آخر خلائی مشن کی ہوڑ کیوں لگی ہوئی ہے؟

خلا

دانش ریاض
دانش ریاض

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

واشنگٹن،نئی د ہلی ،ابوظہبی اور پھر بیجنگ میں بیٹھے سائنسدانوں کو ان دنوں زمین سے زیادہ آسمان کی فکر دامن گیر ہے۔22جولائی 2019کو ہندوستان نے چندریان 2کو چاند کے سفر پرکامیابی کے ساتھ روانہ کیا تھا۔15 کروڑ ڈالر کےاخراجات والا یہ ایساپہلا مشن تھا جو آج بھی اپنا کام کررہا ہے۔متحدہ عرب امارات نے مریخ پر جانے والا خلائی مشن ’ہوپ ‘‘یا ’’الامل‘‘14جولائی کو روانہ کیا ہے جوآئندہ سات ماہ کے دوران 49 کروڑ 35 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کرکے فروری 2021 میں اس وقت مریخ کے مدار میں داخل ہونے کی امید ہے جب عرب امارت میں شامل سات ریاستوں کے اتحاد کی 50 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہو گی۔اسی طرح چین نے مریخ کی تسخیر کے لیے اپنا پہلا خودمختار خلائی مشن تیان وین۔1(Tianwen-1)23جولائی کی صبح روانہ کیا ہے جو سات ماہ میں ساڑھے پانچ کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے فروری 2021 تک مریخ کے مدار میں پہنچنے کی امید ہے۔چین کے ایرو سپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن (سی اے ایس سی) کے مطابق رواں سال 40 سے زائد خلائی مشن لانچ کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔امریکی مشن 30 جولائی کو لانچ ہونےکی امید ہے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کے تین، یورپ کے دو اور بھارت کی ایک خلائی گاڑی مریخ کے مدار میں سیارے سے متعلق معلومات کے لیے کوشاں ہے۔
آخر اچانک خلائی دوڑ کی یہ ہوڑ کیوں لگی ہوئی ہے؟ اس وقت جبکہ پوری دنیا کرونا کی وبا میں مبتلاء ہے اور معاشی مندی نے ملکوں کی حالت خستہ کردی ہے خلائی مشن پر بے انتہاء اخراجات کیوں کئے جارہے ہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سوالات ان لوگوں کو ضرور پریشان کئے ہوئے ہیں جو صیہونی مقتدرہ کی پیش بندی سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔یا جو لوگ ’’دی ایکنامسٹ ‘‘کی اس رپورٹ پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں کہ اب دنیا کو کنٹرول کرلیا گیا ہے ۔یقیناًاس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرق و مغرب کے مابین جس تیسری عالمی جنگ کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کرونا وبا نے کہیں نہ کہیں اس پر لگام ضرور لگا یا ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کیا وہ جنگ اب خلاء میں لڑی جائے گی؟
میں نےآج (24جولائی ) دوپہر 12:30بجے اپنی تحریر کا آغاز کیا تھا اور 5:25بجے بی بی سی نے اس کی تصدیق کردی جو میں کہنے کی کوشش کررہا ہوں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق’’ امریکہ اور برطانیہ نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے خلا میں ایک سٹلائیٹ شکن ہتھیار کا تجربہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ روس کا یہ ہتھیار زمین کے مدار میں موجود سٹلائیٹس کو نشانہ بنا سکتا ہے۔امریکی وزارت خارجہ نے روس کی جانب سے زمین کے مدار میں سٹلائیٹ شکن جیسے ہتھیارکے استعمال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔تاہم روس کی وزارت دفاع نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ اپنے خلائی سامان کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ نے اس سے قبل بھی روس کی جانب سے نئی خلائی ٹیکنالوجی کے استعمال پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ برطانیہ نے بھی روس پر خلا میں ہتھیاروں کے تجربے کا الزام عائد کیا ہے اور یہ بیان برطانوی حکومت کی جانب سے روس سے ممکنہ خطرات کو مناسب طور پر نہ بھانپنے کی انکوائری رپورٹ کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔روس، برطانیہ، امریکہ اور چین کا شمار دنیا کے ان سو ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے خلا میں تحقیق اور دریافت کو صرف پرامن مقاصد کے استعمال کی بین الاقوامی خلائی معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔خلا کے استعمال کے اس بین الاقوامی معاہدہ کے تحت کوئی بھی ہتھیار زمین کے مدار یا خلا میں رکھا یا بھیجا نہیں جا سکتا‘‘۔
جو لوگ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اورخلاء میں پائی جانے والی ایسی چیزوں کے بارے میںجسے Unidentified flying objects (UFOs) سے موسوم کیا جاتا ہے جانتے ہیں انہیں یہ علم ہے کہ خلا ء میں ایسی کشمکش چل رہی ہے جو دنیا والوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔کیا یہتحقیق طلب نہیں ہے کہ چاند پر ایک چھوٹا ٹکڑا خریدنے والے سشانت سنگھ راجپوت جن کے پاس خلاء میں دیکھنے کے لئے Meade 14″ LX600 ٹیلی اسکوپ بھی تھاآخر کیوں خودکشی کرلیتےہیں ؟کیا وہ اتنے مایوس ہوگئے کہ انہوں نے زمین سے رشتہ ہی توڑ لیا یا پھر انہیں کچھ ایسی باتیں معلوم ہوگئیں کہ زمین سے ان کا رشتہ توڑ کر خلاء میں بھیج دیا گیا؟یقیناً شاہ رخ خان نے بھی چاند پر ٹکڑا خریدا ہے لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ہی وہ ’’کنگ خان‘‘کے لقب سے محروم کردئے گئے ہیں۔
خلاء میں جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے اس کے اثرات زمین پر بھی پڑنے والے ہیں یا یہ کہا جائے کہ زمین پر جو کچھ کیا جارہا ہے خلاء کو اسی مناسبت سے تیار کیا جارہا ہے۔قرآن میں شہاب ثاقب کا ذکر ان سے آسمانوں کی حفاظت کا کام لینے کے طور پر آیا ہے ۔ سورۃ الجن میں جنوں کا بیان ہے:”اور یہ کہ : ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ (الجن ، آیت 9)صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم آسمان میں جاری فرماتے ہیں تو سب فرشتے بغرض اطاعت اپنے پر مارتے ہیں اور جب کلام ختم ہوجاتا ہے تو باہم تذکرہ کرتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ اس تذکرہ کو آسمانی خبریں چرانے والے شیاطین سن لیتے ہیں اور کاہنوں کے پاس اس میں بہت سے جھوٹ شامل کر کے پہنچاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے شیاطین کا آسمانی خبریں سن کر کاہنوں تک پہنچانے کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا۔ شیاطین فرشتوں سے سن لیا کرتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت آپ کی آسمانی وحی کی حفاظت کے لئے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان یہ خبریں سننے کے لئے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ صیہونی مقتدرہ نے شیاطین کے ساتھ جس طرح کی سانٹھ گانٹھ کی ہے اب اس کا عملی مظاہرہ ہوا چاہتا ہے۔پوری دنیا جس رخ پر ڈال دی گئی ہے اور بتدریج جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ آئندہ پیش آنے والے ان بڑے حادثات کا پیش خیمہ ہیں جو اہل عقل کو مخصوص پیغام دے رہے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ کاش اس بات کو امت مسلمہ سمجھ پاتی۔

دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے ڈائریکٹر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *