
ہندوستان میں کمیونیٹی میڈیا کے مسائل کا حل آسان ہے لیکن……..
دانش ریاض،معیشت ،ممبئی
آج ہی ایک این جی او کے سربراہ نے فون کرکے گذارش کی کہ کوئی ایسا انگریزی صحافی بتائیں جو ہماری خبریں بنائے اور اسے پوٹینشیل ڈونرس تک پہنچا سکے ۔چونکہ اردو میڈیا میں ان کی خبریں بآسانی شائع ہوجاتی ہیں لہذا اب انہیں انگریزی صحافی درکار ہےجو ان کی مراد بر لاسکے۔کئی برس قبل کی بات ہے جب میں مہاراشٹر کے ایک کابینی وزیر کا انٹرویو کررہا تھا تو انہوں نے انٹرویو کے بعد کہا کہ ’’دانش جی ! اگر یہ ’’انگریجی‘‘میں بھی چھپ جائے تو بڑا ’’مجا‘‘آئے گا۔چونکہ میں اسے انگریزی میں شائع نہیں کرواسکا لہذا رشتوں میں بھی وہ شدت نہیں رہی جسے میں ہمیشہ محسوس کیا کرتا تھا۔چونکہ عموماً ہندوستانی مسلمانوں کے مابین میڈیا کا مطلب ہی ’’انگریزی صحافت ‘‘ہے لہذا جب تک وہ انگریزی زبان سے سند توثیق حاصل نہیں کرلیتے اس وقت تک vernacular journalism کو لائق خاطر ہی نہیں سمجھتے ہیں۔
ممکن ہے کہ کمیونیٹی جرنلزم میںاپنی حیثیت منوانے میں لوگوں کو پریشانی اسی وجہ سے ہوئی ہو کہ انہوں نے انگریزی زبان میں اظہار کا خیال نہیں رکھا اور قومی سطح پر پیش آمدہ مسائل کے حل کو ہی فوقیت دی یا وہ ملت کے اس طبقہ کو قائل کرنے میں ناکام رہے جوزبان کے معاملے میں حساس ہے۔وجہ جو بھی رہی ہو لیکن جب اس کے حل کے لئے کچھ لوگ سامنے آئے تو انہیں بھی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی جس کی کہ توقع کی جارہی تھی۔
اس کی سب سے پہلی مثال تو ’’دی ملی گزٹ The Milli Gazette ‘‘ہی ہے جسے ظفر الاسلام خان صاحب نے جنوری 2000 میں دہلی سے شروع کیا تھا۔لیکن وسائل کی قلت اور مسائل کے انبار کی وجہ سے پرنٹ ایڈیشن بند کردیا گیا اور اب یہ فی الحال ڈیجیٹل فارمیٹ(https://www. milligazette.com) میں موجود ہے۔2006 میں مظفر پور بہار کے رہنے والے کاشف الہدیٰ جو شکاگو ،امریکہ میں مقیم ہیں ٹوسرکلس ڈاٹ نیٹ https://twocircles.net ‘‘کا آغاز کیا، 2011 میںراقم نے ٹوسرکلس ڈاٹ نیٹ کے کارپوریٹ پرموشن کے لئے ممبئی کے پانچ ستارہ ہوٹل تاج میں شاندار پروگرام بھی منعقدکیا تھالیکن امریکہ میں بیٹھے وہ لوگ جو ٹوسرکلس ڈاٹ نیٹ کو پہلے سے سپورٹ کررہے تھے یہ کہہ کر اپنا تعاون روک دینے کی کوشش کی کہ کاشف صاحب نے ملت کا سرمایہ لٹا دیا تھا۔ نتیجتاً ٹوسرکلس ڈاٹ نیٹ نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور ملی خبروں کے ساتھ دلتوںپر مظالم بھی بیان کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ پورٹل خود ہی مظلوم بن چکا ہے اور گاہے بگاہے ملت اسے وزٹ کرلیتی ہے۔
ممکن ہے کہ کمیونیٹی جرنلزم میںاپنی حیثیت منوانے میں لوگوں کو پریشانی اسی وجہ سے ہوئی ہو کہ انہوں نے انگریزی زبان میں اظہار کا خیال نہیں رکھا اور قومی سطح پر پیش آمدہ مسائل کے حل کو ہی فوقیت دی یا وہ ملت کے اس طبقہ کو قائل کرنے میں ناکام رہے جوزبان کے معاملے میں حساس ہے۔وجہ جو بھی رہی ہو لیکن جب اس کے حل کے لئے کچھ لوگ سامنے آئے تو انہیں بھی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی جس کی کہ توقع کی جارہی تھی۔
اس کی سب سے پہلی مثال تو ’’دی ملی گزٹ The Milli Gazette ‘‘ہی ہے جسے ظفر الاسلام خان صاحب نے جنوری 2000 میں دہلی سے شروع کیا تھا۔لیکن وسائل کی قلت اور مسائل کے انبار کی وجہ سے پرنٹ ایڈیشن بند کردیا گیا اور اب یہ فی الحال ڈیجیٹل فارمیٹ(https://www.

مہاراشٹر کے شہر مالیگائوں سے دسمبر 2006 میں علیم فیضی نے https://www.ummid.comکا اجراء کیا تھا ۔اپنی انتھک محنتوں کے ساتھ آج بھی یہ ادارہ خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔جس دور میں مسلم بچوں کی گرفتاریاں عروج پر تھیں اور کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں تھا اس وقت بھی https://www.ummid.comنے بہتر طور پر ملت کی نمائندگی کی تھی لیکن آج بھی یہ ادارہ مالی طور پر خود کفیل ہونے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ سے مشہور ہوئے افروز عالم ساحل نے https://beyondheadlines.inجاری کیا ہے جسے وہ اپنی اہلیہ افشاں خان کے اشتراک سے چلا رہے ہیں ۔افروز عالم ساحل نے investigative journalismپر اچھا کام کیا ہے اور یہی ان کی پہچان بھی ہے ۔ان کی اہلیہ بھی محنت کررہی ہیں اور ناظرین و قارئین کی بڑی تعداد کو اپنی جانب مائل کیا ہوا ہےلیکن مالی طور پر یہ لوگ کس قدر خود کفیل ہیں اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ٹوسرکل ڈاٹ نیٹ سے ہی صحافتی سفر کا آغاز کرنے والے شیخ ذکیر حسین نے https://thecognate.comشروع کررکھا ہے جس میں جنوبی ہند کے مسلمانوں کو بہتر کوریج دیا جاتا ہے۔2015میں دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل شمس تبریز قاسمی نے https://millattimes.com کا اردو میں آغاز کیا جو اب انگریزی زبان میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔حلقہ دیوبند میں یہ ادارہ انتہائی مقبول ہے جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ ادارے کو جمعیۃ علماء ہند محمود مدنی و ارشد مدنی دونوں گروپ کی حمایت حاصل ہے ۔اب اس میں کتنی صداقت ہے وہ تو متعلقین کو ہی معلوم ہے لیکن اپنی خدمات کے اعتبار سے انتہائی مختصر مدت میں ہی اس نے اپنی علحدہ شناخت قائم کر لی ہے۔جماعت اسلامی ہند کے مالی تعاون سے http://www.indiatomorrow.netاو
یہ وہ ادارے ہیں جو ملی ایشوز کو انگریزی زبان میں پیش کرنے کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ممکن ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ایسے ہوں جن کا یہاں تعارف پیش نہیں کیا جاسکا ہو لیکن میں نے جن اداروں کا انتخاب کیا ہے ان میں چند ایک کو چھوڑ کران لوگوں کو شامل کیا ہے جنہوں نے ملت کی ضرورت کو سمجھا اور تن تنہا اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے چل رہے ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جو انگریزی زبان میں اپنی خدمات پیش کرنے کے باوجود مالی طور پر انتہائی پریشانی میں مبتلاء رہا کرتے ہیں۔یقیناً میں یہ سمجھتا رہا ہوں کہ ہندوستان میں کمیونیٹی میڈیا کے مسائل کا حل آسان ہے لیکن اس کے لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جو جسے بہتر سمجھ رہا ہو وہ کم از کم اس کی مدد کرے۔آپ جس حلقے سے وابستہ ہوں اگر اس حلقے کے لوگوں نے میڈیا میں اپنی خدمات پیش کی ہیں تو یہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ مالی تعاون،اشتہارات،یا جس بھی طرح ممکن ہو ان کا تعاون کریں تاکہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔