کورونا اور اُردو کے ادباء وشعراء کی فعالیت

adib
عالمی وبا کورونا کے مضر اثرات کا جغرافیائی دائرہ لمحہ بہ لمحہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا ر ہاہے اور اس مہلک بیماری کے متاثرین کے اعداد وشمار میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے ۔ چوں کہ اعداد وشمار میں لمحہ لمحہ تبدیلی واقع ہو رہی ہے، اسلئے کوئی حتمی تعداد دم تحریر لکھنا مشکل ہے لیکن عالمی سطح پر اب تک ساڑھے ۶؍ کروڑ سے زائد افراد اس کی زد میں آچکے ہیں اور ۲۵؍ لاکھ سے زائد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔اس مہلک وبا نے تمام شعبۂ حیات کومتاثر کیا ہے اور انسانی معاشرہ بے بس نظر آرہا ہےکیوں کہ اب تک اس لا علاج بیماری کی کوئی دوا تجویز نہیں ہو پائی ہے ۔ہاںمختلف عالمی طبی ادارے ویکسین کی تیاری کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ویکسین کے تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ویکسین اس مہلک مرض کیلئے مفید ہوگی یا نہیں۔ماضی میں بھی جب کبھی اس طرح کی وبا پھیلی ہے تو اس پر قابو پانے میں برسوں لگے ہیں مگر انسان کی یہ فطری خوبی ہے کہ وہ ہر مشکل حالات کا سامنا کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وقتی طورپر انسانی زندگی تعطل کا شکار ہوتی ہے مگر پھر وہ اپنی زندگی کو پٹری پر لانے کی ترکیب نکالنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور کامیاب بھی ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے ۔اسلئے خدائے سخن میر تقی میرؔنے تودو سو سال پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ   ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اور حکیم الامت علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ    ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل  نہ   بن جائے
علامہ نے اتنے پہ ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عظمتِ آدم کو یوں بیان کیا کہ   ؎
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ  آفریدم
بیابان وکہسار وراغ  آفریدی
خیابان و گلزار  باغ  آفریدم
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان نے آفاتِ الٰہی ہو یا آفاتِ زمانہ، کا ہمیشہ مقابلہ کیا ہے اور اپنے لئے راہِ نجات بھی نکالی ہے ۔ اس عالمی وبا کے ہولناک دور میں بھی انسان اپنی ذہانت وصلاحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے جینے کی راہ نکالنے میں مصروف ہے۔ چونکہ آج کا عہد سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے انقلابات کا عہد ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو جامِ جم میں تبدیل کردیا ہے ۔انسان اپنی ایک انگلی کے اشارے پر مطلوبہ معلومات حاصل کرنے پر قادر ہو گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس عالمی وبا کی دوا تلاش کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوپا رہاہے لیکن اس کی جد وجہد جاری ہے اور وہ دن دور نہیں کہ انسانی معاشرہ دیگر وبائی امراض کی طرح اس سے بھی نجات حاصل کرلے گا۔
مختصر یہ کہ اس وبائی دور میں جہاں دیگر شعبۂ حیات کے افراد اپنی اپنی فطری صلاحیتوں اور ذہانتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں اردو کے ادباء اور شعراء بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ الطاف حسین حالیؔ نے ہمیںبہت پہلے ہی یہ نسخہ دے دیا تھا کہ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘‘ ۔اسلئے اردو کے ادباء اور شعراء جدید ترین ذرائع ابلاغ کی سہولتو ں کے سہارے نہ صرف اپنی تخلیقات کو اوروں تک پہنچا رہے ہیں بلکہ اس دورِ تعطل میں ان کی فعالیت قابلِ رشک ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ انفرادی طورپر بھی اردو کے ادباء اور شعراء اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعہ اردو معاشرے کو پژمردگی کے ماحول سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نفسیاتی طورپر بھی خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چونکہ اس وقت سوشل میڈیا کی غیر معمولی اہمیت ہو گئی ہے کہ وہاٹس ایپ ، فیس بک، انسٹا گرام ، ٹویٹر اور یو ٹیوب وغیرہ کے ذریعہ اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی کی جا سکتی ہے، اسلئے اردو کے ادباء اور شعراء  ان  جدید ترین ٹکنالوجی کے ذریعہ اپنی علمی وادبی فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اس  لاک ڈائون میں تعلیمی اور ادبی موضوعات پر آن لائن مذاکرے اور سمینار کا سلسلہ شروع کیا ہے اورقومی سطح پر اس کو فروغ دینے کی وکالت کر رہا ہے تو دیگر نجی ادارے بھی سمینار ، مذاکرے ، مشاعرے ، انٹرویوز وغیرہ فیس بک لائیو کے ذریعہ ادبی وعلمی سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں ۔البتہ اب سمینار کی جگہ’ ویبنار‘ کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ہے اور روبرو پروگرام کی جگہ’ لائیو ‘پروگرام کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔’تحریک بقائے اردو‘کشمیر کے ذریعہ یومیہ ادباء اور شعراء کا انٹرویو پیش کیا جا رہاہے تو ورلڈ اردو اسوسی ایشن ، دہلی کا یو ٹیوب چینل یومیہ خاص پروگرام پیش کر رہاہے۔دیگر تنظیموں کے ذریعہ بھی اسی طرح کے پروگرام دن بھر چلتے رہتے ہیں لیکن ورلڈ اردو اسوسی ایشن کا یہ خصوصی ادبی وعلمی پروگرام بہ ایں معنی غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے کہ اس پروگرام کے ذریعہ برِصغیر سے باہر کے اردوادباء اور شعراء سے نہ صرف ہمیں متعارف کرایا جا رہاہے بلکہ اس کے توسط سے مختلف مغربی ممالک میں اردو کی سمت ورفتاراور وہاں کی تہذیب وتمدن سے بھی واقفیت ہورہی ہے۔
واضح ہو کہ یہ خصوصی پروگرام اردو کے ایک نامور ادیب وناقد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، شعبۂ ارد و جواہر لال نہر و یونیورسٹی کے ذریعہ انجام پا رہا ہے۔ اسلئے اس پروگرام کی غیر معمولی ادبی اہمیت ہوگئی ہے کیوں کہ خواجہ اکرام الدین اردو کے ایسے پہلے ادیب ہیں جنہوں نے ایک دہائی پہلے ہی سوشل میڈیا اور ڈیجٹل آن لائن تعلیم کی اہمیت کو نہ صرف سمجھا تھا بلکہ ایک کتاب لکھ کر اردوآبادی کو ہوشیار بھی کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں اردو کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی جدید ترین سوشل میڈیا کے سہارے دیگر زبانوں کے ادباء اور شعراء کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اسلئے اس وبائی عرصے میں انہوں نے اب تک د و درجن سے زائد غیر ملکی ادباء اور شعراء سے ہندوستانی اردو معاشرے کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو کے قارئین ان ناموں سے پہلے واقف نہیں تھے لیکن سچائی یہ ہے کہ اردو کے بیشتر اساتذہ اور طلبہ ان غیر ملکی ادباء وشعراء کے نام سے تو واقف تھے مگر ان کے علمی کارناموں سے نہیں لیکن اس خصوصی پروگرام نے ان کے علمی وادبی کاموں سے متعارف کرانے کا علمی فریضہ انجام دیاہے ۔
مجھے تو حیرت ہے کہ مغربی دنیا میں نہ صرف اردو شاعری پروان چڑھ رہی ہے بلکہ تحقیق وتنقید کی نئی دنیا بھی آباد ہو رہی ہے۔ چونکہ یہاں تفصیلات ممکن نہیں اسلئے ان غیر ملکی عاشقِ اردو کے ناموں پر اکتفا کرتا ہوں کہ لڈ میلا واسلوا(روس)، ڈاکٹر تاش مرزا(تاشقند ازبکستان)،ایلدوست ابراہیموف (آذر بائیجان)، پروفیسر جاوید خولوف(تاجکستان)، طارق محمود  مرزا (آسٹریلیا)، پروفیسر تاتیانا ایوتیمو وا اور لیلیا دینیوا (بلغاریہ)، عنایت حسین عیدن(ماریشش)، ایو ب اولیا (لندن)، ڈاکٹر جاوید شیخ (لندن)، محمد احمد القاضی(مصر)، سرور غزالی (جرمنی)، ڈاکٹر عارف کسانہ (سویڈن)، ناصر ناکا گاوا(جاپان)،ڈاکٹر علی بیات(ایران) اور جاوید دانش (کناڈا)وغیرہم نے اردومراکز سے دور رہ کر اردوکے شعری، افسانوی، تنقیدی، تحقیقی اور صحافتی ادب کو جس قدر زرخیزی عطا کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے مگرافسوس کہ ہم اب تک ان کی علمی وادبی خدمات سے کما حقہٗ واقف نہیں تھے۔ قابلِ مبارکباد ہیں ورلڈ اردو اسوسی ایشن کے منجملہ اراکین اورخصوصی طورپر پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین کہ انہوںنے مغربی دنیا میں اردو کے علمبرداروں سے نہ صرف ہم سبھوں کو متعارف کرایا ہے بلکہ ان کی خدمات سے بھی روشنا س کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ بالخصوص بلغاریہ ، آذر بائیجان اور آسٹریلیا میں اردو کی تعلیم کا فروغ باعثِ طمانیت ہے کہ وہاںکی حکومت بھی اردو کے تئیں نرم گوشہ رکھتی ہے۔روس اور ماریشش میں تو پہلے سے ہی اردو کے لئے فضا خوشگوار رہی ہے، اب اس میں مزید توانائی پیدا ہورہی ہے ۔جاپان اورچین میں بھی اردو کی خوشبو پھیل رہی ہے ۔ لندن کو تو پہلے سے بھی ہندو پاک کے مہاجر ادباء اور شعراء کی وجہ سے مرکز یت حاصل ہے مگر نئے علاقے میں اردو کا فروغ، اردوکوعالمی لسانی تاریخ میں امتیازی حیثیت دلانے میں معاون ثابت ہو رہاہے۔ورلڈ اسوسی ایشن کایہ خصوصی یو ٹیوب چینل پروگرام مستقبل میں بھی اردو زبان وادب کے ارتقائی جائزہ کے مطالعے میںمشعلِ راہ ثابت ہوگا۔یہاں ان یونیورسٹیوں کا بھی ذکر ضروری ہے جنہوں نے نہ صرف نصابی تقاضوں کو سامنے رکھ کر سوشل میڈیا کے ذریعہ ادبی اور علمی سرگرمیوں کو برقرار رکھا گیا ہے بلکہ دیگر معلوماتی مذاکرے اور ویبنار بھی منعقد کر رہی ہیں ۔ ان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی،متھلا یونیورسٹی،پٹنہ یونیورسٹی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی اور مدراس یونیورسٹی وغیرہم کے شعبۂ اردو کے اساتذہ اور طلبا وطالبات کی فعالیت بھی قابلِ تحسین ہے کہ اس عالمی وباء اور لاک ڈائون کے خوف وہراس اور مشکل حالات میں بھی اپنے علمی وادبی فرائض کو انجام دے رہے ہیں اور اردو آبادی کو اس اذیت ناک دور میں کئی طرح کی نفسیاتی الجھنوں سے نجات دلا رہے ہیں

(انقلاب)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *