Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

صوفیہ نے بہت پریشان کیا

by | Jul 21, 2020

Hagia Sofia

عمر فراہی

ایک ایسے وقت میں جبکہ کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہو رہا ہے اور نئی نسل کئی کتابوں کے مصنف اور مفسر قرآن مولانا آزاد کو تو ایک سیاسی شخصیت کی وجہ سے جان بھی لیتی ہے ورنہ اب جدید ٹکنالوجی سے ہاسپٹلوں میں پیدا ہونے والی نسل کو اقبال، شبلی، حالی، مودودی، دریابادی، نجیب آبادی، التمش، نسیم حجازی اور ابن صفی کہاں یاد رہے۔ جہاں تک ان کی تخلیقات سے تاریخ اور سیرت کے مطالعے کی بات ہے اب اردو پڑھنے والے بچوں کی تعداد بھی کتنی رہی۔ حالانکہ اقبال کے دور میں اردو اپنے عروج پر تھی پھر بھی اقبال تہذیب مغرب کے عروج اور مسلمانوں کی مرعوب ذہنیت کا یوں ماتم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؎ کبھی ائے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے/ وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا/ تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں/ کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا/ غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے/ جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا/ اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں/ مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ/ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی/ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا/ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی/ جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اقبال کے اس کلام کے تناظر میں ترک ڈرامہ ارطغرل کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ جس بات کو سمجھانے کیلئے ارطغرل کے مصنف اور ڈرامہ سازوں نے ہزاروں کروڑ خرچ کئے قرآن اور اقبال نے یہ سبق مفت میں دے دیا تھا ۔ مگر نہ تو اب ہم قرآن کو ہی سمجھتے ہیں نہ اقبال کو ۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ادھر سو سالوں میں جہاں انگریزی لبرل اور اسلام دشمن مصنفین نے مسلمانوں کے اسلاف کی جو منفی شبیہ پیش کی ہے کچھ مرعوب ذہنیت کے نام نہاد مسلم قلمکاروں اور علماء کے خیالات بھی بھٹکتے اور بہکتے نظر آئے۔ جدید نسل کو اپنے اسلاف کے کردار کی تصویر دکھانے کیلئے سیٹلائٹ کے پردے سے بھی کوئی کرشمہ ظاہر ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ کام کسی اسلام پسند حکمراں کی پشت پناہی سے ہی ہو سکتا تھا لیکن اس ڈرامے کے چھتیس سالہ مصنف نے بھی جدید اقبال کا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے تو اسے باوضو ہوکر دیکھا باقی بے وضو ہوکر دیکھنے والوں کو یقینا اس ڈرامے میں صرف عورتوں کا حسن اور تلواریں ہی نظر آئیں گی۔ یہ ڈرامہ جس طرح ذہن کو متاثر کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ کرلش عثمان نہ دیکھا جائے ۔عثمان کا پہلا سیزن ستائیسویں ایپیسوڈ پر اس وقت ختم ہوا جب عثمان اور اس کی فوج نے بازنطینی قلعے کی چالباز جنگجو خاتون گورنرکو قتل کر کے فتح کر لیا !
اتفاق سے اس خاتون گورنر کا نام بھی صوفیہ تھا اور یہ خاتون قسطنطنیہ کے آرتھوڈوکس پادری کے سربراہ کی بیٹی تھی اور اس پادری نے کمال عیاری سے صوغوت کے کیتھولک بوڑھے عیسائی گورنر سے جو کہ عثمان کا دوست تھا اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور بعد میں اس کی بیٹی نے اپنے شوہر کو قتل کر کے قلعے پر قبضہ کرلیا۔اب صوفیہ نے منگولوں کے ساتھ مل کر عثمان کے قتل کا منصوبہ بنانا شروع کیا۔ چونکہ عثمان کا قبیلہ ایک طرف اپنے ہی قبائیلی سرداروں کی غداری سے پریشان تھا۔ دوسری طرف منگول بھی عثمان کو قتل کر کے اپنے راستے کی اڑچن دور کردینا چاہتے تھے، تیسری طرف تمام تر معاہدوں کے باوجود بازنطینی قلعے اور چرچ کی سربراہ صوفیہ اپنی چالبازی سے باز نہیں آرہی تھی۔ اس کی اسی چالبازی سے تنگ آکر ارطغرل کا ایک بزرگ ساتھی سپاہی بابرعثمان سے کہتا ہے کہ بیٹا یہ صوفیہ نے تو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ عثمان کہتا ہے کہ چچا آپ فکر نہ کریں وہ وقت بھی آئے گا جب ہم اسے اسی قلعے کی دیوار میں دفن کر دیں گے۔ آخری ایپیسوڈ صوفیہ کے اسی قتل پر ختم ہوتا ہے ۔ صوفیہ کے قتل کے بعد جب عثمان اور اس کے فوجی فارغ ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں دیکھ کر دہشت زدہ عیسائی عورتوں اور بچوں کا ہجوم ایک کونے میں دبک کر اس انتظار میں بیٹھ جاتا ہے کہ اب ان کے قتل کی باری ہے۔ عثمان ننگی تلوار کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ایک عورت کی گود سے اس کا بچہ چھین کر اپنی گود میں لے لیتا ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ شاید اب اس کے بچے کو قتل کر دیا جائے گا لیکن عثمان اس بچے کا بوسہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اب ہمارا بچہ ہے ۔اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ لوگو سنو آج تک آپ نے ظالموں پر ہمارا قہر دیکھا ہے اب آپ مظلوموں کے ساتھ ہمارا رحم اور انصاف بھی دیکھیں گے۔ عیسائی بچے اور عورتیں جن کی آنکھوں میں دہشت ہوتی ہے ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں اور پھر اس کے بعد تمام فوجی ایک ایک کرکے اس بچے کو گود میں لیکر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے جشن منانا شروع کردیتے ہیں۔
تقریبا یہی بات مورخین نے صوفیہ چرچ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ جب ترک دشمن قسطنطین کے ستون پر داخل ہوں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترے گا اور ان سب کو قتل کردے گا۔ مگر جب سلطان اپنے فوجیوں کے ساتھ اس ستون سے ہوتے ہوئے اس ہال میں داخل ہوا جہاں عیسائی عوام نے پناہ لے رکھا تھا تو وہ حیران رہ گئے، سلطان نے یہاں عیسائیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سب کو معاف کردیا آپ لوگ پرامن ہوکر اس عمارت کو خالی کردیں ۔آیا صوفیہ میں موجود عیسائی جو اپنی موت اپنے سامنے دیکھ رہے تھے سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، گویا انہیں ترک فوجوں سے اس رحم کی امید نہ تھی۔ جبکہ اسی مقام پر اگر بازنطینی اور منگول ہوتے تو ترک عورتوں کو بندی بنا کر اپنے خیموں میں لے جاتے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ اسلامی تعلیمات سے لبریز ترکوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں کے لوگوں اور شکست خوردہ حکمرانوں کو جنگ کے تہذیب و اقدار اور آداب سکھائے۔
اتفاق سے آج آیا صوفیہ چرچ سے میوزیم اور پھر مسجد میں تبدیل کئے جانے کے بعد ترک عدالت پر وہ لوگ بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کی نو مسلم خاتون جرنلسٹ یون ریڈلی نے معقول جواب دیا ہے کہ پہلے ان لوگوں کو اپنی تاریخ درست کرنے اور مہذب ہونے کی ضرورت ہے جن کے اپنے یہاں سیکڑوں مسجدیں چرچ میں تبدیل کردی گئیں یا سیکڑوں چرچ برائے فروخت ہیں اور چرچوں میں پادری نوخیز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کی خلش ایک میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے سے نہیں ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک طاقتور ترکی کو اسلام کی طرف لوٹنے سے روکنا چاہتے ہیں اور وہ مخالف طاقتیں جن کی یادداشت میں خلافت عثمانیہ کی عظمت ڈراؤنے خواب کی طرح پیوست ہے وہ یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ترک ایک بار پھر اپنے ماضی کی اسلامی روایات کے اسیر ہوں۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت کے بعد بھی سامنے آئی اور اس ڈرامے کو اکیسویں صدی کا ایٹم بم بھی کہا گیا۔ جبکہ خود ترکی کے سیکولر طبقے میں بھی اس فیصلے کے خلاف عوام میں کوئی بے چینی اور احتجاج کا ماحول دیکھنے میں نہیں آیا۔ بدقسمتی سے سیکولر نسوانیت جمہوریت اور غامدیت زدہ معاشرے کے پروردہ ہم جیسے مسلم قلمکارجن سے ایک بیوی خاندان اور تنظیم نہیں سنبھل پارہی ہے دو دو تین تین اور چار چار بیویوں والے سلطان جو تین براعظموں پر حکمراں تھے ان کو انصاف اور حکومت کا سلیقہ سکھا رہے ہیں !

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...