۔ ایک کسبی کو عورت کے نام سے پکارنا ہی عورت کی مقدس ذات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔ جہاں نہ تو عورت ہوتی ہے اور نہ اس کے قدر دان ۔ یہ محض عیاشیوں کے اڈے ہیں ۔ اس پورے نظام کو کون چلاتا ہے ۔ کیا کبھی اس گناہ کے بازار کو حکومتی سطح پر بند کرنے کی کوشش کی گئی ؟آیا ہی سب کچھ ہوتی ہے اور اس کے کارندے ۔ حکومت میں پولیس محکمہ باقائدہ ہفتہ لیتا ہے اور اس کے تحفظ کا ضامن بھی ہوتا ہے ۔ کیا مجال کوئی اس ڈیرے پر ہاتھ ڈالے ۔ اس وجہ سے وہاں کا ماحول بھی اسی طرم کے ساتھ گرم ہوتا ہے ۔ قحبہ خانے کی زندگی ذہنی کوفت اور جسمانی اذیت کا مرکب ہے ، بے ہنگم زندگی کا حاصل ہے اور کچھ نہیں۔ بسا اوقات نفسیاتی دباؤ کے سبب خودکشی کی وارداتیں بھی ہوتی ہیں یا پر اسرار طور پر گمشدگی کے واقعے ، جس کے اسباب کی تہ تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے یوں بھی وہ ہر روز خودکشی کرتی ہے ۔ قحبہ خانہ ایک ایسا ٹریفک سنگل ہے جس کی لائٹیں ہمشہ جلتی رہتی ہیں ۔ اور قالین گنج اعظم گڈھ شہر کا قدیم محلہ جو دلال گھاٹ سے ملحق ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *