
ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد ڈویژن بینچ کا مدبرانہ فیصلہ
جسٹس ٹی وی نلاوڑے اور ایم جی سیولیکر نے ‘ستیہ میو جیتے’ کی شمع ایک بار پھر روشن کی ھے۔
سلیم الوار ے

عدالتوں کا وقار بحال رہے اسکے لیے ھم پر لازم ہے کہ ھم ان کا احترام کریں تا کہ آئین بھی محفوظ رہے اور اس ملک کے مظلومین،محروسین اور دبے کچلے لوگوں کو انصاف ملتا رہے۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اگر انصاف ملنے میں تا خیر ہو جائے تو انصاف نہیں ہوسکتا لیکِن سچ اسکے بر عکس ہے انصاف کے لئے لوگ نچلی عدالتِ سے لیکر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ تک برسوں گنوا دیتے ہیں اور تھک ہار کر خود کی قسمت کو الزام دیتے ہیں ، ملک کی آذادی سے لیکر آج تک یہ سلسلہ چلتے آیا ہے اور مستقبل قریب میں اس میں مثبت تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے
٢١, اگست ٢٠٢٠ کو ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد ڈویژن بینچ نے غیر ملکی مبلغین یعنی تبلیغی جماعتوں کے ممبران پر درج ایف آئی آر خارج کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے اپنی کوتاہیوں اور ذمے داریوں سے پہلو تہی کرنے کے لئے ان غیر ملکی معصوم جماتیوں کو ‘بلی کا بکرا’ بنا دیا۔ عدالت نےیہ ریمارک کسی ایک مخصوص معاملہ، ریاست یا شہر کے لئے نہیں ہے بلکہ د ہلی کے نظام الدین میں ائے تمام غیر ملکی تبلیغی مبلغین اور مارچ میں ہوئے اجتماع کو لے کر کیا ہے کہ کس طرح شرکاء پر کووڈ ١٩ پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا انھیں ہراساں کیا گیا ان پر ایف آئی آر درج کی گئی اُنہیں جیلوں میں ڈالا گیا جبکہ یہ سارے غیر ملکی مبلغین اپنے تمام سفری کاغذات کے ساتھ ملک میں داخل ہوئے تھے اور ایئر پورٹس پر انکی اسکریننگ بھی ہوئی تھی اور انہیں گائیڈ لائنز بھی جاری کی گئی تھی جس پر وہ عمل پیرا تھے۔
٢١ اگست کو پورے معاملہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے جسٹس ٹی وی نالاوڑے اور جسٹس ایم جی سیو لیکر نے د ہلی کے مرکز کے اجتماع میں شریک ٢٩ غیرملکی تبلیغی مبلغین پر دائر ایف آئی آر خارج کر دی۔
ان غیر ملکیوں پر انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات، اپیڈمک ڈسیسز ایکٹ، ڈزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور غیر ملکی ویزا قانون کے تحت معاملات درج کیےگئے تھے جبکہ ان کی آمد عین قانون کے مطابق تھی۔
عدالت نے کہا تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا خواہ مخواہ پروپیگنڈا کیا گیا جبکہ ان کی سرگرمیاں پچھلے ٥٠ سال سے روزانہ جاری رہتی ہیں۔
عدالت نے مہاراشٹرا سرکار پر سرعت اور پھرتی سے سیاسی مجبور ی کے تحت کام کرنے کا الزام لگایا۔
عدالت نے اپنے مشاہدات میں یہ بات کہی کہ دہلی مرکز میں آنے والے غیرملکیوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا گیا۔ عدالت کا سب سے بہترین مشاھدہ یہ ھیکہ پوری دنیا کے مسلمان تبلیغی جماعت کی اصلاحی تحریک سے متاثر ہوکر دہلی کے نظام الدین مرکز آتے رہتے ہیں اور یہ سال بھر چلتا رہتا ھے اور یہاں پر آنے والوں کے لیے رہائش کا معقول انتظام بھی ہے۔
عدالتِ نے کہا کہ لوک ڈاؤن کے سبب اچانک بدلے حالات میں ہمیں ان غیر ملکیوں کو تعاون کرنا چاہئے تھا انکی مدد ہماری ذمے داری تھی کیونکہ یہ ہمارا کلچر ہے کہ ہم مہمانوں کا خیال رکھیں اُس کے بر عکس اُنہیں ہراساں کیا گیا ذلیل و رسوا کیا گیا جیلوں میں ڈالا گیا۔
سیاسی حکومتیں وبا اور قدرتی آفات کے وقت ‘ بلی کا بکرا’ ڈھونڈتی ھیں جو سرکار کو غیر ملکی تبلیغی مبلغین کی صورت میں مل گیا تھا۔
اورنگ آباد ڈویژن بینچ کے مشاہدات اور فیصلے کو سنہرے حرفوں میں لکھا جانا چاہئے کیونکہ پچھلے چند سالوں سے عدالتوں میں جو بھی ہو رہا ہے اُسکے مشاہدات تحریر میں لانے سے قبل مجھے جیل جانے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
بحرِ حال جسٹس ٹی وی نلاوڈے اور جسٹس ایم جی سولیکر کو مبارک سلامت جنہوں نے ‘ستیہ میو جیتے’ کی شمع ایک بار پھر روشن کی ہے۔۔۔۔۔۔