Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

آیاصوفیااور اردوغان کاجمہوری کھیل

by | Jul 14, 2020

عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ زکریا

آیا صوفیاکو پھر سے مسجد میں تبدیل کردینے کے فیصلے نے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ایک طرف اسلام پسند حلقوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اسے بیت المقدس کی بازیابی کی طرف پہلا قدم مان رہے ہیں وہیں کچھ حلقوں میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اس سے اسلاموفوبیا کو اور بڑھا وا ملےگا۔سلطان محمد فاتح نے جب قسطنطنیہ کو فتح کیا اس وقت پوری عیسائی دنیا میں Hagia Sophia سب سے طاقتور چرچ تھا جسکی عظمت اور ناقابل شکست ہونے کی اساطیری داستانیں چلی آرہی تھیں۔سلطان جسکی فتح کی پیشین گوئی محبوبِ کبریا ،رسولِ مقبول ،محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ،اسکے کسی طرزِ عمل پر سوال اٹھانا ایمان کھو دینے کے مترادف ہے،سلطان چاہتا تو جبراً اس زمانے کے قانون کے مطابق اس پر قبضہ کر لیتا ،لیکن اس نے کمال عدل اور انصاف کا مظاہرہ کرتےہوئے اسے خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔تاریخ کے طالب علموں کی نظروں سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہیکہ مذہب کے ٹھیکیدار ہر دور میں سب سے زیادہ طاقتور رہے ہیں،یہاں تک کہ شہنشاہوں تک کو انکی منھ جو ئی کرنی پڑتی تھی ،بدلے میں وہ انکے اقتدار کے برحق ہونے کا پروانہ عطا کرتے تھےچشمِ بینا دیکھ رہی ہے کہ مذہبی ٹھیکیداری آج بھی اسی طرح پنجے گاڑے ہوئے ہے،ہاں اس نے مرورِ زمانہ کے ساتھ اپنے آپ کو کمالِ عیاری سے کئی پردوں میں چھپا رکھا ہے۔
ترکی پر بھی کئی دور گزرے ،عثمانی سلاطین کی بساط وقت کے ہاتھوں لپیٹ اٹھی۔اسلام مخالف کمال پاشا نے ہر اس چیز کو مٹا ڈالنے کی کوشش کی جسکا زرا سا بھی تعلق اسلام اور اسلامی شعائر سے تھا۔ویسے کبھی آپ نے غور کیا کہ کمال پاشا کی اس نفرت کے پیچھے کیا عوامل تھے۔ایجنٹ بنا دینا دنیا کا سب سے آسان کام ہے،ہم ہر روزوشب یہی کرتے رہتے ہیں۔کیا اسکے پیچھے آلِ سعود کی انگریزوں سے سازباز اور عثمانی سلطان اور خلیفہِ وقت سے غداری نہیں تھی(غداری کا لفظ بیچارہ بہت مظلوم ہے،ہر کوئی اسکی تعبیراپنے مفاد کے حساب سے کر لیتا ہے)تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس پر ضرور سوچنا چاہئے۔اس درخشاں تاریخ کو لارنس آف عربیہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ترک نیشلزم کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے،آج بھی جب ممبرِ پارلیمنٹ حلف اٹھاتے ہیں تو ترک قوم کی بزرگی کے حوالے سے اٹھاتے ہیں،کیا کمال پاشا کی اسلام سے چڑ کی جڑیں اس ترک نیشنلزم میں پیوست ہیں ؟
اب آتے ہیں اردگان صاحب کی طرف جنہوں نے میوزیم سے اسے پھر سے مسجد میں تبدیل کر دیا،کمال پاشا نے اپنی اسلام دشمنی ،اور سیکولرزم کے چلتے اسے میوزیم بنا دیا تھا،اردگان صاحب کو ترکی میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے،اسلامی دنیا میں بھی وہ ایک ہیرو کی طرح پوجے جاتے ہیں،وہ اسرائیل کو دھمکاتے بھی رہتے ہیں اوراس سے تجارتی تعلقات بھی استوار رکھتے ہیں،ترکی میں جو اسلام کی واپسی ہوئی ہے اسکا بڑا کریڈٹ انکو دیا جاتا ہے ،اسمیں تھوڑی صداقت بھی ہے،ویسے انکے پیشرو ،نجم الدین اربکان اور عدنان میندرس کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن جس مضبوطی سے اردگان صاحب نے اپنے مخالفین کا مقابلہ کیا ہے اور انکو ٹھکانے لگایا ہے وہ انہیں کا خاصہ ہے،احیائےاسلام میں انکی کوششوں سے کوئی احمق ہی انکار کر سکتا ہے،انکی دینداری اور راست بازی کے چرچے ہر طرف ہیں اور حاشاوکلاْ ہمیں اسمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے نظر چرائی نہیں جا سکتی ہے کہ وہ پر لے درجہ کے ڈکٹیٹر ہیں،خدا کے لئے آمریت کا جواز اسلام میں ڈھونڈھنے کی کوشش نہ کریں،آمریت ہر جگہ قابلِ مذمت ہے چاہے وہ ترکی میں ہو،پاکستان میں ہو ،سعودی عرب میں ہو یا دنیا کے کسی ملک میں ہو،پیمانے الگ نہیں ہو سکتے ہیں کہ کہیں تو دادو تحسین کے ڈونگرے برسا ئے جائیں اور کہیں د شنام سے کام لیا جائے۔ اردگان نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ان دوستوں کو بھی ٹھکانے لگا دیا جنہوں نے ان سے اختلاف کی کوشش کی،فتح اللہ گولن کو آپ امریکا کا ایجنٹ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے اسکولوں نے اس احیائے اسلام میں بڑا کلیدی رول ادا کیا ہے،اپنے سیاسی مخالفین پر اللہ کی زمین،اسکی چاندنی اور اسکا رزق تنگ کر دینے کا یہ کھیل ہر ڈکٹیٹر نے کھیلا ہے،رہی انکی مقبولیت تو اسکے پیچھے ترک نیشلزم اور اسلام کی وہ چنگاری ہے جو کمال پاشا اور اسکے ساتھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں بجھا سکے،یہ چنگاری اس پورے خطہ میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔پاکستانی صحافی نے،جنکا نام بدقسمتی سے مجھے یاد نہیں آرہا ہے ،بی بی سی کے لئے ایک ڈاکو منٹری بنائی تھی جسمیں وہ ان مسلم ممالک میں گئے تھے جو پہلے سوویت یونین کا حصہ تھے۔انھوں نے ایک بوڑھے آدمی کا بڑا ایمان افروز واقعہ ریکارڈ کیا ہے جہاں وہ بتاتا ہیکہ کس طرح سے اس نے تمام تر پابندیوں اور خوف کے باوجود قرآن مجید کا اتنا حصہ اپنے پوتے کو یاد کرا دیا جتنا اسے یاد تھا ،مطبوعہ قرآن پر پابندی تھی۔اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں اور اگر اسلام ان علاقوں میں زندہ رہا تو ان جیسے عاشقانِ اسلام کی وجہ سے،یہی وہ امید اور چنگاری ہے جو ترکوں کو ٹینکوں کے سامنے لٹا دیتی ہے جب انکے محبوب رہنما کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اردگان صاحب ان امیدوں پر کتنا کھرااترتے ہیں وقت ہی بتائے گا ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردگان کے پاس تاریخ کا دھارا موڑنے کا سنہراموقع تھا۔ایک تاریخ ساز فیصلہ کرکے اسلام کے حسنِ عدل اور احسان کا ایک نمونہ پیش کر سکتے تھے،وہ نمونہ جو رسولِ مقبول صل اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے دن پیش کیا تھا ،جو نمونہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا ،ہم تاریخ کے اس موڑ پر ہیں جہاں اگر ہر wrong کو right کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک بڑا خلفشار پیدا ہو جائےگا۔جو بھی قوم اقتدار میں آے گی اگر وہ اپنی عظمتِ رفتہ کی طرف رجوع کی کوشش کرے گی تو اسکا کیا نتیجہ نکلے گا ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جس طرح اسلاموفوبیا پھیلا ہے اس میں ایک دانشمندانہ فیصلہ سے تھوڑی کمی آسکتی تھی،یہ نیوزیلینڈ کی مسجد میں جو بندوق بردار گھس گیا تھا اسکو isolation میں مت دیکھئے۔یہ grievances اور نفرت کی کڑی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔یہود،ہنود اور میڈیا کو الزام دینے سے پہلے ذرا دیکھئے کہ عراق،لیبیا،شام ،یمن ،افغانستان میں کون کس کا خون بہا رہا ہے؟مرنے والا بھی کلمہ گو ،مارنے والا بھی کلمہ گو۔بندوق امریکا کی ،کندھا آپ کا،سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا کو اپنے ہتھیار ٹیسٹ کرنے اور بیچنے کے لئے ایک دشمن تو چاہیے تھا سو وہ اسلام اور اسلامی دنیا میں ڈھونڈھ لیا گیا۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ امریکا میں ہر سال کئی پاگل نکلتے ہیں اور لوگوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیتے لیکن آج تک ہتھیاروں پر پابندی کا کوئی قانون نہیں پاس ہوسکا.its all ‘money stupidامریکا کی اکانومی کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریدو فروخت پر منحصر ہے۔یہاں نادان یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے بھائیوں کا گلا کاٹ کرجنت خرید رہے ہیں۔سیموئل ہنٹنگٹن سے نفرت کریں یا اسکی کتاب clash of civilisation کو دریا برد کردیں ،ہم عملی طور پر تو یہی ثابت کررہے ہیں کہ اسلام ایک متحارب ،متصادم مذہب ہے جہاں peaceful co existence تو بڑی دور کی بات ہے ،اپنے ہی اپنوں کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔
افتخارعارف کے الفاظ میںرحمتِ سیدِ لولاک پر کامل ایمانامتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے۔اردگان صاحب کے جذبہ ایمانی پر کوئی شبہ نہیں،اللہ انکے ایمان میں روز افزوں اضافہ کریں ،کرنے کے کئی کام تھے ،کاش وہ کردیتے،ہم جنس پرستی پر قدغن لگا دیتے،قمار خانے بند کرا دیتے،شراب کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کردیتے اور prostitution کا خاتمہ کر دیتے کہ یہ سارے فعل از روئے شرع حرام ہیں اے کاش یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...