جگر مراد آبادی ۔ایک رندِ باصفا

WhatsApp Image 2020-07-18 at 10.02.42 PM
عبد اللہ زکریا

عبد اللہ ذکریا
عبد اللہ ذکریا

فردِ عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں
اس شعر کے خالق جگر مراد آبادی بلا شبہ بیسویں صدی کے نمائندہ شاعروں میں سے ایک ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس رندِ سر مست اور درویش صفت شاعر کو جتنی مقبولیت حاصل ہوئی انکے ہم عصروں میں کم کو ہی ملی ۔جگرکی شاعری اس بات کا بھی ثبوت ہےکہ شعر گوئی کا فن وہبی ہے کسبی نہیں،اردو کے بعض بڑے شعراء جن میں اقبال ،فیض اور فراق نمایاں ہیں اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اعلی تعلیم کے حصول کا موقع ملا،وہ نئے فلسفوں سے روشناس ہوئے اور انہیں دنیا کے ادب سے متعارف ہونے کا موقع ملا جس نے انکی نظر میں وسعت پیدا کی اور ان کی شاعری میں تنوع کو جگہ ملی۔وہ اقبال کا فلسفہ خودی ہو یا فیض کی انسان دوستی ہو ،یہ سب مغربی فلسفہ سے مستعار لئے گئے ہیں۔ان کےبرعکس جگر کی تعلیمی استعداد بہت کم ہے لیکن قدرت نے شعر گوئی کی جو صلاحیت انہیں ودیعت کی تھی اس نے اس تعلیمی فقدان کو کبھی آڑے آنےنہیں دیا۔
جگر ۶اپریل ۱۸۹۰ میں مراداباد میں پیدا ہوئے۔ان کا نام علی سکندر رکھا گیا۔شاعری ۱۳ کی عمر میں شروع کردی اور جگر تخلص اختیار کیا،ابتدائی شاعری میںداغ کا رنگ دکھائی دیتا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔فصیح الملک داغ دہلوی کا طوطی ہندوستان میں بولتا تھا اور بقول مشتاق احمد یوسفی کے اس صدی کے اوائل میں اگر داغ کا پورا کلام بھی دریا برد ہو جاتا تو طوائفیں پورا کا پورا کلام واپس لکھوا دیتیں،داغ کی کوئی غزل کبھی پٹ نہیں سکتی،جگر نے تتبع تو اختیار کیا لیکن اس میںاپنے رنگ بھی بھرے ،یہاں تک کہ انکا ایک مخصوص لہجہ بن گیا جو انکی شناخت قرار پایا،کیف اور سر مستی میں ڈوبی یہ غزلیں عشق حقیقی کی ترجمان ہیں یا عشق مجازی کی یہ آپ اپنے ظرف سے شناخت کر سکتے ہیں، یہ بحث بھی نقادوں کے لئے چھوڑ دیں کہ غزلیں کون سی بہتر ہیں ؟تائب ہونے سے پہلے والی یا تائب ہونے کے بعد وا لی ؟ہم تو بس یہ مشورہ دیں گے کہ آپ اس کیف وسرورکا حصہ بن جا ئیں جو ان غزلوں میں موجیں مار رہا ہے۔
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں ،یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے شیخ جی،یہاں پارسائی حرام ہے
یہ جنابِ شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے ،جو یہاں پیو تو حرام ہے

عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

اک لفظِ محبت کا ،ادنی یہ فساناہے
سمٹے تو دلِ عاشق ،پھیلے تو زمانا ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے،کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ،ٹھوکر میں زمانا ہے
یہ عشق نہیں آساں،اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ

یہ چند اشعار مشتے نمونے از خروارے پیش کر دئے ،تشنگان اپنی پیاس بجھا نے کیلئے اس سمندر میں ڈوب جائیں،جگر صاحب کو اصغر گونڈوی سے ایک شیفتگی ،عشق اور عقیدت تھی،مشہور ہےکہ وہ ان کی محفل میں سر جھکائے چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے،ہم نے کہیں پڑھا ہیکہ وہ انکے ہم زلف بھی تھے لیکن ہم اسکی تصدیق سے قاصر ہیں،اہلِ تحقیق چھان بین کر لیں۔
جگر صاحب کی زندگی کی تعلق سے دو واقعے بہت مشہور ہیں۔
ایک تویہ ہے کہ ان کوکار دار صاحب کی فلم میں گانا لکھنے کا موقع ملا،انہوں نے سائننگ اماؤنٹ بھی لے لی تھی،رات ان کو خواب میں ایک غلاظت بھری بالٹی دکھائی دی جسے انہوں نے اشارہِ غیبی سمجھا اور صبح ہوتے ہی وہ رقم لوٹا دی،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مجروح سلطانپوری کو فلموں میں متعارف کرانے والے بھی وہی ہیں۔
دوسرا واقعہ شراب نوشی سے توبہ کا ہے، جگر صاحب ایک رندِ سرمست تھے،انکی رندی کے واقعات زبانِ زد خاص و عام ہیں،وہ ہفتوں شراب میں اپنے آپ کو غرق رکھتے تھے،مشاعروں میں لڑکھڑاتے آتے اور مشاعرہ ختم ہونے کے بعد منتظمین انہیں لاد پھاند کر لے جاتے ،لیکن اس حالت میں بھی انہوں نے کبھی شرافت اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ حالتِ مے نوشی میں بھی کبھی کوئی قابلِ گرفت جملہ یا حرکت ان سے سرزد نہیں ہوئی،نشہ جب زیادہ گہرا ہوجاتا تو ایک طرف ہو جاتے اور بات چیت سے اجتناب کرتے،دینی جذبہ اس قدر تھا کی اس حالت میں بھی اگر کوئی خلافِ شریعت جملہ سن لیتے تو تڑپ اٹھتے۔علامہ سید سلیمان ندوی نے پیشنگوئی کی تھی کہ’’جگر ایک دن ضرور تائب ہو جائیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ،انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پھر زندگی بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ۔
جگر کے مشاعرے لوٹ لینے کے بہت سارے واقعات ہم نے سنےہیں ،کلام کی خوبی میں تو کوئی کلام نہیں، انکے بے مثال ترنم کا بھی اسمیں بہت بڑا ہاتھ ہے،ہمیں تو سننے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ،ہاں یہ ریکارڈنگ ہاتھ لگی ہے۔آپ بھی لطف اٹھائیں۔ https://youtu.be/UnKoQ0A9E1Y
اردو کے اس البیلے شاعر کا ذریعہ معاش کیا تھا؟آپ کو یقین نہیں آئے گا،وہ شہرشہر گھوم گھوم کر عینکیں بیچتے تھے اور اپنا پیٹ پالتے تھے۔
پیدا کہاں اب ایسے پراگندہ طبع لوگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *