قرضوں کی تباہکاریاں

WhatsApp Image 2020-07-27 at 5.03.11 PM
قمر فلاحی
قرض کسی کو کچھ ادھار دینے کو کہتے ہیں اس کی ضد غرم آتی ہے جس کے معنی کسی سے کوئی چیز ادھار لینا۔قرض ایک ایسی بلا ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پناہ مانگا کرتے تھے۔
عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو في الصلاة، “اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات. اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم. فقال قائل: ما أكثر ما تستعيذ من المغرم؟ فقال: إن الرجل إذا غرم حدث فكذب ووعد فأخلف۔. (رواہ البخاري في كتاب الصلاة – باب الدعاء قبل السلام)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا مانگا کرتے تھے (یعنی حالت نماز میں )اے اللہ میں تجھ سے عذاب قبر،فتنہ مسیح دجال،فتنہ محیا وممات،اور گناہ اور قرض سے پناہ مانگتاہوں۔ کسی سائل نے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مقروض ہونے سے کیوں پناہ مانگتے ہیں ؟اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان مقروض ہوجاتا ہے اس وقت جب وہ بات کرتاہے تو جھوٹ بولتاہے اور جب وعدہ کرتاہے تو وعدہ خلافی کرتاہے ۔
مگر اس کے باوجود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجبور ہوئے تو قرضے بھی لئے ہیں اسے احسن طریقہ سے لوٹایا بھی ہے۔مدینہ میں خصوصا یہود کا کاروبار سودی تھا جس میں اس نے اہل مدینہ کو جکڑ رکھا تھا،اور یہ اس راستے استحصال بھی کیا کرتے تھے۔آج کل قرض لینا فیشن ہوگیا ہے ، بلا وجہ قرضے لئے جارہے ہیں ،اسٹیٹس کی بحالی کیلئے قرضے لئے جارہے ہیں اور تو اور شوق پورا کرنے کیلئے قرضے لئے جارہے ہیں اسی وجہ سے سماج کراہ رہا ہے ،اکثریت جھوٹ کا عادی اور وعدہ خلاف ہوگئی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گزرا۔بظاہر انسان اچھی خاصی تنخواہ پارہا ہوتا ہے ،یا بڑی تجارت کا مالک ہوتا ہے مگر اس کی اصلیت یہ ہے کہ وہ قرض میں لت پت ہے ،دجالی دور میں ایک اصطلاح رائج ہے ای ایم آئی ۔ یعنی آپ دس لاکھ کا سامان ایک لاکھ دیکر خرید سکتے ہیں اور اس کے مالک بھی ہوسکتے ہیں بدلے میں آپ کو گیارہ لاکھ چکانی ہوگی مگر قسطوں میں جسے ماہانا بانٹ دیا جائے گا بیس ہزار یا پچیس ہزار ماہانہ واپس کرتے رہنا ہوگا جب تک کہ گیارہ لاکھ ادا نہ کردیا جائے ۔آئیے اسی مثال سے اس فتنہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اب آپ نے پچیس ہزار گاڑی کا ای ایم آئی دیا،پھر آپ نے اگر کسی مکان کیلئے لون لیا ہے تو اس کے بدلے بھی بیس پچیس ہزار ای ایم آئی دیا،اب موبائل لیپ ٹاپ،فرج اے سی ہرایک چیز ای ایم آئی پہ دستیاب ہے ،اس طرح آپ کی ای ایم آئی آپ کی تنخواہ کے برابر ہوگئی اب اچانک آپ کی کمپنی بند ہوگئی ،نوکری چلی گئی ،کسی حادثہ میں کاروبار بیٹھ گیا۔ تو یہ ای ایم آئی اپنی جگہ نہیں رکنے والے ہرماہ دوگنی تی گنی ہوتی جائیگی۔اب بتائیں کہ یہ جان لیوا ہے یا نہیں ۔آپ کو نئی جاب کی ضرورت ہوگی یا ای ایم آئی بھرنے کی ؟پورامریکہ اور مغربی ممالک کے علاوہ پوری دنیا آج اسی قرضے میں دبی ہوئی ہے اور اس میں زیادہ تر یہود ونصاری کی من مانی چل رہی ہے۔کریڈٹ کارڈ اور آن لائن مارکیٹنگ اسی فتنہ کی ایک شکل ہے ،ہمیں لگتاہے کہ اکائونٹ سے پیسے کٹ گئے کچھ خرچ ہی نہیں ہوا ایک شخص دروازے پہ آکر سامان پہونچا گیا۔اس طرح ضرورت سے زائد سامان کی خریداری ہورہی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو عذاب قبراور فتنہ مسیح الدجال کے زمرہ میں رکھ کر اللہ تعالی کی پناہ طلب کی یہ بات اس فلسفہ کو سمجھنے میں کافی ہے کہ یہ کتنا سنگین ہے ۔اب قرضوں کی فرہمی کیلئے آئی ایم ایف موجود ہے جس کے ذریعہ ممالک کو قرضے دئے جاتے ہیں اور اسے اپنا غلام بنایا جاتاہے ۔شریعت اسلامیہ میں ایک بات کہی گئی ہے کہ ہر وہ قرض جو فائدہ کے ساتھ لوٹانے کا مطالبہ کیا جائے وہ سود ہے ،ہاں لوٹانے والا اپنی مرضی سے کچھ بڑھا کر لوٹائے تو یہ جائز ہے(لقول النبي ﷺ: إن خيار الناس أحسنهم قضاءً،) فرض کریں کہ کسی نے سو روپئے لئے اور لوٹاتے وقت اپنی مرضی سے ایک سو دس لوٹایا تو جائز ہے اور بہتر بھی ہے، مگر مطالبہ کرنا خواہ پانچ روپئے کا کیوں نا ہو سود ہے۔ بلکہ اس شخص کو بہتر انسان بتلایا گیا ہے جو قرض کو بڑھاکر واپس کرے ۔ اس کافائدہ یہ ہیکہ جب آپ دوبارہ قرض لینے جائیں گے تو اگلا شخص فورا آپ کو قرض دیدے گا کیونکہ فائدہ کی امید سب کو ہوتی ہے ۔اسلام نے منافعہ حاصل کرنے کیلئے مال کو تجارت میں مالکانہ حق کے ساتھ لگانے کا راستہ کھولا ہے اسے مضاربت کہتے ہیں ،خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول پہ حضرت خدیجہ الکبری رض کے مال تجارت میں شرکت کی ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ ہر کوئی مالک بن جاتاہے اور ہر ایک کومنافعہ ملتا ہے ، اس کے مقابلے سودی اور قرضے والے نظام میں استحصال کے علاہ کچھ نہیں ہوتا۔اسلامی نقطہء نظر سے قرض کسی کو مالدار بنانے کا دروازہ کھولتاہے اور فقر وفاقہ کے دروازے کو بند کرتاہے، بشرطیکہ کہ اس میں مہلت کا امکان رہے اور وہ سودی نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی نے کسی کو قرض دیا اور اس شخص نے وقت پہ نہ لوٹایا تو اسے رخصت دی جائے اور رخصت دینے کے عوض مال کے برابر صدقہ کا ثواب ملےگا۔یعنی کسی نے دس ہزار قرض دیا اور قرض دار کو مہلت دی تو اسے دس ہزار صدقہ کرنے کا ثواب ملتا رہے گا جب تک وہ لوٹا نہ دے (اللہ اکبر) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَن أنظَر معسرًا فله كل يومٍ مثله صدقةٌ، فقلت: يا رسول الله، سمعتك تقول: مَن أنظر مُعسرًا فله كل يومٍ مثليه صدقةٌ، قال له: كل يومٍ مثله صدقةً قبل أن يحل الدَّين، فإذا حل فأَنظَر فله كل يومٍ مثليه صدقةٌ»(صححه الألباني)قرآن مجید میں ہے :{قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} [سبأ:39]
کہہ دو بے شک میرا رب ہی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ کر دیتا ہے، اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرتے ہو سو وہی اس کا عوض دیتا ہے، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ {البقرة:280اور اگر وہ تنگ دست ہے تو آسودہ حالی تک مہلت دینی چاہیے، اور بخش دو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔لہذا جہاں تک ممکن ہو قرض سے بچنا چاہیے اور اپنی خواہشات کو اپنی صلاحیتوں کے ماتحت کرنا چاہیے ، قرض لینے کی نوبت اگر آہی جائے تو یقینا اس کی اجازت ہے ، اسے احسن طریقہ سے لوٹانا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *