
“عبدالقادر شمس,” ڈائن(اردو صحافت) کھا گئی !
25اگست کی دوپہرکواچانک سوشل میڈیا پر ’آہ و بکا‘ کا دور شروع ہوا،ایک طوفان اٹھا،عبدالقادر شمس نہیں رہے،دہلی میں اردو صحافت کا جانا مانا چہرہ ہمیشہ کےلئے گم ہوگیا۔ وہ کرونا سے جنگ جیت گئے مگر دل کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے،تعزیتی پیغامات کا سیلاب آگیا،ماتم برپا ہوگیا،ہر کوئی مرحوم کو اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتا رہا،سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ مرحوم کا اخلاق ، خاکساری اور سادگی میں کوئی جواب نہیں تھا۔بلاشبہ وہ ایک شریف النفس انسان تھے،کسی سے لڑائی نہ جھگڑا۔کام سے کام ۔سب کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آنا اور انتہائی مہذب انداز میں بات کرنا۔صاف گو۔۔۔با ہمت انسان ۔صاف دل انسان۔جس سے سنئیے کوئی نہ کوئی ذاتی تجربہ بیان کرتا نظر آرہا ہے ،ان کی کسی نہ کسی خوبی کا ذکر کررہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی موت کو ہضم یا قبول کرنا مشکل ہورہا ہے،مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اب بس یادیں اور باتیں رہ گئیں۔کچھ دنوں میں سب مگن ہوجائیں گے،ایمان والی بات کروں تو ”اللہ صبر عطا کردے گا‘۔در اصل جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہمارا ایمان یہی کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ ”موت برحق ہے“۔مگر سوال یہ بھی ہے کہ ’زندگی حق ہے‘تو اس کو کس نے چھینا؟کوئی اس حق سے کیوں محروم ہوا؟وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جن میں سب سے قیمتی حق کےلئے انسان کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ یہ سوال کو اب عبدا لقادر شمس کی’ موت‘ نے ’زندہ ‘کردیا ہے۔
ہر کوئی یہی خراج عقیدت پیش کررہا ہے کہ اردو صحافت کا عظیم نقصان ہوگیا،ایک ایماندار صحافی دنیا سے رخصت ہوگیا مگر میرے خیال میں یہ اردو صحافت نے ہی نگل لیا مرحوم کو۔اردو صحافت چونکہ ایک صحرا ہے جس میں ہمیشہ گلا خشک ہی رہتا ہے۔صحافیوں کو پیاسا رہنے کی عادت ہوگئی ہے یا پھر پیاس کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ساتھ ہی صحافیوں کےلئے اس بات کا احساس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کا وقت اچھا ہے یا برا۔مرحوم شمس کو یاد کرنا اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنا تو یقینا فرض ہے مگرصرف ان کی خوبیوں اور نیکیوں کے ذکر کے ساتھ اس ”کیس‘ ‘ کو بند کرنا بہت بڑی ناانصافی ہوگی،بات صرف ایک موت کی نہیں،اس سے پہلے بھی بہت سے صحافی اردو کے پیار میں اللہ کو پیارے ہوئے اور بلاشبہ یہ سلسلہ جاری ہی رہے گا۔ہم ہمیشہ ’ کمزور یادداشت‘ کے سبب پچھلے زخم کو بھول کر نئے زخم کو سہلانے لگتے ہیں جو کہیں نہ کہیں اردو صحافت کے مزدوروں کی بے بسی بھی ہے کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے ’موت کے کنویں‘میںہی رہنا ہے۔اب بھی ایسا ہی ہوگا۔مرحوم عبدالقادرشمس کے معاملہ میں بھی کچھ ایسا ہوا ۔اصل مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے یا دینا نہیں چاہتا ہے۔
تعزیت اور خراج عقیدت کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ’کرونا ‘ کی زد میں آنے کے بعد مرحوم عبدالقادر شمس کوتین اسپتالوں کا رخ کیوں کرنا پڑا؟بنیادی سوال یہی ہے؟اس کو اردو صحافت میں مزدوری کی مار کہہ سکتے ہیں۔یہ جیب کی خشک سالی کا انجام تھا۔ ایک خود ساختہ ’بڑے‘ اخبار کا حصہ ہونے کی سزا تھی،جس کے ملک کے مختلف شہروں سے ’ایڈیشن‘کی برسات ہے۔مگرایک صحافی کےلئے ’میڈیکل انشورنس‘ نہیں ،ظاہر ی بات ہے کہ جب ’تنخواہ‘ ہی ’تنگ‘ہے تو کوئی ادارہ کس طرح میڈیکل انشورنس کی سہولت دے گا؟جب مالک کو جیل سے باہر آنے کےلئے ملازمین سے ’چندہ‘ لینا پڑا ہو تو پھر وہ’مالک‘دینے والے کا کردار کیسے نبھا سکتا ہے۔مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی ادارے کے ملازمین اپنے مالک کے برے وقت میں قرض لے کرضمانت کی رقم اکٹھا کرسکتے ہیں تو کیا وہ مالک کسی ملازم کی جان بجانے کےلئے اپنی جیب میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا ہے؟میرا ماننا ہے کہ کسی بھی اخبار کی پیشانی پر ”نمبر ون‘ لکھ دینا کافی نہیں،جب تک اس کے ملازمین اپنے رکھ رکھاﺅ اورطرز زندگی سے ”نمبر ون‘ نظر نہ آئیں۔ وہ پہلے صحافی نہیں تھے جس کے نصیب میںایسی موت آئی،اس ادارے نے اور بھی ’قربانیاں‘لی ہیں۔دماغ پر زور دیں ،نام یاد آجائیں گے۔ فاروق سلیم جیسے صحافی بھی اسی بدترین استحصال کا شکار ہوئے تھے۔اگر مرحوم عبدالقادر شمس کسی ’میڈیکل انشورنس‘کے ’دعویدار‘ہوتے توشاید پہلے دن انہیں ’ہولی فیملی اسپتال‘میں داخل ہونے کے بجائے گھر جانے کی ضرورت نہیں آتی،جب وہ گھر گئے تو پھر حالت بگڑی ،جیب کی حالت نے کسی اچھے اسپتال کے بجائے شاہین باغ کے کسی اسپتال میں ’زندگی داﺅ ‘ پر لگائی۔جب حالت مزید بگڑی تو ’مجیدیہ اسپتال‘ کا رخ کیا۔مگر موت تھی جو تعاقب میں لگی تھی ، ان کی زندگی نے ہتھیار ڈال دئیے۔چلے گئے عبدالقادر شمس۔
ہم ہیں کہ تعزیت اورخراج عقیدت کی خدمت میں لگ گئے کیونکہ ’موت بر حق ہے ‘ پر فولادی یقین ہے۔ اردو صحافت میںہونے کی ’بد قسمتی‘کو’خدمت‘ مان لیتے ہیں ۔سب اپنے اپنے تعلقات اور مفادات کے سبب کھل کر کچھ کہنے کو تیار نہیں۔سب کے تار کہیں نہ کہیں زندگی کی سانسیں چلا رہے ہیں۔اس لئے سوشل میڈیا پر دوست اور احباب جذباتی کلمات کے ساتھ معاملہ رفعہ دفعہ ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن بے بس ہیں۔کسی کو مہینہ دو مہینے میں ’نصف‘ تنخواہ کا انتظار ہے تو کسی کو اپنا مضمون شائع کرانے کا سلسلہ برقرار رکھنا ہے۔مجبوری ہے بھائی۔۔بہت خراب والی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ’راحت اندوری‘ کی انقلابی شاعری پر نیم پاگل ہوجاتے تھے لیکن جب خود انقلاب کا نعرہ بلند کرنے کا وقت آتا ہے توسانپ سونگھ جاتا ہے اور پھر سمجھ میں آتا ہے کہ ”واہ واہ‘ کرنے اور’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ایک بات اور واضح کردوں کہ یہ کسی ایک اخبار کا مسئلہ نہیں ہے،جب کہیں جاﺅ یا سوشل میڈیا پر ہی نظر دوڑا لو تو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اردو اخبار کے ستائے ہوئے استحصال زدہ دم توڑتے صحافی مالکان کو کوستے اور بد دعائیں دیتے نظر آجائیں گے۔یہ کسی ایک شہر کا بھی قصہ نہیں ہے۔ شمال سے مشرق اور مغرب سے جنوب تک یہی کہانی ہے۔ اردو صحافی نہ صرف اپنے حلیہ سے پہچان میں آجاتا ہے بلکہ اپنی خستہ حالی کے سبب تماشہ بھی بنتا ہے۔ کبھی موت کے بعد کوئی اخبار اپنا ملازم لکھنے کو تیار نہیں ہوتا کہ کہیں’لینے کے دینے ‘ نہ پڑ جائیں۔یہ الگ بحث ہے کہ کیا ملک کے گنتی کے چند شہروں سے کچھ بڑے اخبار وں کا شائع ہونا ’اردو صحافت‘کے سنہری ماضی کی یاد دہانی کے طور پرقبول کیا جائے یا پھر اس کو اردو صحافت کے زوال مانا جائے؟
پچھلے دنوں ایک خبر آئی تھی کہ دہلی یونیورسٹی کے تحت ”انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن “ نے اردو صحافت میں پوسٹ گریجوٹ ڈپلوماکی 17سیٹوں کےلئے نوٹس شائع کیا تھا مگر اس کےلئے ایک بھی امیدوار نہیں آیا،سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا تھا کہ ’سب کہاں مر گئے‘ ۔۔۔’کوئی آتا کیوں نہیں‘۔۔۔’کولہو کے بیل ناپید ہوگئے کیا‘۔۔۔’قربانی کے بکرے کہاں ہیں‘۔۔تین تین نوٹس جاری ہوگئے اور ایک بھی اردو والا نمودار نہیں ہوا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو سیکشن کو بند کردیا جائے گا۔اس خبر نے مجھے تو کچھ خوشی دی تھی کہ کم سے کم اردو صحافت کے نام پر اب کچھ نوجوانوں کا مستقبل بچ جائے گا لیکن عبدلقادر شمس کی موت کے بعد میری دعا یہی ہے کہ ’آئی آئی ایم سی‘میں اردو سیکشن میں تالاپڑ جائے۔جہاں تک بات بد حالی اور خستہ حالی کی ہے تووہ کوئی نئی نہیں ہے لیکن آج کے دور میں ،جب ہر کوئی زندگی کے ہر شعبہ میں نہ چاہتے ہوئے مقابلہ پر مجبور ہے اس میں اردو اخبار کا ملازم بننے کا مطلب اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا ہے۔بد نصیبی یہ ہے کہ اردو کے نام پر بندر باٹ کےلئے کئی خیمے گڑے ہوئے ہیں، خواہ وہ کوئی اکاڈمی ہو یا کاونسل ۔مگر اردو صحافت میںایڑیاں رگڑنے والوں کےلئے کوئی دوا نہیں۔یہ حال پورے ہندوستان کا ہے،کسی ایک اخبار کی کہانی نہیں۔۔۔’کہانی اخبا راخبار کی ہے‘۔اردو صحافت ’ڈائن‘بن رہی ہے ،صحافیوں کو کھا رہی ہے،زندہ نگل رہی ہے،سب دیکھ رہے ہیں لیکن سب بے بس ہیں۔میں تو کہتا ہوں کہ اگر ملک کا سب سے بڑا اور قابل احترام مسلم ادارہ ’جمعیت علمائے ہند‘جہاں ملک بھر میں مظلوموں اور بے سہاراﺅں کو مختلف سطح پرالگ الگ انداز میں مدد پہنچاتی ہے ،کم سے کم اردو صحافیوں کو بھی کمزور اور بے سہارا برادری کے زمرے میں شامل کرلے ۔انہیں مرنے سے قبل لاوارث اور فقیر ہونے کے احساس سے بچالے۔یہ بھی قوم کی ایک عظیم خدمت ہی ہوگی کیونکہ جو اخبار شائع ہورہے ہیں وہ صرف ادارے کے ہیں یا مالک کے ۔
آج عبدالقادر شمس گئے ،کل کوئی اور چلا جائے گا،اردو صحافت ایک دلدل ہے،اس میں وہی زندگی گزار سکتے ہیں جو خاموشی سے مرنے کے قائل ہوں،ان حالات کو بدلنا ہے توہمیں ’خراج عقیدت ‘کی تہذیب سے باہر آنا ہوگا،اب انہیں پکڑنا ہوگا جو کسی قاتل سے کم نہیں۔۔۔جو ایک صحافی کو زندگی سے دور کرکے موت کے منھ میں دھکیل دیتے ہیں۔۔۔انہیںسزا دلانی ہوگی۔۔۔مرنے والے کے پسماندگان کو ’فسادزدگان ‘ کی طرز پر معاوضہ دلانا ہوگا کیونکہ اردو صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ”الہلال‘کی کہانیاں سن سن کر بچے بوڑھے ہوگئے اور بوڑھے مرحوم ہوگئے ،نسلیں گزر گئیں لیکن آج تک اردو صحافت میں ’چودہویں کا چاند ‘آج بھی ایک خواب ہی ہے۔