بابری مسجد کے “بے گناہ” مجرم

۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

تحریر: معصوم مرادآبادی
بابری مسجد کا انہدام صدی کا سب سے گھناؤناجرم تھا۔ 6 دسمبر1992کو ایودھیا میں اس پانچ سو سالہ قدیم تاریخی عبادت گاہ کو زمیں بوس کرنے والے سنگھ پریوار کے مجرم خودکو سزا سے بچانے کے لئے اب تک قانون اور عدلیہ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے ہیں۔ایک طرف تو وہ اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ”غلامی کی علامت“ کو صفحہ ہستی سے مٹادیا، لیکن جب انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے تو وہ گڑگڑانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں ایک فرضی مقدمے میں پھنسایا گیاہے۔سنگھ پریوار کے ان ’بہادر‘ سپوتوں کا اصل کردار دیکھنا ہو تو سی بی آئی کی اس خصوصی عدالت میں دیکھئے جو آج کل لکھنؤ میں بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کررہی ہے۔اس عدالت میں اب تک سنگھ پریوار کے جتنے بھی سورما پیش ہوئے ہیں، انھوں نے عدالت میں یہی کہا ہے کہ انھیں اس مقدمے میں کانگریس سرکار نے ناحق ملوث کیا تھا۔اس عدالت میں تازہ بیان رام مندر ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس اورٹرسٹ کے سیکریٹری چمپت رائے کا ہے، جو انھوں نے گزشتہ منگل کو عدالت میں دیا ہے۔عدالت کے روبروان دونوں نے ہی یہ کہا کہ “اس وقت کی کانگریس سرکار نے انھیں اس مقدمے میں غلط طور پر پھنسایاہے۔” یہ دونوں ہی ملزم عدالت میں تعزیرات ہند کی دفعہ 313 کے تحت پیش ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے جھوٹے الزامات تراشے اور سیاسی دباؤ میں جھوٹے ثبوت تیار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اس سے قبل بابری مسجد انہدام سازش کیس کی کلیدی ملزم اوما بھارتی نے بھی عدالت کے روبرو ایسا ہی بیان دیاتھا۔ انھوں نے گزشتہ ہفتہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو بتایا تھاکہ ان کے خلاف قایم کیا گیا مقدمہ دراصل انتقامی کارروائی ہے اور انھیں اس فرضی مقدمے میں کانگریس حکومت نے سیاسی مقاصد کے تحت پھنسایا تھا۔اوما بھارتی کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بابری مسجد کے مقام پررام مندر بنانے کے لئے چلائی گئی انتہائی اشتعال انگیز اور خونی تحریک کی صف اول کی شعلہ فشاں لیڈر تھیں۔ ان کا ”ایک دھکا اور دو ، بابری مسجد توڑدو۔“ والا بیان بھی لوگوں کی یادداشت میں اب تک محفوظ ہے۔اوما بھارتی بی جے پی کی فائر برانڈ لیڈر رہی ہیں اورایودھیا تحریک سے ہی انھوں نے شہرت حاصل کی۔ اسی وابستگی کی بنیاد پر نہ صرف انھیں مرکزی کابینہ میں جگہ ملی بلکہ مدھیہ پردیش کا وزیر اعلیٰ بھی بنایا گیا۔ آج کل وہ آرام کی زندگی بسر کررہی ہیں اور گزشتہ ہفتے بابری مسجد انہدام سازش کیس میں اپنا بیان درج کرانے کے لئے لکھنؤ پہنچی تھیں۔ انھوں نے سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ”ان کے اور دیگر لوگوں کے خلاف یہ مقدمہ کانگریس کی اس وقت کی حکومت نے سیاسی مقاصد کے تحت قایم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس حکومت نے فرضی ثبوتوں کی بنیاد پر تحقیقات کی اور سیاسی دباؤ میں ہی ان کے خلاف فردجرم داخل کی گئی۔اوما بھارتی کی پیشی سے تین روز قبل اس مقدمے کی ایک اور ملزمہ سادھوی رتھمبرا نے اسی عدالت میں اپنا بیان درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ”بابری مسجد کا کارسیوکوں کے ہاتھوں گرایا جاناملک کے اکثریتی طبقے کی صدیوں کی ذہنی غلامی سے آزادی کے حصول کے مترادف تھااور اس کے لئے کسی کو بھی قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ میں بھی اس معاملے میں کسی طرح قصوروار نہیں ہوں۔“ اسی قسم کا بیان ونے کٹیار نے بھی عدالت کے روبرو دیاتھا۔
اوما بھارتی اور سادھوی رتھمبرا دوایسی خواتین ہیں، جو گیروا لباس پہنتی ہیں اور خود کو ہندو مذہب کی سچی پیروکار بتاتی ہیں۔ ان کا شمار ایسی سنیاسن عورتوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے دھرم کے لئے دنیا کو تیاگ دیا اور وہ سچائی اور ایمانداری کے راستے پر چل کر بھگوان کے قریب ہونا چاہتی ہیں۔لیکن ان دونوں ہی بھگوادھاری سنیاسنوں نے اپنی جان بچانے کے لئے عدالت میں جو کچھ کہا ہے، وہ دراصل ان کے دہرے کردار کی گواہی دیتا ہے۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ یہ دونوں ہی بابری مسجد کے انہدام میں پوری طرح ملوث ہیں۔ ان دونوں نے رام جنم بھومی مکتی آندولن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ایسے اشتعال انگیز بیانات دئیے تھے جن سے پورے ملک میں بابری مسجد اور مسلمانوں کیخلاف شدید نفرت اور تعصب پیدا ہوا تھا۔ آج یہ دونوں اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لئے نہ صرف عدالت کو گمراہ کررہی ہیں بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اول فول بک رہی ہیں۔یہ دونوں ہی بابری مسجد کے خلاف سنگین جرائم میں گردن تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ دونوں ہی مسجد کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھیں اور ان کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھارہی تھیں جو ناپاک عزایم کے ساتھ بابری مسجد کے گنبدوں پرچڑھے تھے۔6 دسمبر 1992 کی ایک تصویر تو لوگوں کو اب تک یاد ہے جس میں اوما بھارتی بابری مسجد کے انہدام کے موقع پر بی جے پی لیڈرمرلی منوہر جوشی کے کاندھوں پر چڑھ گئی تھیں اور ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ اسی طرح سادھوی رتھمبرا بھی وہاں موجود تھیں اور مسجد کے انہدام میں ان کے مکروہ کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
بابری مسجد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اب تک جن جن لوگوں نے اس کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے وہ سزا سے بچتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں قانونی مشینری اتنی لاچار اور بے بس ہے کہ وہ بابری مسجد کے ان مجرموں کو ابھی تک کوئی سزا نہیں دلا سکی ہے۔شروع میں یہ مقدمہ قانونی موشگافیوں میں الجھا دیا گیا اور بہت دنوں تک یہی طے نہیں ہوپایا کہ ان ملزمان میں کن کن کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ چلے گا اور کن لوگوں کے خلاف نہیں۔ کیونکہ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی نے باجپئی کے دورحکومت میں خود پر عائد کئے گئے مجرمانہ سازش کے الزامات ہٹوادئیے تھے، لیکن بعد میں عدالت نے ان الزامات کو بحال کیااور اب سپریم کورٹ نے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ31 اگست 2020 تک اس مقدمے کی سماعت مکمل کرے۔اس سلسلے میں سی بی آئی نے جو فردجرم داخل کی تھی اس میں مجموعی طورپر49 ملزمان تھے، مگر اشوک سنگھل، بال ٹھاکرے، گری راج کشور، مہنت اویدھ ناتھ اور بال ٹھاکرے سمیت ایک درجن سے زائد ملزمان کی موت کے بعد اب محض32ملزمان باقی بچے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اب تک جن ڈیڑھ درجن سے زیادہ ملزمان نے سی بی آئی عدالت میں اپنا بیان درج کرایا، ان سب نے خود کو اس معاملے میں بے قصوربتایا ہے جبکہ بیشتر نے مندر تحریک میں اپنی شمولیت کو باعث فخر قراردیاہے۔کسی نے مسجد کے انہدام کوغلامی کی علامت قرار دیا تو کسی نے اسے تاریخ کو درست کرنے کاعمل قرار دیا ہے۔ لیکن حیرت انگیزطور پر ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہاں وہ مسجد کے انہدام کا ذمہ دار ہے اور عدالت اسے جو سزا دے گی،وہ اسے قبول کرے گا۔ یہ دراصل سنگھ پریوار کے لوگوں کی بزدلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے –
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر بابری مسجد کا انہدام ان کے لئے فخر کی بات تھی اورانھوں نے اسے غلامی کی نشانی سمجھ کر صفحہ ہستی سے مٹایاہے تو پھرکیاوجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس عمل کی سزا بھگتنے سے بھاگ رہے ہیں۔اس معاملے میں صرف شیوسینا چیف بال ٹھاکرے ہی ایک ایسا آدمی تھا جس نے کہا تھا کہ ہاں میرے شیوسینکوں نے بابری مسجد گرائی اور میں اس کی سزا بھی بھگتنے کو تیار ہوں۔ بال ٹھاکرے آج اگرزندہ ہوتا تو وہ شاید خود کو عدالت میں سزا کے لئے پیش بھی کرتا، لیکن سنگھ پریوار کے جتنے بہادر سپوت ہیں، وہ اس معاملے میں سزا سے بچنے کے لئے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کو اتناطویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں کسی کو سزا نہیں ملی ہے۔ صرف کلیان سنگھ ایسے شخص ہیں جنھیں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ایک دن کی علامتی سزا دی تھی اور انھوں نے یہ ایک دن دہلی کی تہاڑجیل میں گزارا تھا۔کلیان سنگھ کو یہ سزا دراصل ان کے اس حلف نامے کی خلاف ورزی کے لئے دی گئی تھی جو انھوں نے بابری مسجد کی حفاطت کے لئے وزیر اعلیٰ کے طور پر سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا، لیکن وہ اپنے اس عہد پر قایم نہیں رہے اور عدالت عظمیٰ نے انھیں ایک دن کی علامتی سزا سنائی۔سپریم کورٹ نے گزشتہ سال نومبر میں بابری مسجد کی اراضی کو فریق مخالف کے سپرد کرنے کا جو فیصلہ سنایا تھا، اس میں بابری مسجد کے انہدام کو واضح لفظوں میں ایک مجرمانہ عمل قرار دیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس مجرمانہ عمل کے قصورواروں کے لئے کیا سزا تجویز کرتی ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *