ہر رہ گذر سے خار ہٹاتے ہوئے چلو

WhatsApp Image 2020-07-13 at 7.59.32 PM

کلیم الحفیظ  دہلی

مثل مشہور ہے کہ پر ہیز آدھا علاج ہے۔حالانکہ ایلو پیتھی میں پرہیز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی،اسی لیے انگریزی دوائیں ایک بیماری ٹھیک کرتی ہیں تو دو پیدا کردیتی ہیں۔ٹھیک یہی حال قوم اورملک کے مسائل کا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“تو بے جا نہ ہوگا۔علماء،ائمہ،دانشور،انجمنیں،تنطیمیں،لیڈر سب مرض کی تشخیص کرتے ہیں،دوا بتاتے ہیں،کچھ لوگ دوا لاکر دیتے ہیں،کچھ لوگ کھاتے بھی ہیں مگر مرض میں قابل ذکر افاقہ نہیں ہوتا۔میری نظر میں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم پرہیز نہیں کرتے اس لیے کوئی دوا مکمل اثر نہیں کرتی۔خاکسار مختلف عنوانات اور نکات کے تحت قارئین کے سامنے لائحہ عمل پیش کرچکاہے۔ذیل میں ان موانع،مشکلات اور رکاوٹوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو اس راہ میں آنا لازمی ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے کہ جب جب بھی کوئی فرد یا کوئی گروہ اصلاح کے لیے اٹھا ہے۔اس کے سامنے یہ پریشانیاں آئی ہیں۔دنیا میں سب سے برگزیدہ گروہ انبیاء اور پیغمبروں کا رہا ہے۔جب ان کی مخالفت ہوئی ہو،جب ان کی راہ روکی گئی ہو تو ہمارا اور آپ کا شمار کیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ ہم ان دشورایوں کو پہلے ہی سمجھ لیں،ان پر غور و فکر کرلیں تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو۔
پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے جب آپ اصلاح اور خدمت کے لیے اٹھتے ہیں تو خود کو بلندی پر کھڑا کرلیتے ہیں۔آپ کوئی معمولی فرد نہیں رہ جاتے بلکہ ایک خاص مقام اپنے لیے مقرر کرتے ہیں۔بلندی پر رہنے کی وجہ سے سب کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں۔آپ کے مخاطب آپ کے الفاظ کو آپ کے عمل کی میزان پر تولتے ہیں۔وہ آپ کے ماضی کو دور جاہلیت کہہ کر کسی حد تک نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن آپ کے حال اور مستقبل پر ان کی نظر ضرور ر ہتی ہے  ۔ قول اور فعل کا تضاد سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔آپ جو کہتے ہیں اگر آپ خود اس پر عمل نہیں کرتے تو پہلے ہی دن یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو پیغام  آپ لے کر اٹھے ہیں وہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔پھر آپ کو
کسی مثبت نتیجہ اور خوش کن انجام کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔اس لیے اتنی ہی بات کہیئے جتنی بات پر آپ خود عمل کرتے ہوں۔جتنا جتنا عمل کرتے جائیں اتنا ہی کہتے جائیں۔
 
دوسری بات جس کا خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے۔آپ کی ذمہ داری پوری قوم اور پورے ملک کی اصلاح نہیں ہے۔آپ کی ذمہ داری  بساط بھر کام کرنا ہے۔اگر آپ اپنی گلی اور محلہ بھر میں کام کرسکتے ہیں تو پورے شہر میں اپنی قوت اور طاقت کو مت لگایئے۔پہلے اپنا دائرہ عمل طے کیجیے۔پھر کام کا نقشہ بنایئے۔آج تک ہم یہی غلطی کرتے رہے ہیں کہ کل ہند اور آل انڈیا سطح سے کم کوئی سوسائٹی اور انجمن نہیں بناتے بلکہ اب تو بین الاقوامی کا رواج بھی چل نکلا ہے۔اس فریب سے باہر رہنا ہے۔ایک پروجیکٹ پورا کرنے کے بعد ہی دوسرا پروجیکٹ شروع کیجیے۔ورنہ سارے کا م بے نتیجہ رہتے ہیں۔کوشش کیجیے کہ ہر کام کے لیے الگ افراد ہوں تاکہ ایک ہی شخص پر بار اور بوجھ نہ پڑے۔ ہمارا مقصد اصلاح ہے اگر ایک فرد اور ایک خاندان میں بھی ہماری کوششوں سے کوئی تبدیلی آتی ہے تو ہماری خوش نصیبی ہے۔
 
تیسری بات یہ ہے کہ قوم سے کسی بھی قسم کے اجرکی امید مت رکھیے اور نقد اجر کی بالکل بھی نہیں،یہاں بعد ازمرگ میڈل سے نوازے جانے کا رواج ہے۔جیتے جی تو محبت کے دوبول نہیں ملتے، مرنے کے بعد تعزیتی پیغامات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور مرنے والے پر ناقابل تلافی نقصان کرکے جانے کا خوبصورت الزام بھی لگادیاجاتا ہے۔اس لیے جو کام بھی کیجیے بغیر کسی لالچ،بغیر کسی اجر کے کیجیے۔آپ بھی یہ اعلان کیجیے  و مااسئلکم  علیہ من اجران اجری الا علیٰ رب العٰلمین(میں تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا میرا اجر اور بدلہ تو رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔شعراء۔ ۹۰۱)بلکہ آگے بڑھ کر کہئے لا نرید منکم جزاء ً ولا شکورا(ہم تم سے کوئی بدلہ تو کیا شکریہ کے الفاظ کے بھی خواہش مند نہیں۔الدھر۔۹)
 
چوتھی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی مخالفت وہ لوگ کریں گے جن سے آپ کو تعاون کی امید ہوگی۔ہر وہ شخص جس کے مفاد پر آپ کی اصلاح کا ہتھوڑا پڑے گا بلبلا اٹھے گا۔سیا سی لیڈر آپ پر سیاست کرنے کا الزام لگائے گا۔وہ غنڈے اور موالی بھی ہوں گے جو برائی کی آڑ میں بدی کی تجارت کررہے ہوں گے۔مذہبی گروہ کے افراد بھی آپ کے اسلام کو انچی ٹیپ سے ناپیں گے۔اپنے ہی دوست آپ کا مذاق اڑائیں گے۔جو مصلحین پہلے سے ہی میدان میں ہیں وہ آپ پر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کا الزام لگائیں گے۔ان حالات میں کسی کو صفائی دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا ہے۔کیوں کہ مخالفت کا یہ طوفان صابن کے جھاگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔آپ کا خلوص،آپ کی نیت اور آپ کا کام ہی اس کا جواب ہے۔اگر آپ لوگوں کو صفائیاں دینے میں الجھ گئے تو الجھتے ہی جائیں گے اور کام نہیں کرسکیں گے۔مخالفت کے تیر جدھر سے بھی آئیں پلٹ کر مت دیکھیے ورنہ اپنے ہی دوستوں سے سامنا ہوگا۔جہاں تک ممکن ہو شیریں زبانی،وسعت قلبی سے مخالفانہ تیروں کا مقابلہ کیجیے۔
 
پانچویں بات یہ ہے کہ اپنے ساتھی اور معاونین کو ساتھ لینے سے پہلے خوب جانچ اور تول لیجیے ایسا نہ ہو کہ ہوا کا ایک جھونکا ہی انھیں اڑا لیجائے۔بزدل  اورکم ہمت ساتھی سے تنہا کام کرنا بہتر ہے۔نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہے۔ بزدل دوست حوصلہ بڑھانے کے بجائے ہمت پست کرنے کی بات کرتا ہے۔کسی بھی عصبیت مثلاًمذہبی،خاندانی،برادری،رنگ اور زبان وغیرہ کا شکار مت ہوجائیے،جو آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ وہ کام کا بھی ہے تو اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھیے۔خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اورکوئی بھی زبان بولنے والا ہو۔اپنے ساتھیوں کی دل جوئی کرتے رہیے،ان کا حوصلہ بڑھاتے رہئے۔ مشاورت سے کام کیجیے اور مشاورت کے آداب بھی ملحوظ رکھیے۔
 
چھٹی با ت یہ ہے کہ ملک کے آئین کا احترام کیجیے۔آئین کے دائرے سے باہر کوئی کام مت کیجیے۔اسی طرح بلا وجہ لوگوں کو اپنا دشمن مت بنائیے۔جذبات میں مت آئیے۔غصہ پر قابو رکھیے۔جھگڑے کی نوبت نہ آنے دیجیے ورنہ آپ کے مخالفین آپ کو قانونی داؤں پیچ میں الجھا دیں گے۔ جہاں آپ کا دامن کسی کانٹے سے الجھے، الجھا ہوا دامن پھاڑکر آگے بڑھ جایئے۔عقل مندی کا تقاضا ہے کہ جھگڑے کے بغیر کامیابی حاصل کیجیے۔مسلکی ایشوز پر بالکل بات مت کیجیے۔یہ فرق ہمیشہ یاد رکھیے کہ آپ ایک سوشل اکٹویسٹ ہیں کوئی مذہبی مصلح نہیں۔مذہبی اور سماجی اداروں کا احترام کیجیے۔ان کی مخالفت کرکے ان کے تعاون سے محروم ہونے کے بجائے حکمت کے ساتھ ان اداروں کا تعاون حاصل کیجیے۔ آپ کو ہر سماج کی بھلائی،ترقی اور تبدیلی کے لیے کام کرنا ہے۔کوشش کیجیے آپ کی شناخت غیر متنازع،حق گو اور انصاف پسند کی حیثیت میں ہو۔
 
ساتویں بات یہ ہے کہ اعتدال سے کام لیجیے۔آپ پر اپنے نفس کا بھی حق ہے کہ اسے آرام دیا جائے،آپ پر اپنی فیملی اور زیر کفالت افراد کا بھی حق ہے کہ انھیں محبت بھی ملے اور ان کی جائز ضروریات بھی پوری ہوں،آپ پر اپنی تجارت اور ذریعہ معاش کا بھی حق ہے۔اپنے رشتے داروں کے بھی حقوق ہیں۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ خدمت قوم میں ہم اتنے مست ہوجاتے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے حقوق بھول جاتے ہیں جس کے نتیجے میں گھر سے ہی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔اپنے اہل و عیال کو نہ صرف اپنی سرگرمیوں سے واقف کرائیے بلکہ ان کو اپنے دست و بازوبنائیے۔خواتین اور خاص طور پر کارکنوں کی خواتین کے تعاون کے بغیر کام کرنا بہت مشکل ہوگا۔اس لیے کہ ہماری خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں،اس طرح ہمارا نصف سرمایہ بھی ہیں اور نصف طاقت بھی۔ ان کو نظر انداز کرکے ہمارا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوسکتا۔ اپنے اوقات کی تقسیم اس طرح کیجیے کہ ہر کام کے لیے وقت میسر آئے اور آپ کی زندگی کا کوئی شعبہ متأثر نہ ہو۔
 
آخری بات وہ ہے جو ہر مومن،مسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام خزانوں،کامرانیوں اور کامیابیوں کی کنجیاں اللہ کے دست قدرت میں ہیں۔وہی غیب داں ہے،اسی کے منصوبے کے مطابق کائنات کا نظام چل رہا ہے۔اسی کے ہاتھ میں نتیجے ہیں،وہی جانتا ہے کہ نتیجے کب آئیں گے۔اتنا ضرور ہے کہ وہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا،وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے مگرمایوس نہیں کرتا۔اس سے لو لگایئے،اسی کی طرف نگاہیں اٹھائیے،اس کا دروازہ دونوں ہاتھوں سے کھٹکھٹایے،وہ آپ کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
ہر رہ گذر سے خار ہٹاتے ہوئے چلو
دشمن کو اپنا دوست بناتے ہوئے چلو

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *