
پبلک سیکٹر بینکوں کا پرائیوٹائزیشن

سراج الدین فلاحی
آج کل ملک میں ایک خبر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے کہ سرکار پبلک سیکٹر بینکوں کی تعداد 12 سے گھٹا کر 5 کرنے والی ہے حالانکہ اس سلسلے میں ابھی تک سرکار کی طرف سے کوئی آفیشیل بیان نہیں آیا۔
سن 2017 میں ہمارے ملک کے اندر پبلک سیکٹر یعنی سرکاری بینکوں کی کل تعداد 27 تھی۔ بینکوں کی انتہائی خستہ صورت حال کے سبب سرکار نے بعد میں کئی بینکوں کو آپس میں ضم کر دیا۔ ضم کرنے کے بعد ان کی تعداد بارہ ہو گئی تھی. فی الحال بارہ ہے۔ اگر آپ معاشی امور سے متعلق خبروں پر نظر رکھتے ہیں تو آپ کو یاد ہو گا کہ 18-2017 میں سرکار کے ایک فیصلہ سے SBI کے جتنے بھی Subsidiaries بینک تھے مثلا میسور بینک، مہیلا بینک، حیدرآد بینک، پٹیالہ بینک وغیرہ ان تمام کو SBI کے اندر ضم کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح 19-2018 میں وجے بینک اور دینا بینک کو بینک آف بڑودا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ بینکوں کو ضم کرنے کے ایک طویل پروسیس کے بعد اب پبلک سیکٹر بینکوں کی کل تعداد صرف 12 رہ گئی ہے۔
اب خبر آ رہی ہے کہ سرکار ان 12 بچے پبلک سیکٹر بینکوں کو پانچ بینک میں بدلنے کی تیاری کر رہی ہے۔ Business Standard اور The Economic Times جیسے اخباروں میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں جس کے مطابق سرکاری اہل کاروں کے ذریعے یہ خبر لیک ہوئی ہے کہ سرکار ایسا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ ابھی تک سرکار کی طرف سے کوئی بھی Notification نہیں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکار جب کسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کرتی ہے تو نیوز پھینک کر عوامی رجحان جاننے کی کوشش کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بینکوں سے متعلق اس طرح کی خبریں چھن چھن کر اخباروں میں چھپ رہی ہیں۔
خبروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ پوری بینکنگ انڈسٹری میں نیا پن لایا جائے اور ملک کے جو اہم ترین بینک ہیں جیسے اسٹیٹ بینک آف انڈیا، پنجاب نیشنل بینک، یونین بینک آف انڈیا وغیرہ۔ ان کو چھوڑ کر باقی تمام بینکوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچ دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوگا یعنی اس کا پروسیس کیا ہوگا؟ اس عمل سے سرکار کو کون سا فائدہ ہوگا اور اکاونٹ ہولڈرس پر بینکوں کی اس نجی کاری کا کیا اثر پڑے گا؟
پبلک سیکٹر بینکوں کے نجی کاری کا مطلب یہ ہے کہ ان بینکوں میں سرکار کا جو شیئر ہے سرکار اسے 51 فیصد سے کم پر لے آئے۔ واضح رہے جتنے بھی پبلک سیکٹر بینک ہیں ان میں سرکار کا 51 فیصد یا اس سے زیادہ شیئر ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر پبلک سیکٹر بینک میں سرکار کا 100 فیصد شیئر ہو۔ یعنی وہ تمام بینک جس میں سرکار کا 51 فیصد یا اس سے زیادہ شیئر ہوتا ہے اسے پبلک سیکٹر بینک کہتے ہیں۔ اب سرکار ان بینکوں میں اپنے Majority of Shares کو کم کرنا چاہتی ہے، یعنی 51 فیصد سے کم کر کے پرائیویٹ بینک میں بدلنا چاہتی ہے اور بینکوں سے متعلق تمام فیصلے پرائیویٹ ہاتھوں میں دینا چاہتی ہے۔ اس کا سرکار کو فوری فائدہ یہ ہوگا کہ اسے بیچ کر سرکار کو فنڈز مل جائیں گے اور فزکل خسارہ پر منفی اثر بھی نہیں پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہی جا رہی ہے کہ سرکاری اداروں کے کام کاج کا طریقہ پروفیشنل نہیں رہ گیا ہے اس لئے انہیں مسلسل گھاٹا ہو رہا ہے چنانچہ انہیں پرائیویٹائز کر کے ان کے کام کاج کے طریقوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جو خبریں آ رہی ہیں اس کے مطابق ابھی 6 بینکوں ( سینٹرل بینک آف انڈیا، یوکو بینک، بینک آف مہاراشٹرا، پنجاب اینڈ سندھ بینک، انڈین اوورسیز بینک اور بینک آف انڈیا) سے سرکاری کنٹرول ہٹانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ان بینکوں کو اس لئے پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی بات کہ رہی ہے کیونکہ ان کا سائز باقی پبلک سیکٹر بینکوں کے مقابلے بہت چھوٹا ہے۔ بنیادی طور پر سرکار سب سے پہلے ان بینکوں سے اپنا شیئر کم کرئے گی جیسے جیسے یہ پرائیویٹ ہاتھوں میں آتا جائے گا اس کے بعد سرکار اپنا پورا شیئر ان کے اندر سے ہٹا لے گی اور یہ مکمل طور پر ائیویٹ بن جائیں گے۔
کورونا مہاماری کے ابتدا ہی میں سرکار نے واضح کر دیا تھا کہ سرکار الگ الگ مرحلوں میں سرکاری اداروں کو پرائیویٹ کرئے گی۔ خبروں کے مطابق سرکار اس کا پروپوزل لائے گی اور اسے کابینہ میں پیش کر کے اسے پاس کروائے گی۔ ایسے وقت میں جب کورونا کی وجہ سے سرکار کا ریونیو بہت زیادہ گھٹ گیا ہے جس کی وجہ سے سرکار کا فزکل خسارہ بڑھتا جا رہا ہے ایسی صورت میں سرکار بینکوں سمیت دیگر سرکاری اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچ کر ریونیو کمائے گی تاکہ باقی بچے پبلک سیکٹر بینکوں میں Recapitalisation کر سکے۔ سرکار کا ماننا ہے کہ جو پانچ بینک بچیں گے اس میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہے۔ زیادہ سرمایہ ہونے کی وجہ سے بینکوں کے لون دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ لون کی دستیابی سے ملک میں معاشی گروتھ ہوگا۔
اب ہم تجزیاتی پہلو کی طرف آتے ہیں۔ ملک میں کورونا کی جو آفت آئی ہوئی ہے اس کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت جو پہلے ہی ہچکولے لے رہی تھی اب خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس خطرناک معاشی صورت حال کو RBI کی وقتا فوقتاً آنے والی رپورٹیں کنفرم کر رہی ہیں کہ یہ کورونا نہ صرف انڈیا کی بہت بڑی آبادی پر اثر ڈال رہا ہے بلکہ انڈین بینکوں پر بھی بہت بھیانک اثر ڈال رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ 24 جولائی کو RBI نے Financial Stability Report (FSR) جاری کیا ہے۔ یہ رپورٹ ہر چھ ماہ بعد ملک کا سینٹرل بینک یعنی RBI جاری کرتا ہے جس میں اس بات کا پتہ لگایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کے جو مالیاتی ادارے ہیں وہ کتنے مضبوط ہیں اور ان کی کارکردگی کیسی ہے۔ 24 جولائی کو RBI نے جو رپورٹ پیش کی اس رپورٹ میں NPA کو لے کر سب سے زیادہ پریشانی ظاہر کی گئی ہےاور RBI نے بہت چونکا دینے والے اعدادوشمار ظاہر کئے ہیں۔ اس کے مطابق بینک اس وقت بہت بڑی مصیبت میں ہیں۔ بینکوں کا NPA ( بینکوں کے ذریعے لوگوں کو دیے گئے وہ لون جس کے بینک واپس آنے کی امید تقریبا ختم ہو چکی ہے) بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مارچ 2020 تک جو NPA ساڑھے آٹھ فیصد تھا اس کے مارچ 2021 میں بڑھ کر 14.70 فیصد ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یعنی تقریبا پندرہ لاکھ کروڑ روپیہ کا بیڈ لون جو ہمارا اور آپ کا ہی پیسہ ہے اس کے بینکوں میں واپس آنے کی امیدیں تقریبا ختم ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھنا لازم ہے اگر حکومت سرکاری بینکوں کو نجی ہاتھوں میں دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو اتنے زیادہ NPA ہونے کے باوجود کون سی پرائیویٹ کمپنی ان بینکوں کو خریدنے کی ہمت کر سکے گی؟ اور کس طرح فائدہ حاصل کر سکے گی؟ ابھی بینکوں کا شیئر اتنا زیادہ گر چکا ہے کہ سرکار انہیں بیچ کر کتنا فنڈز اکٹھا کر سکے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری اثاثوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچنے پر اس کی سروسز بڑھ جاتی ہیں جیسا کہ دعوی کیا جا رہا ہے۔ آیئے اس کی مثال ریلوئے میں Catering سے سمجھتے ہیں۔ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ریلوئے میں کھانا بیچنے کا کام پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے۔ کیا پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے کے بعد کھانے کی کوالٹی بہتر ہو گئی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے گھر سے کھانا لے کر ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ وزیر آعظم مودی جی نے ملک کے لاکھوں، کروڑوں باشندگان کا اکاونٹ جن دھن یوجنا کے تحت بینکوں میں یہ کہ کر کھولا تھا کہ اب ان غریبوں کی زندگیوں میں بدلاؤ آئے گا۔ کیا اب بینکوں کے ساتھ ان غریبوں کی زندگیوں میں ہونے والے بدلاؤ یا اسکیموں کو بھی پرائیویٹ ہاتھوں میں بیچ دیا جائے گا؟ خلاصہ یہ کہ ہم ایک بڑے مالیاتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا حکومت اور عوام یکساں طور پر سامنا کریں گے. مزید برآں حکومت یہ کہ کر انگنت ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ سکتی ہے کہ چونکہ اس کے پاس فنڈز نہیں ہیں اس لیے وہ بینکنگ، ریلوے سمیت تمام چھوٹے بڑے سرکاری اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہی ہے. آخری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت سرکاری اثاثوں کو بیچنے کی راہ پر گامزن ہے. جس طرح ملک کے فائنانشیل سیکٹر کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ایسے میں ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں آگے چل کر یہ بڑی بڑی کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی نہ ثابت ہو جائیں۔