ابنِ صفی -جو کہہ نہ پائے نجانے وہ چیز کیا ہوتی

عبد اللہ ذکریا
عبد اللہ ذکریا

عبد اللہ زکریا
ابنِ صفی میری معلومات کی حد تک وہ واحد ادیب ہیں جن کی یومِ پیدائش اور یومِ وفات ایک ہی ہے،یعنی ۲۶ جولائی ،اس طرح ہم کم سے کم دو برسیاں منانے سے بچ گئے۔ان کی زندگی کے ہر گوشے پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ مجھ جیسے کم علم کو خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن چونکہ ،بچپن میں اولین نقوش انہیں کی تحریروں سے ذہن پر ثبت  ہوئے ہیں ،اسلئے یہ جسارت کر رہا ہوں۔ہمارے بچپن میں ابنِ صفی کے لکھے ہوئے جاسوسی ناول پڑھنا ایک عیاشی اور ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا تھا ،یہ الگ بات ہےکہ جو بزرگ یہ نصیحتیں کرتے تھے ،ان کی تکیوں کے نیچے ہمیشہ یہ ناول موجود ہوتے تھے۔ویسے یہ ہر نسل کا المیہ رہا ہے اور ہر جنریشن ، آنے والی جنریشن کے چال چلن پر پہرہ دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی رہی ہے۔ناپسندیدگی کی وجہ مجھے آج تک نہیں سمجھ میں آئی ۔شاید ناول کے نام سے بھڑکتے رہے ہوں یا موصوف حمید سلمہ کی “ایکٹویٹیز “ گراں گزرتی رہی ہوں ،اسلئے ہمیشہ چھپ کر پڑھنا پڑتا تھا۔حالانکہ دیکھا جائے تو یہ سلسلہ شروع ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ ایک ایسا تفریحی اور صحت مند ادب تخلیق کیا جائے جس کی بنیاد سیکس پر نہ ہو۔ اس زمانے میں اردو میں ایسے چٹخارے دار ناولوں کا ایک سیلاب سا آگیا تھا جس کا مرکز جنس(sex)تھا)ابنِ صفی بنیادی طور ایک شاعر ہیں جنہیں مخصوص حالات کے تحت نثر نگاری کی طرف متوجہ ہونا پڑا لیکن انہوں نے اپنے اندر کے شاعر کو مرنے نہیں دیا اور نثر بھی شاعرانہ لکھی ۔ان کے ناول اپنے پلاٹ کے حساب سے تو قاری کو مسحور کئے رہتے ہی ہیں ،ان کی استادانہ نثر کا جادو بھی کبھی خالی نہیں جاتا ہے۔جملے طبع زاد،ذہانت سے بھرپور اور سب سے بڑھ کر موقع ومحل اور کیریکٹر کی مناسبت سے ۔وہ بہت کثیر المطالعہ تھے اور ان کے ناولوں میں دنیا جہان کا فلسفہ بھی ہے لیکن وہ کبھی بھی اپنی “علمناکی”سے تحریروں کو بوجھل نہیں ہونے دیتے ہیں۔میرے خیال سے اگر انہوں نے انگریزی میں لکھا ہوتا تو اگا تھا کرسٹی کی طرح پوری دنیا انہیں بھی جانتی ۔

ابن صفی
ابن صفی

شمس الرحمان فاروقی صاحب نے ضرور ان کے کچھ ناولوں کو انگریزی کا جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن بات کچھ بنی نہیں۔اصل مسئلہ یہ ہیکہ الفاظ کو تو دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن وہ ماحول ،وہ تہذیبی شناخت اور وہ تناظر کہاں سے recreate کیا جائے جو ان ناولوں کا محرک تھا۔انگریزی والے اگر اس سے relate نہیں کر پائے تو ان کی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ابنِ صفی کی عظمت پر کچھ حرف آتا ہے۔ابنِ صفی کی اپنی نظروں میں ان کا محبوب کیریکٹر احمد کمال فریدی ہے لیکن اگر عام قارئین سے پوچھا جا ئے تو ان کی پسند عمران پر ٹھہرے گی ۔وہ اپنی گوناگوں حماقتوں اور موقع سے فائدہ اٹھا نے کی صلاحیت کے سبب عام انسانوں سے زیادہ قریب ہے جبکہ فریدی ایک سنگلاخ اور عام انسانی جذبات سے عاری شخص ہے ۔ابنِ صفی کو احساس تھا کہ انہوں نے ایک سپر ہیومن تو تخلیق کردیا لیکن قارئین کو اسے “جھیلنا”مشکل ہوگا سو انہوں نے حمید اور قاسم کی شکل میں دو بیساکھیاں لگا دیں۔سنگ ہی اور تھریسیا، جو برائی کی علامت ہیں،ان کے لازوال کیریکٹر ہیں اور بار بار ان کے ناولوں میں آتے ہیں ۔اپنی تمام تر خباثتوں اور برائیوں کے باوجود وہ ایک قاری ذہن سے ہمیشہ چمٹے رہتے ہیں۔ابنِ صفی کے ناولوں پر بہت سے لوگوں نے ہاتھ صاف کیا ہے اور فریدی ،حمید اور عمران کے ذریعہ گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہو پایا ہے ۔آخری عمر میں تخلیق کیا ہوا ان کا کردار جیمسن مجھے بہت پسند ہے اور اسکے ذریعہ جو تنقید وہ اردو ادب اور کلاسیک پر کرتے ہیں ،اسمیں میرے لئے ایک خاص کشش ہے۔ابنِ صفی نے بہت کم عمر پائی اور صرف باون سالوں میں وہ اس جہاں سے رخصت ہو گئے لیکن وہ ایک قابلِ فخر سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں۔دو سو پچاس سے اوپر ناول ،طغرل فرحان کے نام سے لکھے گئے فکاہئے،اور دیگر مضامین ہر نسل کو متاثر کرتے رہیں گے۔اپنے تخلیقی سفر میں انہوں نے دو سال ایسے بھی دیکھے ہیں جب وہ باوجود تمام کوشش کے کچھ نہیں لکھ پائے۔ایک ناقابلِ فہم بیماری نے انہیں آ گھیرا تھا۔دعا اور دوا دونوں ہی ان کے سوکھ گئے تخلیقی سوتے کو زندہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چلے تھے کہ حکیم محمد اقبال حسین صاحب نے مسیحائی کی اور عمران سیریز کے ناول “ڈیڑھ متوالے “سے ان کی شاندار واپسی ہوئی۔ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہر مہینہ انکا ایک ناول آتا تھا لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی ناول معیار سے گرا رہا ہو۔بسیارنویسی ایک ادیب کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ہے لیکن یہ کبھی بھی ان کے لئے ایک سقم نہیں بنا۔” آخری آدمی” کے نام سے آیا ناول ان کی زندگی کی آخری تخلیق ہے۔بسترِ مرگ پر لکھا گیا انکا یہ شعر کیسی کسک بیان کر رہا ہے
ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جاسوسی دنیا نے ہم سے ایک ایسے شاعر کو چھین لیا جو اردو شاعری کو اور با ثروت بنا سکتا تھا اور دنیا ابنِ صفی کے بجائے اسرار ناروی کو جانتی
گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تک
کیا کسی پردہ نشیں سے ملئے۔
زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو،توڑو،جی بہلاؤ
بالآخر تھک ہار کے یارو ،ہم نے بھی نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا،باقی سب افسانے ہیں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں ،غضب کی کہانیاں
لکھی نہ جا سکی مگر اپنی ہی داستاں
ابنِ صفی کو احساس تھا کہ ابھی بہت کچھ کہنا اور لکھنا ہے لیکن افسوس زندگی نے اتنی مہلت دی
جو لکھ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو لکھ نہ پائے نجانے وہ چیز کیا ہوتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *