کورونا بحران ، مزدوری کاشکنجہ اورسسکتا بچپن

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
قدرتی آفت، سیلاب اور تشدد کا بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ اگر بچے کا تعلق غریب، سماجی و تعلیمی طور پر پسماندہ طبقہ سے ہے تو اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ کھانا، پینے کا صاف پانی، دوا، محفوظ رہائش کچھ بھی دستیاب نہیں ہو پاتا ۔ نقل مکانی کی وجہ سے پڑھائی چھوٹ جاتی ہے ۔ غیر یقینی، سخت حالات اور غریبی سے ہنستا کھیلتا بچپن مزدوری کے بوجھ تلے دب جاتا ۔ عالمی برادری نے مسلسل ترقی کے 2015 میں جو اہداف طے کئے تھے ۔ ان میں ہر طرح کی بچہ مزدوری کا خاتمہ بھی ایک تھا ۔ دنیا کو غریبی، بیماری، ناخواندگی، ماحولیات سے جڑے ہدف 2030 تک حاصل کرنا ہے ۔ جبکہ بچہ مزدوری سمیت انسانی غلامی کے خاتمے کا ہدف 2025 رکھا گیا ہے ۔ اب اس ہدف کو حاصل کرنے میں صرف ساڑھے چار سال بچے ہیں ۔ مگر عالمی وبا کووڈ ۔19 کی وجہ سے اس ہدف تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا ۔
کورونا بحران صرف صحت اور معیشت سے جڑا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ بچوں کے مستقبل کا مسئلہ بھی ہے ۔ سن 2000 میں دنیا میں 26 کروڑ بچے ایسے تھے ۔ جن کی عمر 14 سال سے کم تھی، ان کاوقت کاپی کتابوں اور دوستوں کے بیچ نہیں بلکہ ہوٹلوں، گھروں، کارخانوں، صنعتوں، کھیت کھلیان، برتن بنانے، پولش کرنے والی فیکٹریوں اور اوزاروں کے بیچ گزر رہا تھا ۔ مشترکہ کوششوں کی وجہ سے ان کی تعداد گھٹ کر 15 اب کروڑ رہ گئی ہے ۔ بچوں کے ذریعہ سب سے زیادہ سامان بھارت، بنگلہ دیش اور فلپائن میں بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے کچھ ممالک میں مزدوری کیلئے عمر مقرر نہیں ہے تو کچھ نے خطرناک کاموں کی فہرست نہیں بنائی ہے ۔ بچہ مزدوری دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔
اس کے نام پر بچوں کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوتا اور ان سے کیا کیا نہیں کرایا جاتا ۔ گزشتہ سال انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر گاے رائیڈر نے ایک پروگرام میں تشویش ظاہر کی تھی کہ جس رفتار سے بچہ مزدوری پر کام ہو رہا ہے اس سے 2025 میں بھی 12 کروڑ بال مزدور بچے رہیں گے ۔ نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی نے دنیا بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے پوری طرح قابل ہے ۔ وہاں موجود بہت سے حضرات نے مانا تھا کہ منصوبہ بند طریقہ سے اس برائی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔
کیلاش ستیارتھی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس بڑا چیلنج لے کر آیا ہے ۔ اس سے بچہ مزدوری، کم عمر میں شادی، جنسی استحصال اور بچوں پر مظالم کا خطرہ بڑھا ہے ۔ اس لئے اب پہلے سے زیادہ ٹھوس اور فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترقی اور غلامی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ لہذا غلامی کا خاتمہ تو کرنا ہی پڑے گا ۔ کورونا سے اس سال قریب چھ کروڑ نئے بچے انتہائی غریبی میں ڈھکیلے جا سکتے ہیں ۔ جن میں سے بڑی تعداد بچہ مزدور بنے گی ۔
بھارت میں 1991 کی مردم شماری کے مطابق بچہ مزدوری کا آنکڑ 11.3ملین تھا ۔ بچوں کیلئے کام کرنے والی این جی او کے مطابق 50.2فیصد ایسے بچے ہیں جو ہفتہ میں ساتوں دن کام کرتے ہیں۔53.22فیصد معصوم جنسی استحصال کاشکار ہورہے ہیں۔ 50فیصد خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ ان سے دن رات کام لیا جاتا ہے اور مزدوری بھی نہیں دی جاتی۔ الٹے کام نہ کرنے پرانہیں جسمانی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مانا جارہا ہے کہ آج جو بچے مزدوری میں لگے ہوئے ہیں، ان میں قریب ایک تہائی لڑکیاں ہیں ۔ بال مزدوری میں لگے زیادہ تر بچوں کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ خاص طورپر بھارت میں اس مسئلہ نے کورونا بحران کی وجہ سے زیادہ بھیانک شکل اختیار کر لی ہے ۔
جب بھی بچوں کے حقوں سے متعلق بات ہوتی ہے،بہانے بنائے جانےلگتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو تعلیم کا حق دینے کیلئے گوپال کرشن گوکھلے نے 1911میں ایمپیریل ودھان پریشد میں بل پیش کیا تھا۔ یہ بل جبکہ چھوٹے لڑکوں تک محدود تھا لیکن پھر بھی پاس نہیں ہوسکا ۔ 1986 میں جب پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ18سال سے کم عمر کے بچوں سے مزدوری نہیں کرائی جاسکتی، تب بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ غریب خاندانوں کیلئے مشکل ہوجائے گی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ جو غریب ہیں، وہ روزی روٹی میں الجھے رہیں۔ اس سے باہر نکل کر انہیں کچھ سوچنے کا موقع نہ ملے اور نہ ہی ان کا دیش کے کسی معاملے سے کوئی سروکار ہو ۔ بال مزدوری، غریبی اور ناخواندگی کا تکونی رشتہ ہے ۔ وہ ایک دوسرے کو جنم دیتے ہیں، جو مسلسل ترقی، سماجی و اقتصادی انصاف اور انسانی حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
سپریم کورٹ میں چلے کئی مقدمے، تحقیقی رپورٹس اور سیکڑوں سماجی و فلاحی تنظیموں کی محنت و کوششوں کے نتیجہ میں بنی سیاسی ہم خیالی کی وجہ سے 2009 میں یو پی اے حکومت نے حق لازمی تعلیم کا قانون بنا دیا ۔ اس کے تحت 6 سے 14 برس کے ہر بچے کو مفت تعلیم کا بنیادی حق مل گیا ۔ اس قانون کی بڑی خاصیت یہ تھی کہ اس کے دائرے میں چھوٹی لڑکیاں شامل تھیں۔ اسی کے سہارے وزیراعظم نریندر مودی کو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھائی اسکیم لانچ کرنے کا موقع ملا۔ جبکہ پسماندہ و حاشیہ پر رہنے والے طبقات کو یہ سبق پڑھایا جاتا رہا ہے کہ لڑکی کو پیدائش کے بعد سے ہی گھر کے ماحول میں ہاتھ بٹانے کی تربیت دی جائے۔ یہ تہذیب کا تقاضہ ہے۔ سات آٹھ سال کی بچی گھر کی صاف صفائی، کھانابنانے جیسے روز مرہ کے کاموں کے علاوہ اس کام میں بھی داخل ہوچکی ہوتی ہے جو ذات کے لحاظ سے اس کے خاندان میں ہوتا آیا ہے۔ اس لڑکی کو اسکول بھیجنے والا اور اسکول میں اس کی پڑھائی کے معیار کو ماپنے کی کوشش کرنے والا قانون ایک خواب جیسا تھا۔ اس خواب کے حقیقت ہونے میں تہذیبی کانٹے اور سرکاری چٹانیں پہلے ہی حائل تھیں، تب نئے بچہ مزدوری قانون نے اس کے خواب کو کئی دہائی آگے کھسکا دیا ۔ معیشت کو سدھارنے اور سرمایہ کاروں کو لبھانے کے لئے سرکاروں کا لیبر قوانین کو لچیلا بنانے پر روز رہا ہے ۔ کورونا بحران کے دوران بھی کئی ریاستی سرکاروں نے اس میں ترمیم کی ہے ۔ بچہ مزدوری قانون میں 2012 میں پھر 2016 میں نرمی کی گئی ۔ اس وقت کے لیبر اور روزگار وزیر بنڈارو دتا تریہ نے بچہ مزدوری ترمیمی بل 2016 کو تاریخی و میل کاپتھر بتایا تھا۔ ان کے مطابق اس کا مقصد بچہ مزدوری کو پوری طرح ختم کرنا تھا۔ اس بل میں 14سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے خاندان سے جڑے کاموں کو چھوڑکر مختلف زمروں میں کام کرنے پر مکمل روک لگانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی قانون زمین سے جڑا ہوتا ہے تبھی ٹکتا ہے اور لوگوں کو انصاف دیتا ہے۔ اسے تعلیم کا حق قانون 2009 سے بھی جوڑا گیا۔ نیا بل کہتا ہے کہ کوئی بھی بچہ کسی کام میں نہیں لگایا جائے گا لیکن جب بچہ اپنے اہل خانہ یا اہل خانہ کے روزگارمیں مدد کررہا ہو، اسکول کے بعد کے وقت میں یا چھٹیوں میں اور روزگار خطرناک نہیں ہے تو یہ قانون لاگو نہیں ہوگا۔ بنڈارو دتا تریہ کی دلیل تھی کہ خاندانی کاروبار میں مالک۔مزدور کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بڑی عام بات لگتی ہے کہ بچے گھرکے کاموں میں مدد کریں۔ سوال یہ ہے کہ بچے اسکول کے بعد یا چھٹیوں میں کام کریں گے تو سیرو تفریح کب کریں گے؟ پڑھیں گے کب؟ کھیلیں گے کب؟ کیا ان کی ذہنی ترقی کیلئے یہ ٹھیک رہے گا؟ کیا ان کے نازک جسم پر کسی بھی طرح کی مزدوری کا بوجھ لادنا صحیح ہوگا؟ اور یہ کون طے کرے گا یانگرانی کرے گا کہ بچہ خاندان کے کام میں مدد کررہا ہے؟ یا وہ اپنے والدین کا قرض چکانے کیلئے بندھوا مزدور بن گیا ہے۔

بچہ مزدور بل 2016میں خطرناک صنعتوں کی تعداد 83سے کم کرکے 3کردی گئی ہے۔ اب صرف کان کنی،آگ پکڑنے والی اشیاء اور دھماکہ خیز مواد کو ہی خطرناک مانا گیا ہے تو کیا زری، پلاسٹک، چوڑی بنانے کا کام، کپڑے، قالین بنانے کے کام، دکان، فیکٹری، کھیت کھلیان میں کیڑے مارنے والی دواؤں اور کیمیکل کے بیچ کام کرنا بچوں کیلئے محفوظ ہے۔کیا بیٹری بنانا، رنگائی پتائی، اینٹ بھٹے میں کام ان کیلئے ٹھیک ہے؟کیا کوڑا چننا یا ڈھونا ان کی صحت کیلئے صحیح ہے؟ فلم ٹی وی سیریل اور اشتہارات میں آرٹسٹ کے طورپر کام کرنے سے بچوں میں کیا ذہنی تناؤ پیدا نہیں ہوتا؟ کیا یہ ان کی ذہنی نشو ونما کیلئے ٹھیک ہے؟ کچھ لوگوں کی زندگی ٹریفک سگنل پر کتاب، اخبار، پھول، کھلونے، موبائل چارجر بیچ کر چلتی ہے تو کیا ان کے بچوں کو ٹریفک سگنلس پر سامان بیچنے کی اجازت ہوگی؟ خاندانی کام میں بچوں کے تعاون کے پیچھے دلیل ہے کہ اس سے بچوں کو آبائی کام اورہنر سکھائے جاسکتے ہیں لیکن یہ طبقہ واری نظام (جاتی واد) کو مضبوط کرنے کی سازش ہے۔ ماہرین اس کے خلاف ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے اسکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں اس سے اضافہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بچہ آبائی پیشہ کو ہی کیوں اپنائے؟ دراصل آبائی کاروبار سے بچوں کو منسلک کرنے کا مطلب ہے صنعتوں کیلئے سستے مزدوروں کا انتظام کرنا۔ جس کا مودی جی نے دنیا میں گھوم گھوم کر وعدہ کیا ہے کہ آپ ہمارے دیش میں صنعت کاری کرو، سستامزدور ہم فراہم کریں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ملک سے بال مزدوری کو ختم کرنا ہے تو بال و بندھوا مزدوری کے قوانین میں ڈھیل نہیں دینی چاہئے ۔ کیوں کہ اس سے غیر منظم زمرہ کے مزدوروں میں غریبی اور بچہ مزدوری بڑھتی ہے ۔

کورونا نحران کی وجہ سے بچہ مزدوری کے حالات سدھرنے کے بجائے اور خراب ہونے کا امکان ہے ۔ کووڈ 19 کا سب سے زیادہ اثر سماجی و تعلیمی طور پر پسماندہ کمزور طبقات پر پڑ رہا ہے ۔ ان میں غریبی و بے روزگاری کا اضافہ ہوا ہے جس کا خمیازہ ان کے بچوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ اس کا نتیجہ بچہ مزدوری کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے ۔ سرکار 30 کروڑ بچوں کو مڈ ڈے میل یا اسکول جانے کے بدلے ان کے والدین کو نقد رقم دیتی ہے ۔ لاک ڈاؤن اور بیماری کے ڈر سے اسکول بند ہیں ۔ لمبے وقت کے لئے اسکول چھوٹ جانے کے بعد زیادہ تر غریب بچے دوبارہ نہیں لوٹتے ۔ ان کے مزدور بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ بھارت کے کروڑوں مہاجر مزدوروں کے بچوں کی بھی یہی حالت ہو سکتی ہے ۔ اگر سماج، سرکار، صنعت کار، کاروباری حضرات بچوں کو کام پر جانے سے روکنے کے لئے ٹھوس پہل کریں تو بچوں کو مزدوری کے شکنجے سے بچایا جا سکتا ہے ۔ محفوظ اور خوشحال بچپن سے ہی محفوظ اور خوشحال ملک کی تعمیر ممکن ہے ۔ آج اگر اپنے بچوں کو بہتر زندگی نہیں دے پائے تو کل پوری نسل کی بربادی کے مجرم کہلائیں گے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *