
قربانی کرنا گویا خدا سے محبت کا دم بھرنا ہے

احمد نہال عابدی
ہر سال عیدالاضحی کے موقعہ پر غیر مسلموں کی جانب سے اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ مسلم قوم ناحق بے زبان جانوروں پر ظلم و زیادتی کو روا رکھتے ہوئے خوشیاں مناتے ہیں ۔ اسلام کے خلاف بقرعید کو ایک بہانہ بنا کر دشمنان اسلام کا جانوروں سے اظہار ہمدردی کا متعصبانہ رویہ بھی خوب ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا روز مرہ کا کاروبار نہ صرف مختلف جانوروں کے گوشت تک محدود نہیں بلکہ بھارت میں ہندوؤں کے نزدیک بھگوان کا درجہ رکھنے والی گئو ماتا کے گوشت کا کاروبار اور وہ بھی سرکاری اجازت نامے کے ساتھ خاصا دلچسپ اور مضحکہ خیز بھی ہے ۔ دشمنان اسلام کا ہر سال بقرعید کے موقع پر مذکورہ بے جا اعتراضات کوئی نئی بات نہیں مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے اسلامی ُمعاشرے میں بھی یہ سوال اتھایا جا رہا ہے کہ بقرعید کے موقع پر قربانی کے تئیں ہونے والے اخراجات قوم کی فلاح کے لئے کیوں نہ مختص کر دئے جائیں ؟
موجودہ لاک ڈاؤن میں قربانی کی ممانعت کے پیش نظرشریعت کے خلاف ایسا مشورہ حکومت کی منشا کو بھی تقویت دینے کے مترادف ہے حالاںکہ ان افراد کے مشورے اپنے مذہب سے بغاوت اور بیزاری کے علاوہ جہالت کی بھی علامت ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہےکہ شریعت میں رائج قربانی کے حکم کو یکسر نظر انداز کرتےہوئے مذکورہ مشورے کو یہ کہہ کر مزید تقویت دینے کے مترادف ہے کہ قرآن کی رو سے قربانی کا گوشت اور نہ ہی جانوروں کا خون اللہ کو پہنچتا ہے بلکہ صرف انسان کا تقوی ہی اللہ کو درکار ہے ۔ ایسی سوچ کے حامل افراد گویا اللہ کے وجود پر نکیر کے مرتکب ہیں کیوں کہ قربانی کے احکام اللہ اور بندے کے مابین باہمی رشتوں اور تعلق کی لطافت پر دلالت کرتا ہے ۔ جس طرح سے انسانوں کے مابین باہمی رشتوں کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے رشتوں کی بحالی کی خاطر آپسی تعلق کو مضبو طی کے ساتھ قائم رکھیں ٹھیک اسی طرح قربانی کا عمل اللہ اور بندوں کے مابین تعلق کے استحکام کی کڑی ہے جسکی ادائیگی ہر مسلماں پر واجب الاداہے ۔ غیروں کی جانب سے کئے جانےوالےناحق اعتراضات کے زیر اثر مذہب سے بےزاری کا یہ نتیجہ ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک بقرعید کے موقع پر قربانیاں جانوروں پر ظلم اور قربانی کے ضمن میں خرچ کئے جانے والی رقم قوم و ملت کا بے جا صرفہ ہے ۔ آج کل اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ قربانی کے ضمن میں ہونے والے اخراجات کی رقم کو غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ تعجب خیز بات ہے کہ ایسے لوگوں کو قوم میں رائج یوم پیدائش اور جلسے جلوس کی تقریبات میں قوم کے بیجا مصارف نظر نہیں آتے مگر بقرعید کے موقع پر عین اسلامی شعار کی ادائیگی پر ہونے والے اخراجات انکی آںکھوں میں کھٹکتے ہیں ۔ مسلمانوں میں عقائد کی بنیاد پر فرقوں میں بٹے افراد اپنے عقائد کی تشہیرو ترسیل کی خاطربے فضول کروڑوں اربوں لٹا چکے ہیں اور لٹارہے ہیں لیکن ان بیچاروں کو فضولیات پر ہونے والے نا حق اخراجات نظر نہیں آتے جو قوم و ملت کی ترقی میں کام آسکتے تھے ۔ بہر حال یہ بات سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے کہ مصلحت یا حکمت کے تحت مذہبی امور میں کسی بھی طرح کے ردو بدل کی گنجائش شریعت میں نہیں ۔