سوال ناک کا ہے

WhatsApp Image 2020-07-21 at 4.59.45 PM

جاوید اختر،کوسہ،ممبرا
قربانی میں بس گنے چنے چند دن رہ گئے ہیں ۔مسلمانی معاشرے میں قربانی اب واجب ،سنت اور مستحب سے بڑھ کر اسٹیٹس کا معاملہ بن گیا ہے اور مفتیانِ اسلام ابھی اس بات پر بحث فرما رہے ہیں کہ قربانی واجب ،مستحب یا سنت ہے ،بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز، استطاعت نہ رکھنے کے باوجودا گر گھر میں قربانی نہیں ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے ؟ بکرا اگر بیس نہیں انیس کا ہے تو معاشرہ طعنہ زن ہوگا ۔
ان سے ملئے ؛ یہ ہیں کرلا ممبئی کے ’’ فلفل سیٹھ ‘‘بھنگار والے،نماز ایک وقت کی نہیں پڑھتے ہیں،جمعہ جمعہ مسجد چلے گئے تو چلے گئے لیکن ہر سال بیس بکروں کی قربانی دیتے ہیں ،انہوں نے امسال بھی تیہہ کر رکھا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے پر بکروں کی تعداد کم نہیں ہوگی ۔معاملہ آن اور اسٹیٹس کا ہے ۔کل قیامت میں خدا کو منہ دکھانے سے پہلے سماج اور دوستوں کو منہ دکھانا ہے ۔نہیں تو ناک کٹ جائیگی ،جہاں تک ناک کا سوال ہے تو ہر نمائشی کاموں میں مسلمانی ناک ہمیشہ اونچی رہتی ہے، چاہے وہ شادی بیاہ کا معاملہ ہو ،رسمِ منگنی ہو یا پھر قربانی ہو، ناک نے عقیقے کو ولیمہ بنا دیا ۔ایک منگنی کا خرچ اب چار شادیوں کے برابر ہے ۔ یہی ناک ہے جس نے “لاک ڈاؤن ” کی وجہ سے کئی شادیاں کینسل کرادیں کیونکہ سادگی اب ’’دھنا سیٹھوں ‘‘کا وطیرہ نہیں ۔
لوگ باگ کہیں گے کہ اےدیکھو! جلجل سیٹھ” پترا والے نے سب کے یہاں گھوم گھوم کر ڈکار لی اور جب کھلانے کی باری آئی تو اپنے بیٹے کا ولیمہ سادگی اور سنت کے حوالے کر دیا ۔ہمارے پرم ” متر لل بہاری “کہتے ہیں کہ مسلمان اگر اپنی ناک گٹوا دیں تو اسکا بڑا فائد یہ ہوگا پھر انہیں کہیں ناک” اونچی رکھنی ” جیسے مسئلے سے دو چار نہیں ہونا پڑے گا۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
اگر کہیں ناک اونچی رکھنے کی نوبت بھی آئی تو پتہ چلے گا کہ ان کے پاس ناک ہی نہیں ہے اب ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ؟ میں نے کہا لل بہاری ! تم اپنی ذات پر قوم کو مت آنکو ،تم تو بہت  کچھ کٹا کے بیٹھے ہو ، یہاں تک کہ تمہارے ضمیر کی ناک بھی کٹ چکی ہے۔ تمہارے لیے کیا ہے ؟ قوم ابھی تمہاری طرح بے حس نہیں ہوئی ہے ،جس دن قوم بے حس ہو جائیگی تو سمجھو کہ واقعی  ” قومی ناک ” کٹ گئی ۔
میں نے مزید کہا لل بہاری ’’تمہاری قوم ایک بکرے کی قربانی دے یا پھر ہزاروں بکروں کی ،ناک کے ساتھ اہم مسئلہ صفائی کا ہے گر اس معاملے میں انکی ناک اونچی رہے تو پھر کیا کہنا ۔۔؟ پار سال چار دن تک   مسلم محلے بدبو مارتے رہے لیکن صفائی پر کسی کا دھیان نہیں گیا ۔آپ کی قوم قربانی کے سارے فضلے سڑک ڈال کر فرض کی ادائیگی سبکدوش ہوجاتی ہے ۔۔ رہگیروں کو تکلیف پہونچے تو بلاسے پہونچتی رہے اس سے انکو کیا ۔۔ ؟ قربانی کے دن ایک باریش فولادی مومن خون آلود چھروں اور کپڑوں کے ساتھ صبح سے شام تک پورے محلے میں دندناتا پھرتا ہے لیکن اسے انسانی احساس چھو کر بھی نہیں گزرتا ۔میری اتنی ساری بکواس سن کر لل بہاری “نے ارشاد فرمایا ’’یار قربانی کا دن ہے اتنا سب کچھ تو ہوتا رہے گا ۔اس میں اتنا ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے ؟میں نے کہا،دھنیہ ہو لل بہاری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *