ڈاکٹر علیم خان فلکی
اس مضمون میں نہ مسائل بیان ہوں گے نہ فضائل۔ اگر آپ ہر سال قربانی دیتے ہیں تو اس مضمون کو ضرور پڑھئے گا؛ اور اگر قربانی کے قائل نہیں ہوں تو یہ مضمون پڑھناآپ کے لئے بے حد ضروری ہے۔ جیسے جیسے بقرعید قریب آرہی ہے، قربانی وغیرہ کے فقہی مسائل کا اخبارات اور سوشیل میڈیا پر بیانات اور سوالات جوابات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جس میں سب سے زیادہ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ کرونا اور لاک ڈاؤن کے حالات میں قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ لیکن ہم ان مسائل پر بحث نہیں کرینگے۔ ہم آج اس مسئلے کی بات کریں گے جو سالہاسال سے ہے اور ہر سال کرونا وائرس کی وبا کی طرح بڑھتا جارہا ہے۔ وہ مسئلہ ہے قربانی سے انکار کا مسئلہ۔ اس میں ایک گروہ ایسا ہے جو اپنے آپ کو دانشوروں اور ریفارمسٹس میں شمار کرتا ہے۔ یہ لوگ پہلے جب اپنے ملحدانہ مشورے دیتے تھے تو تھوڑے چوکنّے ہوکر بات کرتے تھے، لیکن اب بلاجھجھک کہنے لگے ہیں کہ اگر قربانی کے جانوروں کو ہلاک کرنے کے بجائے اسی پیسے کو ایجوکیشنل یا ویلفیر یا کسی اور کنسٹرکٹیو کام میں لگایا جائے تو قوم کی معاشی اور تعلیمی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ دوسرا گروہ جو فرقہ پرستوں سے ڈرا ہوا ہے وہ مصلحت پسندی سے کہتا ہے کہ چونکہ برادرانِ وطن کی اکثریت ویجیٹیرئین ہے اس لئے ہمیں ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے قربانی سے پرہیز کرنا چاہئے حالانکہ ہندودھرم شاستروں میں یہ واضح لکھا ہے کہ شری رام اور ان کے والد گوشت خور تھے۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو منکرین حدیث کا ہے۔ وہ نماز، روزے اور زکوٰۃ اور حج کا قائل ہی نہیں اس لئے قربانی ان کے نزدیک سوائے جانوروں کی ہلاکت کے کچھ اور نہیں۔ اور چوتھا گروہ اچھے مسلمانوں کی نئی نسل کا ہے۔ وہ بطور احترام کچھ نہیں کہتی لیکن دوسرے مذاہب کے بے معنی اور بے مقصد رسومات اور تیوہار کی طرح قربانی کو بھی ایک مذہبی تیوہار سمجھتی ہے۔ بالخصوص نئی نسل کی لڑکیوں کو قربانی وغیرہ سے بہت الرجی ہے۔ پوری نئی نسل کے ذہنوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس قربانی کے اتنے فضائل بیان کیئے جاتے ہیں، سالہاسال سے کروڑہا جانور ذبح کئے جاچکے ہیں لیکن آج تک نہ کوئی انقلاب آیا نہ مسلمانوں کی اخلاقی یا معاشی یا سیاسی حالت بدلی، بلکہ اور ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔
قربانی کی اہمیت سے انکار کی ایک وجہ تو احساسِ کمتری ہے، دوسرے یہ کہ یہ لوگ قربانی سے واقف تو ہیں لیکن قربانی کے اصل فلسفے سے واقف نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں صحیح دین کے فلسفے کو سمجھنے کی خواہش بھی نہیں۔ اگر یہ ایک بار سمجھ جائیں تو یہی نہیں بلکہ ہر غیرمسلم بھی زندگی میں ایک بار قربانی کرنے کا خواہشمند ہوجائے۔ بکرا کاٹنا محض ایک علامتی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ اس قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ اللہ تعالیٰ کو جو پہنچتا ہے وہ بکرا کاٹنے کے پیچھے وہ نیت اور عمل کا ارادہ ہے جو قربانی کے بعد بندے کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔
قربانی کا اصلی فلسفہ اس کی نیّت میں پوشیدہ ہے۔ جو حکمت اور فائدے اس میں پوشیدہ ہیں ان کو سمجھنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت کو اچھی طرح سمجھنا لازمی ہے کیونکہ یہ قربانی بھی انہی کی ایک یادگار سنّت ہے۔ جب انہیں بیٹے کو ذبح کرنے کی آزمائش سے گزارا گیا تو وہ اس امتحان سے پیچھے نہیں ہٹے، اور نہ ان کے بیٹے اسماعیل پیچھے ہٹے۔ آنکھوں پر پٹّی باندھی اور چُھری چلادی۔ تب سے لے کر آج تک لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بکرے کے گلے پر عربی زبان میں کچھ نیّت کے الفاظ پڑھ کر جانور کے گلے پر چھری چلانا سنّت ابراہیمی ہے۔ انہیں یہی سکھایا گیا ہے۔ اگر نیت یاد نہیں ہے تو کاغذ دیکھ کر یا سن کر الفاظ دوہرادیتے ہیں۔ پھر یہ کہہ دینے سے کہ ائے اللہ، یہ قربانی میری طرف سے یا فلاں فلاں کی جانب سے قبول فرما بسم اللہ اللہ اکبر۔ اس کے ساتھ ہی جب خون کا فوارہ نکل پڑتا ہے تو انہیں قبولیت کی رسید بھی مل جاتی ہے۔ہاتھوں اور کپڑوں پر سے خون کے چھینٹے دھوکر انہیں ایک جہاد والی عبادت کا لطف بھی مل جاتا ہے۔ عورتیں بھی پکوان کرکے گھر کو دھوتی ہیں اور خوب تھکنے کے بعد انہیں بھی ایک عبادت کا مزا آجاتا ہے۔ گوشت کی تقسیم کے ثواب کا بھی بھرپور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔ ران صمدھاوے میں اچھا گوشت رشتہ داروں میں اور فالتو چھیچھڑے اور ہڈیاں غریبوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ چونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بیٹھا ہوا ہے بلکہ بٹھادیا گیا ہے کہ جانور کے خون کے پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ قربانی کو قبول فرمالیتا ہے اور سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اس لئے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے چار بکرے قربان کئے اور ہم نے پانچ۔
دوستو؛ کیا یہی قربانی ہے؟ کیا یہی سنت ابراہیمی ہے؟۔ یاد رہے کہ اسلام اور دوسرے تمام مذاہب کی عبادتوں اور عیدوں میں فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کی کوئی عبادت بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ ہر ہر عبادت کے پیچھے ایک نہ ایک مقصد، لاجِک اور انسانیت کے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ اس میں پوشیدہ ہے۔ آپ دوسرے مذاہب کے تیوہاروں کو دیکھئے، بے مقصد اور بے فائدہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ برباد کیا جاتا ہے جس سے نہ خود انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ قوم کو۔ بلکہ کچھ تیوہار تو ایسے بھی ہیں جن میں انسانوں کی جان بھی جاتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بکروں کو کاٹنے اور گوشت بھون کر کھانے کا بھلا کس کو فائدہ پہنچتا ہے سوائے اس کے کہ دو تین وقت کچھ لوگوں کا پیٹ بھرجاتا ہے۔یہ فائدہ کوئی ایسا بھی بڑا فائدہ نہیں جس کے لئے اتنے بکھیڑے مول لئے جائیں اور نہ اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز ہے جس کے فضائل میں اتنی آیتیں اور حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ کر تو واقعی لگتا ہے کہ یہ خودساختہ دانشور اور مصلح سچ ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ پیسہ تعلیم یا فلاحی کاموں پر ہی لگا دیا جائے تو کہیں زیادہ فائدے ہوسکتے ہیں۔
جب تک لوگ قربانی کی نیّت کیا ہے اس کو نہیں سمجھیں گے، اسی طرح لاکھوں جانور ہلاک ہوتے رہیں گے۔
آیئے جانیں کہ نیّت کیا ہے جس میں ایک انقلاب چھپا ہے۔ نیّت وہ نہیں جو زبان سے آپ پڑھ رہے ہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت جو ارادہ یا سچّا عزم یا مقصد دل اور دماغ میں چلتا رہتا ہے اس کو نیت کہتے ہیں۔اسی لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر عمل کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے۔ قیامت میں ظاہر میں کیا نظر آرہاہے وہ نہیں دیکھا جائے گا بلکہ دل میں اس عمل کے کرتے وقت کیا ہے وہ دیکھا جائیگا۔ وہ نیّت یہ ہے کہ جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت بندے کے دل اور دماغ میں یہ عزم یا پکّا ارادہ گونجتا رہے کہ ”ائے اللہ، تیرے حکم کے آگے میں میری جان، مال اور شہر تو کیا اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر“۔
اور یہی وہ آخری قربانی تھی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو اس دنیا کی امامت دینے کا اعلان فرمایا ”انی جاعلک للناس اماما“۔ آپ اسی لئے آج بھی یہودیوں کے امام ہیں، نصرانیوں کے امام ہیں، مسلمانوں کے امام ہیں۔ ہندودھرم شاستروں میں کئی ایسی باتیں اور واقعات ہیں جن کے تانے بانے ابراہیمؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں سے ہی ملتی ہیں۔ ہاں ان کی شکل بدل گئی ہے،چونکہ کاغذ ایجاد نہیں ہوا تھا اس لئے صدیوں سے یہ باتیں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ ہفتہ کے دن عبادت، گائے کی پوجا، سر منڈھانا وغیرہ ایسے کئی اعمال ہیں جو بنی اسرائیل سے چلے آرہے ہیں۔”النبی الخاتم“ میں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے بہت تفصیل سے یہ باتیں پیش کی ہیں۔ غرض یہ کہ ہر مذہب میں تعلیمات کی شکل تھوڑی بدلی ہوئی لیکن اصل ایک ہی ہے یعنی ”کان الناس امّۃ واحدہ“۔ انسان ایک ہی امت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلسل پیغمبر اور کتابیں اور صحیفے بھیج کر انسانوں کی ہدایت جاری رکھی، اور آخری نبی محمد ﷺ اور آخری کتاب قرآن ہے۔ اس کے ساتھ ہی سابقہ تمام نبیوں کی شریعت اور تمام کتابوں کو منسوخ کرکے اللہ تعالیٰ نے اسی دین کو انسانیت کے لئے مقرر فرمادیا۔ جتنے ادیان آئے ان سب کے امام ابراہیم ؑ ہی تھے۔
لیکن یہ امامت صرف ایک بیٹے کی قربانی کے بعد نہیں مل گئی۔یہ قربانی تو آخری امتحان تھا، جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت وہ تمام امتحان بھی ذہن میں ہونے لازمی ہیں جن سے گزر کر ابراہیم ؑ بیٹے کی قربانی تک پہنچے۔ چھری پھیرتے ہوئے بندہ کی نیت یہی ہو کہ میں بھی ان تمام قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
سب سے پہلا امتحان حلال کمائی کا ہوتا ہے۔ جب ابراہیم ؑ نے دیکھا کہ والد کی کمائی حلال نہیں ہے۔ وہ بت بنا کر بیچتے ہیں، آپ نے والد کا گھر چھوڑ دیا۔بندہ چھری پھیرنے سے پہلے ایک لمحہ یہ سوچ لے کیا اس کی کمائی حلال کی ہے؟کسی مولوی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ”استفت بقلبک“ یعنی اپنے دل سے پوچھ، اپنے ضمیر سے پوچھ۔
دوسرا امتحان محلہ اور شہر چھوڑنا ہے۔ جب آپ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ لوگ ان پتھر کے بتوں یا مورتیوں کو توڑ کر ایک اللہ کی عبادت اختیار کریں لیکن لوگ نہ مانے۔آپ نے بتوں صرف توڑا ہی نہیں بلکہ عقلی اور منطقی لوگوں کو ہر طریقے سے سمجھایا کہ نہ چاند سورج خدا ہوسکتے ہیں، نہ پتھر اور مٹی کی مورتیاں خدا ہوسکتے ہیں، اور نہ خدا کا تصور ان کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان کے مسلمان اس طرح سے سعودی عرب یا پاکستان وغیرہ سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں اسی ماحول میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے جس ماحول میں ابراہیم ؑ پیدا کئے گئے تھے، یعنی جہاں قدم قدم پر بت بنائے جاتے ہیں اور پوجے جاتے ہیں۔
تیسرا امتحان تھا قانون سے ٹکرانے کا۔ یہ کوئی معمولی امتحان نہیں ہوتا۔ چاہے حکمران کوئی بادشاہ ہو، فوجی ڈکٹیٹر ہو، جمہوری صدر ہو یا کوئی اور، ہر حکمران چاہتا ہے کہ اس کی مرضی چلے۔ جو ان کی مرضی پر نہ چلے اسے سزائے موت، یا عمر قید، یا جھوٹے انکاؤنٹر یا پھر جھوٹے الزامات میں ساری عمر عدالتوں کے چکر کاٹنے کے عذاب میں مبتلا کردے۔لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن قانون کے آگے مجبور ہوکر اکثر مخبر (انفارمر) بن جاتے ہیں۔ ابراہیم ؑ کو بھی سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن آپ نے یہ پکّی نیت کی ہوئی تھی کہ والد یا شہر تو کیا جان بھی اللہ کے لئے قربان کرنی پڑی تو کردیں گے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانِ عزیز کو ختم ہونے سے بچالیا۔ لیکن امتحانوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
اگلا امتحان تھا بیوی اور نوزائیدہ بچے کو لے کر ملک چھوڑ دینے کا۔ آپ بیوی اور بچے کو لے کر بے آب و گیاہ صحرا میں نکل پڑے اور تقریباّ ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ طےکرنے کے بعد جس مقام پر پہنچے اسے دنیا آج مکۃ المکرمہ کے نام سے جانتی ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد حکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو چھوڑ کر واپس پلٹو۔ بیوی نے یہ بحث نہیں کی کہ یہ کیسا اسلام ہے کہ آدمی اپنی بیوی اور بچے کو تنہا صحرا میں چھوڑ کر چلاجائے۔ صرف اتنا پوچھا کہ ”کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟“۔ جواب ہاں میں ملنے پر بیوی نے خداحافظ کہہ دیا۔ جب بیوی کو شوہر پر اعتماد ہو کہ اس کی نیّت خالص ہے وہ اللہ کو خوش کرنے کے علاوہ اور کچھ نیت نہیں رکھتا تو ایسی بیوی، شوہر پر ضرور اعتماد کرتی ہے۔
پھر برسوں بعد جب واپس لوٹ کر آتے ہیں تو بچہ بڑااور سمجھ دار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد وہ آخری امتحان لیا جاتا ہے جس کو ہم قربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بندہ کسی کے لئے والدین کو چھوڑ سکتا ہے، ملک کو چھوڑ سکتا ہے، بیوی کو بھی چھوڑ سکتا ہے لیکن اولاد کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہیں پر ہر انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ آزمانا تھا کہ ابراہیمؑ اللہ کی محبت میں اولاد کو قربان کرتے ہیں یا اولاد کی محبت میں اللہ کے حکم کو ٹالتے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے لوگ اولاد کی محبت میں آزمائے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر، اعلیٰ تعلیم کے لئے، بچوں کے شاندار مستقبل کے لئے لوگ اللہ کے احکامات کو جانتے ہوئے بھی مان نہیں سکتے۔ لیکن ابراہیم ؑ اس امتحان میں بھی پورے اترے۔ اور بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے تیار ہوگئے۔ اس امتحان میں پورے اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شاندار انعام کا اعلان فرمایا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ ”و اذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما“ (سورہ بقرہ 124) یعنی جب ابراہیم کے رب نے انہیں کئی باتوں سے آزمایا، اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے تو کہا کہ میں آپ کو تمام انسانوں کی امامت عطاکروں گا“۔ امامت یعنی لیڈرشِپ کے ہیں۔ لوگ جو اس لیڈرشپ کے معنی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک لیڈرشپ کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں لے جانی والی لیڈرشپ۔ یہ وہ لیڈرشپ ہے جو تمام انسانوں کی اخلاقیات، اکنامی، سیاست، امن انصاف او حقوق العباد کے مکمل نظام کو قائم کرنے والی لیڈرشپ ہے۔
دوستو؛ یہ صرف ایک بکرے کی قربانی نہیں ہے۔ اس کے خون کا پہلا خطرہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا کی لیڈرشپ کے لئے پیدا کیا ہے، اس پر ہمارا حق ہے، یہ ہمارا منصب ہے، ہم کو لیڈرشپ قائم کرنے کے مقصد سے پیدا کیا گیا ہے۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ، وکالت یا مزدوری وغیرہ تو صرف روٹی کمانے کے ذرائع ہیں، ہمیں ان کے لئے نہیں اور نہ عالیشان گھر بنانے، اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ خاندانوں میں شادیاں کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، ہم کو اس دنیاکا نظام بدلنے کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ کیونکہ جب آپ نظام بدلنے کے لئے نہیں اٹھیں گے تو لازمی طور پر کسی اور نظام کے تحت آپ کو غلام بن کر رہنا ہوگا جیسے کہ آج ہم ہیں۔ اگر آپ پتھروں اور گائے اور ہاتھی جیسے جانوروں کی پرستش کے نظام کو ختم نہیں کرینگے تو انہی جھوٹے خداؤں کی پرستش آپ کے سر پرمسلّط ہوکر رہے گی۔ آپ اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے نہیں اٹھیں گے تو غیر اللہ کی محکومیت آپ کی سزا ہوکر رہے گی۔ اس لئے جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت یہ اچھی طرح سوچ لیجئے کہ آپ ایک جانور کی جان لے کر کیا چاہتے ہیں۔ صرف مزے دار پکوان یا ایک انقلاب؟ اگر انقلاب چاہئے تو یہ بھونے ہوئے گُردے اور کلیجی کی خوشبو کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ ابراہیم ؑ کی ان قربانیوں اور امتحانوں کو اپنے ذہن میں چھری پھیرتے وقت تازہ کرنے سے آئے گا۔ تو گویا قربانی کی نیت یہ ہوئی کہ ”ائے اللہ، میں ان تمام قربانیوں کے لئے تیار ہوں جو ابراہیم ؑ نے دی تھیں۔ میں اس کے لئے حرام کمائی تو کیا، گھر، ملک، بیوی تو کیا اگر اولاد کو بھی ذبح کرنا پڑے تو تیرے حکم کے آگے کردوں گا، بسم اللہ اللہ اکبر“۔ جب بندہ اس سچّی نیت کے ساتھ جانور ذبح کرتا ہے، اور اس کا گوشت گھر گھر پہنچتا ہے تو یہ گوشت دراصل ایک پیغام ہے جو گھر گھر یہ اعلان کرتا ہے کہ بھیجنے والے نے یہ عہد کرلیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے۔اس طرح اللہ کا وہ کیا دین ہے، کیا حکم ہے جس کے لئے یہ بندہ اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے، وہ ہر ایک کے ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح پورا خاندان اور پورا معاشرہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ فائدہ جو ایک بکرے کی قربانی کے ذریعے ہوتاہے۔ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے کے ساتھ ہی جو کام بندے کے ذمہ واجب ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں: پہلا کام: اعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئاّ یعنی ایک اللہ کی عبادت، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،دوسرا کام: قم فانذر: اٹھو اور دوسرے انسانوں کو پیغام پہنچاو۔ اگر 25 کروڑ مسلمان قربانی کرتے وقت یہ عہد کرلیں کہ وہ صرف چار چار ہم وطن غیرمسلم بھائیوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیں گے تو 85 کروڑ انسان دوزخ کی آگ سے بچ جائیں گے۔ تیسرا کام: یاایھاالذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم باباطل: چاہے کچھ ہوجائے حرام مال کو ہاتھ نہیں لگانا، اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا جس میں حرام کمائی کے بغیر آج گزارا ناممکن ہوچکا ہے۔ اپنے اور اپنی اولاد کے پیٹ میں صرف اور صرف حلال کمائی پہنچانے کا عہد کرلینا،چوتھا کام: کونوا قوّامین بالقسط: یہ دین عدل قائم کرنے کے لئے آیا ہے۔ جس قوم میں انصاف قائم نہیں ہوتا وہاں قتل و غارتگری، ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ زنی اور ہر طرح کی انارکی پیدا ہوجاتی ہے۔ عدل یہ ہے کہ سماج میں انسانی حقوق، مساوی حقوق،خواتین کے حقوق، صنفی انصاف اور مساوات قائم ہوں۔ پانچواں کام یہ ہے کہ یہ سارے کام تنہا نہیں کیے جاسکتے۔ اکیلا آدمی حلال کمائی کا نظام قائم نہیں کرسکتا اور نہ انصاف قائم کرسکتا ہے۔ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق انصاف قائم کرنے اٹھ جائے تو بجائے اسلام کے ہر طرف قتل و خون شروع ہوجائیگا۔ اس کے لئے ایک اللہ کی رسی یعنی ایک جماعت ایک سمع و طاعت کا نظم، ایک امیر کی اتباع، ہجرت اور جہاد کی منصوبہ بندی کرنے والی ایک مکمل تنظیم درکار ہے۔ ہر قربانی کرنے والا چھری پھیرتے وقت پہلے اپنی انا کو ذبح کرے، اپنی قابلیت، اپنی میں، اپنے لیڈر بننے کی تمنا، اور اپنے خاندان کے فخروغرور کو ذبح کرے اور ایک معمولی خدمت گزار کے طور پر اپنے آپ کو ایک اجتماعیت کے حوالے کردے، تب جاکر ایک بکرے کی قربانی سے دنیا کو فائدہ پہنچے گا، ورنہ اپنی انا کو قربان کئے بغیر جو قربانی ہوگی اس سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا، امت جتنی ذلت کا شکار آج ہے اس کی ذلت میں ہر سال اضافہ ہوتا جائے گا۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...