وہاٹسپ یونیورسٹی

عبد اللہ ذکریا
عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ زکریا
ذرائع ابلاغ میں بے نظیر ترقی نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ،جس سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے وہیں کولیٹرل ڈیمیج (collateral damage)کے طور کچھ ایسا بھی ہوا ہے جسکا بھگتان سب کو کرنا پڑ رہا ہے۔پہلے دنیا میں علمی اور تحقیقی یونیورسٹیاں قائم کی جاتی تھیں ۔آج ایک نئی یونیورسٹی بن گئی ہے جسے ہم وہاٹسپ یونیورسٹی کا نام دے سکتے ہیں۔اسکا قیام تو بہت پہلے ہو گیا تھا لیکن اس کا سب سے موثر استعمال ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے الیکشن کے موقع پر ہوا جب وہ ایک ہارا ہوا الیکشن صرف اس لئے جیت گئے کہ انکی پی آر(public relations )ٹیم نے امریکی عوام کو ہلیری کلنٹن کی ایسی منفی تصویر دکھانی شروع کردی جسکا حقیقت سے صرف تھوڑا سا واسطہ تھا،باقی چیزیں بالکل فیک (fake) تھیں لیکن یہ مہم (campaign )وہاٹسپ کے ذریعہ اس شدومد کے ساتھ چلائی گئی کی امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد اس جھانسے میں آگئی،یہ کامیابی اتنی غیر متوقع تھی کہ پورا امریکی میڈیا  حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ انکے حساب سے توہلیری کی کامیابی  forgone conclusion تھی۔کامیابی کا یہ فارمولہ پھر ہر جگہ دہرایا جانے لگا،ہر ملک میں ایک dedicated IT Cell بنایا گیا جسکا کام چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا کو manage کرنا قرار پایا۔بڑے بڑے دماغ hire کئے گئے اور بہت بڑا فنڈ اس کے لئے مختص کیا گیا۔یہ image building کا بھی کام کرتے ہیں اور damage control کا بھی،کچھ ملکوں میں یہ IT Cell ماہر فن بن گئے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کی پروپیگنڈہ مشین بن کر رائے عامہ  پر اثر انداز ہو رہے ہیں ،باقی ابھی اسکے ابتدائی اسباق سیکھ رہے ہیں،لیکن ان سے چھٹکارا کہیں بھی نہیں ہے،خیر یہ ایک لمبی بحث ہے ،میں سرِ دست صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اسکی وجہ سے authenticity ایسی متاثر ہوئی کہ مجھے تو بالکل سمجھ میں نہیں آرہا ہیکہ جو واقعات ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں یا میرے inbox  میں جوطرح طرح کے واقعات آتے رہتے ہیں انمیں سے کتنے پر بھروسہ کیا جائے اور کتنوں کو reject کر دیا جائے،محدثین نے روایت اور درایت کا جو معیار حدیثوں کے سلسلے میں شروع کیا تھا ویسا کوئی فلٹر ہمارے پاس فی الحال موجود نہیں ہے Alt Newsجیسی کچھ ویب سائٹ موجود ہیں لیکن ایک تو ان کادائرہ بہت محدود ہے اور دوسرے انکے پاس اتنے ذرائع بھی نہیں ہیں کہ ہر چیز کو فلٹر کر سکیں۔وہاٹس اپ کے ذریعہ حضرت انور شاہ کا ایک واقعہ بہت گردش میں ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو وہ بہت مغموم تھے کسی چہیتے شاگرد نے کہا حضرت آپ کیوں مغموم ہیں؟آپ نے تو پوری زندگی دین کی خدمت اور اس کی ترویج میں گزاری ہے،حضرت نے جواب دیا کہ افسوس تو اسی بات کا ہےکہ کاش ایسا کیا ہوتا،میری تو پوری کوشش اس پر مرکوز رہی کہ کہیںفقہ حنفی مغلوب نہ ہو جائے،اب یہ قصہ حقیقتِ حال کو بیان کر رہا ہے یا کسی اور فقہ کو ماننے والے کسی متعصب نے گھڑ کر پھیلا دیا ہے،اسکا تعین کیسے ہو؟یا علامہ شبلی نعمانی اور تھامس آرنلڈ کا ایک قصہ بہت مشہور ہےکہ کس طرح ایک بار دونوں کشتی کا سفر کر رہے تھے کہ اچانک طوفان آگیا اور کشتی ڈوبنے لگی تو شبلی سمیت سب لوگ بہت گھبرا گئے لیکن تھامس ذرانہ گھبرایا اور کتاب کے مطالعہ میں مشغول رہا،جب علامہ نے دریافت کیا تو جواب دیا کہ جو بھی وقت ہے میرے پاس بچا ہے اس میں میں اپنے علم میں اضافہ کر لوں ،جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔اب واقعی ایسا ہی ہے یا جوشِ عقیدت میں کسی نے گھڑ لیا ہے؟اس شبہ کی بہت ساری وجوہ میرے پاس ہیں۔ہم حدیثوں کے سلسلے میں وہاٹس اپ (میں یہاں اسکو ایک استعارے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں)فیکٹری کی کارگزاری دیکھ چکے ہیں اور اگر بزرگانِ دین اور اولیاء کے قصے درایت کے اصول سے گزارے جائیں تو ان میںسے زیادہ تر کا گھڑا جانا ثا بت ہو جائے گا،ایک بہت بڑےولی کا قصہ ہیکہ وہ مادرزاد ولی تھےاور شیر خوارگی میں بھی رمضان کے مہینے میں دن میں دودھ نہیں پیتے تھے ،اس کو اگر صحیح مان لیا جائے تو یہ ولی صاحب تو نبیوں سے بھی بڑے ہیں(معاذاللہ ثم معاذاللہ )دور کیوں جائیں ایک بہت بڑے شیخ الحدیث جن کی کتاب روز صبح وشام مسجدوں میں سنائی جاتی ہے وہ امام ابو حنیفہ کے زہد اور تقوی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھیcome on اتنا تو غلو مت کرو،کیا امام صاحب انسان نہیں تھے؟یا حوائجِ ضروریہ سے مستثنی تھے؟ اور اگر انسانی ضرورتوں کے تحت اگر اس دوران ان کو واپس وضو کی ضرورت پڑ جاتی تو ان کے زہد و تقوی میں کون سی کمی آ جاتی؟
تو صاحبو یہ وہاٹس اپ کا concept  ہر دور اور زمانے میں موجود رہاہے،بس آج  اس نے ایک آرٹ فارم کی شکل اختیار کر لی ہے،یہ زیادہ organised ہو گیا ہے اور اسکے مقاصد تبدیل ہو گئے ہیں،عزائم زیادہ مذموم ہوگئے ہیں ،لیکن بنیادی ڈھانچہ وہی ہےوقت کے ساتھ ساتھ یہ مکتب اب ایک full fledged یونیورسٹی بن گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *