
اٹھ کھڑے ہونگے ہم غزنوی کی طرح

عائشہ حبیب
حیدرآباد “نماز میں سر جھکانے سے کیا سجدے ادا ہوا کرتے ہیں؟جبکہ اللہ کے آگے ہمارے دل ہی نہیں جھکے،کیا اللہ کو ایسے شخص کے سجدے قبول ہیں جسکے دل میں شعائر اللہ کی محبت ہی نہی؟ “
( محمد نامی ایک لڑکا اپنے دوست بلال سے بحث کررہا تھا _)
” تمہاری بات تو ٹھیک ہے لیکن وہ سب ہمارے بزرگ ہیں ان کے فیصلے،ان کی حکمتیں ہم نہیں جان سکتے،شعائر اللہ کی محبت ان کے دل میں کیوں نہیں ہوگی ؟ وہ تو معزز علماء ہیں ہمارے استاد ہیں.قرآن و حدیث انھیں ازبر ہیں _ اگر وہ کچھ فیصلہ کررہے ہیں تو وہ صحیح ہوگا_ “( بلال نے محمد کو سمجھانے کی کوشش کی _)
” بڑےبزرگ ہیں تو کیا ہوا،قرآن ، حدیث جانتے ہیں تو کیا وہ نبی ہوگئے کہ ان کی ہر بات سچ ہے ؟ “( محمد نے بُھنے ہوئے لہجہ میں کہا _)
ہوا یوں تھا کہ محلّہ کی جامع مسجد ” مسجدِ حمزہ ؓ ” روڈ کے کنارے پر بنی تھی _ بلدیہ والے ماسٹر پلان کیلئے مسجد کے آدھے صحن کو ڈھانے کا منصوبہ رکھتے تھے _ اسی سلسلہ میں علماء و اکابرین محلّہ کی میٹنگ ہوئی جسمیں ہر بزرگ نے حکمت و مصلحت کی آڑ میں اپنی بُزدلی کو چُھپانے کی بھر پور کوشش کی- کوئی کہہ رہا تھا” آدھا صحن کیسے دیں؟” ہم کورٹ میں کیس ڈالیں گے” کورٹ کے سہارے یہ معاملہ سکون سے سُلجھے گا”
” نہیں نہیں بھائی ! ہم پولس کی مدد لیں گے بلدیہ کی شکایت درج کرائیں گے پولس اسے آسانی سے نمٹ لے گی _ اس پر جو بھی خرچ ہوگا وہ مسجد کے چندہ سے ادا کردیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں ۔۔۔۔۔”
” نہیں جی ، اس مسئلہ میں مجھے فساد کی زبردست بُو آرہی ہے _ ” ہاں ! مولانا نے صحیح کہا،فتنوں کی جگہ سے تو ہمیں ہجرت کا حکم ہے _ اس لئے میں کہتا ہوں” اِتّقوا مواضع الفِتن _”
” شاہ جی ! مسجد کا تھوڑا سا حصہ دینے سے ایک بڑے جھگڑے اور لوگوں کی جان و مال کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے تو پھر آزمائشوں کو اپنے اوپر لانے کی کیا ضرورت ہے؟”
” یہ آپ نے بڑی درست بات کہی”ہاں ہاں”مولانا نے تو ہمارے دل کی بات کہہ دی” (سب کی آوازیں ایک ساتھ ابھریں)
” لیکن پھر بھی ایک بڑا مسئلہ بر قرار ہے مولانا محلّہ کے نوجوان اس بات کو نہیں مانیں گے طیش میں آئیں گے اور سارا معاملہ بگاڑ دیں گے _ مولانا آپ اسکا کوئی حل نکال دیں” ( سب کی نگاہیں سفید ریش مولانا کے چہرے پر مرکوز تھیں)
” بھائی دیکھئے نوجوان کاخون ہوتا ہی گرم ہے اُسے ایک دم ٹھنڈا کرنا بھی نقصاندہ ہوگا _ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں _انہی کو پیش پیش رکھیں اور انہی کے ہاتھ سے کورٹ اور پولس میں ایک ایک عرضی پیش کرادیں،تاکہ ان کے جزبوں کی تسکین ہو _ پھر کیس آگے بڑھتا رہے گا،اور آخر میں کورٹ ہمارے ہی فیصلے کو حکم کا جامہ پہنائے گا کہ مسجد کی تھوڑی سی زمین دینے سے بڑا فساد ٹل رہا ہے تو اس زمین کو دے دینے میں ہی حکمت و مصلحت ہے _”
“اب ہمارے کرنے کا کام دیکھو یہ ہے کہ دعا کریں بس اور کیا”
” جی مولانا،سبحان اللہ اب میٹنگ کا اختتام الحمدللہ سب کی پیش کی گئی تجویز پر ہوتا ہے _ مولانا آپ سے دعا کی گزارش ہے یہ آخری زحمت فرمائیں _”
( سب نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا لئے _ مولانا پُرسوز آواز میں دعا کر رہے تھے اور بار بار ایک ہی دعا دوہرا رہے تھے _)
” ربّنا ولا تحمل علینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
( سب آمین آمین کئے جا رہے تھے لیکن دو نوجوان غصہ سے بے قابو ہو رہے تھے جو اس ہال کے باہر کھڑکی سے ساری مجلس کی کاروائی سن رہے تھے _)
محمد نے سرگوشی کی ” مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی دعا سن کر اللہ ان پر نحوست برسا رہا ہے _ یہ ہمارے دانشور ہیں؟ یہ ہمارے بڑے ہیں؟ ہم ان کی تقلید کر رہے ہیں جنھیں ساری زندگی گزارنےکے بعد بھی موت سے خوف ہے اور بار بار دعا کر رہے ہیں کہ اللہ ہم پر وہ ذمہ داری نہ ڈالنا جو تو نے ہم سے پہلے والوں پر ڈالی تھی ہم اسکو اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے”
( محمد کھڑکی سے ہٹ کر چُھپ گیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا _)
” ارے بھائی ! ذرا یہ مصلحت اور حکمت کی تعریف مجھے کوئی بتا دے،ہمارے علماء نے تو ہمیں یہی تعریف بتائی ہے کہ اللہ کے گھر کو اپنے گھر پر وار دو،اپنا گھر محفوظ رہے،اللہ کا گھر تو لا وارث ہے،وہ جاتا ہے تو جاۓ۔نعوذباللہ
یہ باتیں ہماری چھوٹی عقل میں آتی ہیں _ آپ کی موٹی عقل میں کیوں نہیں آتیں؟”
” یاد رکھئیے ! مولانا کی حکمت و مصلحت آپ سب کو ایک دن لے ڈوبے گی-
آپ لوگ یہاں بیٹھ کر اللہ کے گھر کا سودا کر رہے ہیں _؟ آپ ایسا نہیں کرسکتے _ ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے،میری بات یاد رکھۓ آپ سب کبھی نہ کبھی ذلّت میں ڈوب جاؤ گے،آپ مسجد کو روڈ میں تبدیل کرنا چاہتے ہو،اسے کُتّوں کا مسکن بنانا چاہتے ہو؟ آپ کو شرم نہیں آتی؟حیرت ہے _
ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ مسجد کی طرف اگر کوئی قدم بڑھائے گا تو اسے پہلے ہماری لاش پر سے گزرنا ہوگا”
محمد کی آواز پر مولانا کی دعا کا سلسلہ ٹوٹ گیا _ سارے لوگ دم بہ خود کھڑکی کو گھور رہے تھے _ لوگ اس طرف دوڑنے ہی والے تھے کہ مولانا نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا _ تاکہ اس طرح سارے علماء اور محلّہ میں انکی عزّت میں اضافہ ہو _
محمد اور بلال تلملاتے ہوئے پلٹے اور اپنے مدرسے کی روڈ پر آگئے انھیں غم اس بات کا تھا کہ ان کے استاد بھی اس مجلس میں جلوہ افروز تھے اور ہاں میں ہاں ملا رہے تھے _
” ایسے علماء سے مجھے نہیں پڑھنا جنھوں نے اپنا ایمان بیچ دیا _” ( وہ دونوں ٹوٹ چکے تھے _ ان کے دل کو بہت تکلیف ہوئی _)
چلتے ہوئے دونوں مسجدِ حمزہ ؓ پر رُکے اور اندر جاکر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ سے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ اس مسجد کے درودیوار کو بچانے کیلئے استقلال اور استقامت عطا فرماۓ_
پھر دونوں نے اپنے اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا دۓ_ عزم دونوں کا پختہ تھا لیکن لائحۂ عمل کیا ہو؟ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا _ کیا کیا جائے _؟ دونوں کو فکر نے آ گھیرا _
محمد اپنے گھر آکر بستر پر لیٹا تو اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا _
” محمد ، بیٹا محمد ” اچانک کسی نے اُسے پکارا،محمد نے دیکھا کوئی سفید پُوش خاتون اسے بڑے پیار سے پکار رہی تھی،محمد نے کہا : ” آپ کون ہیں محترمہ ؟ کیا میں آپ کو جانتا ہوں ؟”
محمد کے سوال پر اس خاتون نے کہا کہ ” بیٹا کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟”
” کیا تمہیں میں یاد نہیں؟ کیا میرا چہرہ بھی تم بھول گئے؟ کیا میرے دامن پر لگا خون تمہیں یاد نہیں؟ ” خاتون رو رہی تھیں _
محمد پریشان ہوگیا، ذہن پر زور دے رہا تھا _ خاتون نے محمد کو یاد دلایا خود کہنے لگی _
” بیٹا محمد ! تمہارے نام کا تو مجھ سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن افسوس کہ تم ہی مجھے بھول گئے”
میں بابری ہوں -بابری مسجد- جسے میرباقی نے تعمیر کیا تھا _ میں اللہ کا وہ مظلوم گھر ہوں جسے نبی ﷺ نے اُمّت کی عظمت کا تابندہ نشان بتایا تھا،میں وہ بے بس ہوں جو اپنی اُمّت کا دیوانہ وار انتظار کرتے کرتے ہی جامِ شہادت نوش کر گئی _ میں وہ ہوں جسے ظالم ہندؤں نے اپنے ناپاک پیروں تلے روندھ ڈالا _ صرف تمہارے لئے مجھے تڑپا تڑپا کر مارا گیا _ میرا ہر عُضو مجھ سے کاٹ کر پھینکا گیا _ یہ دیکھو میرا لہو اب بھی میرے دامن پر لگا ہے میں تو اس خون کو سجا کر رکھ رہی ہوں کہ شاید کبھی نہ کبھی میرے نبی ﷺ کی اُمّت میرے تقدّس کی پامالی کا بدلہ لےگی لیکن میرے جزبے ٹوٹ گئے کیونکہ میری قوم کے بچّے میرے چہرے سے بھی واقف نہیں ہیں،میرے خون ، میری قربانی کو بھلا دیا،میں نے صبر کے ساتھ بہت بہت انتظار کیا تھا لیکن میرے بیٹے ! تم نہیں آئے،میں تمہاری تھی،تمہارے لئے بنی تھی میں نے تو تمہارے لئے جان دی تھی تم اس احسان کو بھی بھول گئے میں نے شہادت کے بعد تمہارا انتظار کیا کہ تم آؤ گے اور میری لاش کو ان ہندوں کے ہاتھوں اور پیروں سے آزاد کراؤ گے،میری لاش پڑی رہی،سب میری شہادت پر ہنس رہے تھے _ میں نے ہر ذلّت کو برداشت کر لیا صرف اس گُمان میں کہ تم اپنی اپنی جگہ تو مسجدوں کا احترام کرتے ہوگے _ لیکن نہیں میں غلط تھی، تم اب کسی مسجد سے محبت نہیں کرتے،تم تو اس مسجدِ حمزہ ؓ کو بھی ذلیل کرنے پر تُل گئے ہو کیوں؟”
” یاد رکھو ! اگر مسجدِ حمزہ ؓ کو کچھ ہوگیا تو میں تم لوگوں سے انتقام لونگی _ اس گناہ سے تم میں سے کوئی بچ نہیں سکےگا _ تمہارا کوئی عمل تمہیں خدا کے قہر سے بچا نہیں پاۓگا _ یاد رکھو _ یاد رکھو _ میری بات _ مظلوم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے اس میں ظالم تو پستا ہی ہے لیکن منافق تو خاص طور پر ،سب سے پہلے انجام کو پہنچتا ہے _
میرے محمد !
تمہیں مسجدِ حمزہ ؓ کو بچانا ہوگا، بچانا ہوگا۔”
یہ کہہ کر وہ غائب ہوگئیں۔ محمد اندھیرے میں انہیں ڈھونڈتا رہا ایک دم ہڑبڑا کر اٹھا_ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا آنسو جاری ہوگئے _ محمد نے اپنی کتاب میں رکھی بابری مسجد کی تصویر نکالی،اسے بار بار چومنے لگا ،اسکے آنسو بہہ رہے تھے _ اس نے پُر عزم کہا کہ میں آج سے رات بھر مسجدِ حمزہ ؓ کی نگرانی کرونگا _ اسکی حفاظت مجھ پر فرض ہے یہ کہہ کر وہ رات کے اندھیرے میں مسجدِ حمزہ ؓ پہنچا _ اور سجدے میں گِر کر مسجد کی زمین کو چومنے لگا اور دعائیں کرنے لگا۔
” یااللہ ! اپنے گھر کی حفاظت کا کام ان کمزور بازؤں سے لے لے ۔آمین
مجھے اپنے راستے میں قبول فرما۔۔۔۔۔آمین
مجھ ناچیز کی دعاؤں کو قبول فرما ۔۔۔۔۔آمین “
اچانک اُسے کچھ آوازیں سنائی دیں _
” اگر ایسا ہوگیا تو مسلمان اسے دوبارہ تعمیر نہ کر سکیں گے _ چلو بلڈوزر والا ڈرائیور کہاں ہے ؟ وہ بھی آگیا،جلدی سے کام کرو اور جلدی فرار ہوجاؤ،لوگ سمجھیں گے کہ یہ کام حکومت نے کروایا ہے اور اس پر ہنگامہ بھی نہیں کریں گے،ان کے بیچ میں ہمارا کام ہوجائے گا ۔ہاہاہاہا _”
مسجدِ حمزہ ؓ کی دوسری جانب ہندو کارسیوک یہ منصوبہ بنا رہے تھے کہ مسجدِ حمزہ ؓ کو آدھے سے زیادہ ڈھادیں گے،مسلمان حکومت کا کام سمجھ کر چپ ہوجائیں گے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ ان کا یہ منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا _ کیونکہ محمد نے بلال کو فون کر کے تفصیل بتائی اور خود ان کے آگے کھڑا ہو گیا _
” کس میں اتنی ہمّت ہے کہ جو ایک قدم بھی آگے بڑھاۓ ۔؟”
” تم کو اپنا بلڈوزر پہلے میرے سینے پر سے گزارنا ہوگا۔ “
( محمد غُرّاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ کار سیوک پہلے تو سہم گئے پھر قہقہہ لگانے لگے )
” اے چھوکرے ! اپنا کام کر اور گھر جا کر بستر پکڑ _ ہمیں اپنا کام کرنے دے _ “
انکی بات پر محمد نے ایک نوکدار پتھر پھینک کر آگے والے کی آنکھ پھوڑ دی اور بولا کہ
” تمہارے آگے کوئی چھوٹا بچّہ نہیں بلکہ ایک مسلمان کھڑا ہے،ذرا سنبھل کر بات کرنا _” اور غصہ سے گھورنے لگا ۔
اسکے ساتھ ہی کار سیوک غصہ میں آگے بڑھے اور محمد کو پکڑ لیا _ ڈرائیور کو حکم دیا کہ
” تم مسجد گرانا شروع کرو _ ہم اسے مزہ چکھاتے ہیں _” یہ کہہ کر وہ محمد کو بُری طرح پیٹنے لگے _
لیکن محمد کی پوری توجّہ بلڈوزر اور مسجد کی طرف تھی _ وہ اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا _ بلڈوزر بڑی تیزی سے مسجد کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا کہ اتنے میں بلال کے ساتھ محلّہ کے نوجوان نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے آپہنچے،کار سیوکوں کے پنجے سے محمد کو آزاد کروایا اور ایک جنگ شروع ہوگئی۔سب جوش میں تھے۔ہر جانب اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ہر کوئی اپنا فرض ادا کر رہا تھا۔
لیکن محمد اپنے گرد پیش سے بیگانہ۔دیوانہ وار دوڑتا ہوا مسجد اور بلڈوزر کے بیچ آگیا۔ پھر مسجدِ حمزہ ؓ بھی خون سے رنگ گئی۔اسکا دامن بھی لہو رنگ ہو گیا۔
لیکن یہ خون مسجد کا خون نہ تھا بلکہ ایک امّتی کا خون تھا ۔ ایک عاشقِ رسولﷺ کا خون تھا ۔ایک مسلمان۔مجاہد کا خون تھا۔
اناللہ واناالیہ راجعون
محمد نے اپنے رب سے کیا وعدہ نبھایا۔اک پروانے کی طرح اپنی شمع پر نثار ہوگیا۔اسکی شہادت رنگ لائی۔مسجدِ حمزہ ؓ منافقوں کے ناپاک منصوبوں،ظالم ہندؤں کی نجس نظروں اور ارادوں سے محفوظ ہوگئی،لیکن سونے والے تو سوتے رہے اور سوتے رہیں گے اب انھیں قیامت ، یعنی ان کی موت ہی بیدار کرے گی _
غرض محمد کی شہادت نے خون کی ایک دیوار مسجد کے اطراف اٹھا دی تھی کہ کوئی شر پسند اسے پار نہ کر سکا _ محمد کی شہادت کے بعد نہ جانے مسجدِ حمزہ ؓ نے اور کتنی شہادتیں دیکھیں _ کیونکہ نوجوانوں کا یہ نعرہ تھا _
انگلیاں مسجدوں پر اٹھیں گی اگر
اٹھ کھڑے ہونگے ہم غزنوی کی طرح