Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

میں سچ کہوں تو برا لگے جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں

by | Jul 24, 2020

احمد نہال عابدی

احمد نہال عابدی

تحریر :احمد نہال عابدی
مودی حکومت کے تانے بانے اور اسکی کارگزاری پر نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ آئین ہند کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ دستور ہند کی جگہ عصبیت اور ظلم و زیادتی پر مبنی راون راج کا نفاذ عملی طور پر بھی کیا جا رہاہے ۔ جنگ آزادی کے بعد بھیم راؤ امبیڈکر کا جمہوری آئین جو دنیا کا سب سے طویل آئین ہے اب ہندوستان میں بے بسی کا شکار ہے ،جو صرف ایک کتاب کی شکل میں آر ایس ایس کی الماریوں میں بند ہے ۔  بابا راؤ امبیڈکر کے ہاتھوں تکمیل شدہ قانون ناتھو رام گوٹسے گروپ کو اس لئے ہضم نہیں ہوتا ہے کہ ایک شدر اور نچلی ذات کے فرد نے اسے تیار کیا ہے ۔
ملک کی موجودہ صورت حال اس بات کی گواہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آر ایس ایس کی رام راج کی کوششیںاب کامیاب ہوتی دکھ رہی ہیں ،جو بھارت کے آئینی اعتبار سے خلاف قانون بھی ہے۔ افسوس کا مقام ہے محافظ قانون ہی اگر قانون شکنی کے مرتکب ہوں پھر ان سے باز پرس کرنے والا کون ہے ؟
لے دے کہ ایک سپرم کورٹ پر ہی نظر جا کر ٹھہرتی ہے ، جہاں سے انصاف ملنے کی امیدیں بھی مدھم پڑتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اگر بالفرض رام راج کے نفاذ کی آرایس ایس کی سیاسی کوششیں جو صرف ہندو طبقے کے ووٹ بینک کی حیثیت رکھتی ہیں پر عمل درآمد ہوتا ہے وہ بھی ہندو عقیدے کے مطابق حکومت کی موجودہ ظلم و بربریت اور عصبیت قانون رام کی فکر کے خلاف ہے ۔ کیوںکہ رام راج کا قانون گیتا یا رامائین پر مبنی ہے ۔ ہندو مذہبُ کی کتابوں میں بھی اخلاقی رواداری اور انسانیت دوستی کا درس موجود ہے ۔ گویا اس لحاظ سے موجودہ حکومت کی کار کردگی ہندو عقیدے کے خلاف ہے ۔ آخر یہ کون سے رام راج کی باتیں کرتے ہیں جو ہندو عقیدے اور فکر کو بھی شرمسار کر رہے ہیں ۔ رام راج کی آڑ میں غنڈہ راج کا جنون ملک میں عام ہونے سے انسانیت کا سر حیوانیت کے طلاطم میں ڈوب چکا ہے ۔ ہٹلر سے مطابقت اور یہودی فکر کے حامل مودی حکومت کے ظلم و بربریت کے خلاف تحریری یا تقریری آوازوں کا نہ صرف گلا گھوٹا جا رہاہے بلکہ حق و انصاف کے مطالبے کی پاداش میں ان قابل احترام اور ملک کے دانشوروں کو کال کوٹھریوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں لگ بھگ کل  55 صحافیوں کی ناحق گر فتاریاں لاک ڈاؤن کے دوران ہوئیں جن میں سب سے زیادہ اتر پردیش میں 8 گرفتاریاں عمل میں آئیں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومت کی مصداق ہے ۔ ملک میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں غنڈہ راج عروج پر ہے خاص کر ظلم و زیادتی کی خوگر یوگی سرکار مودی حکومت کی نظروں میں آنکھوں کا تارہ ہے ۔ ممتاز خاتون صحافی گوری لنکیش کے قتل سے لیکر وکاس دوبے کے قتل تک کا معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک بھارت  میں جنگل راج عروج پر ہے ۔ یو پی سرکار پاگل پن اور جنونیت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے من مانی کا کھلم کھلا مظاہرہ کوئی دھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ مجرموں کا مجرم وکاس دوبے کا معاملہ بھی ڈرامائی انداز میں ختم ہوا جسکا پالن پوسن خود بی جے پی والوں نے کیا تھا ،کام نکل جانے کے بعد سیاست دانوں نے فرضی انکاؤنٹرکراکر اس کا قصہ ہی تمام کر دیا ۔ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری ،اس طرح وکاس دوبے کی چتا کے ساتھ دوبے کو دی جانے والی سیاسی پشت پناہی کے تمام راز جل کر راکھ ہو گئے ۔ بی جے پی کی طرز حکومت سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ بی جے پی سے سوال کرنے کی ہمت شاید کسی میں بھی نہیں ہے ۔ اگر کسی نے کچھ ہمت دکھائی بھی تو کسی بہانے اس سے نمٹنے کا ہنر مودی حکومت کے پاس موجود ہے ۔
حکومت کا خوف اگر ملک کی نامور اور عزت دار ہستیوں کو ستانےلگے اور اپنی زبانوں کو مصلحتا خاموش رکھنا پڑے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ، اسی ڈر اور خوف کے ماحول میں ہمارا بالی اوڈ بھی مودی کی اوٹ پٹانگ سندیش پر تالیاں بجاتا ہے ۔مودی حکومت کی ظلم و زیادتیوں کے باوجود فلم انڈسٹری کا واہ واہی کرنا گویا حکومت کا اسیر ہو نا ہے ۔تف ہے ایسے نام نہاد ” ٹائگر “اور “بگ بی ” کی غلامانہ ذہنیت پر جو حق کو حق اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ سلام ہے ان فلمی کلا کاروں کو جنہوں نے شروع سے اب تک مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف صف آرا ہوکر مظلوموں کے ساتھ شروع تا آخیر کھڑےنظر آئے  اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا حصہ بنے جن میں جاوید جعفری ، نفیسہ علی سودھی ، پرکاش راج ، شوشانت سنگھہ ،فرحان اختر اور جاوید اختر کے نام قابل ذکر ہیں ۔ مذکورہ تمام  بالی اوڈ کے جانبازوں کو چھوڑ کر باقی تمام کاغذی اور بناوٹی ہیرو بھگت صحافیوں کی طرح بھگت فلمی اسٹار ثابت ہوئے ۔ فلمستان کے بھگتی رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فلم انذسٹری پر بھی مودی حکومت کا کنٹرول ہے ۔
قابل افسوس ناک بات ہے ملک کے نامور صحافیوں میں بھی مودی دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے اسلئے سوال پوچھنے والوں کو پولس کی دہشتوں سے جواب ملنے کا خوف لاحق ہے ۔ ہندوستان میں ایسا پہلی بار دیکھا جارہا ہے کہ قابل اعتماد اور معتبر صحافیوں کو بھی حکومت کا خوف لا حق ہے ۔ پورے ہندوستان میں قبرستان جیسا سناٹا ہے ۔ ملک کی دوسری سیاسی پارٹیاں اور خاص کر کانگریس کی آواز اتنی کمزور اور نحیف ہو چکی ہے جسکی آوازیں خود ان کے گلوں میں ہی گھٹ کر رہ گئی ہیں۔ حکومت کی من مانہ رویوں اور ہٹ دھرمیوں سے یہ عیاں ہے کہ بر سر اقتدار حکومت کو اب کسی کی پرواہ نہیں ،کیوںکہ ای وی ایم مشینوں کا ساتھ ان کے لئے سب سے بڑی طاقت اور بھروسہ مند ذریعہ تو ہے ہی مگر سب سے بڑ ھ کر اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ موجودہ حالات اور ماحول کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں انتخابات کے دروازے ممکن ہے کہ اب ہمیشہ کے لئے بند کر دئے جائیں ۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...