ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
نوٹ بندی، کرونا سے نمٹنے میں ناکامی، لاک ڈاؤن کے مسائل سے نمٹنے میں ناہلی، پی ایم کیئر فنڈس کی شفافیت پر انہوں نے بہت آوازیں اٹھائیں مگر نہ تو انہیں عوامی سطح پر کامیابی ملی نہ ہی قانونی طور پر وجہ چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ جتنا خلاف کہتے گئے بی جے پی اور نریندر مودی کو فائدہ ہوتا رہا۔ کانگریس میں سینئر قائدین موجود ہیں۔ جن سے راہول گاندھی کی دوری سے ہمیشہ مسائل پیدا ہوتے رہے۔ یہ قائدین قاہتے ہیں کہ راہول گاندھی اور سونیا گاندھی اور پارٹی قائدین کے درمیان فاصلے نہ ہوں۔ آپسی مشاورت سے مسائل حل کئے جائیں۔ کانگریس بدترین دور سے گزر رہی ہے۔یقینا اس کی ذمہ داری سونیا اور راہول پر ہی عائد ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے شاید ہی کبھی پارٹی کی شکست‘ ہار محاذ پر ناکامی، مختلف سطحوں پر قائدین اور کارکنوں کی ناراضگی کا جائزہ نہیں لیا۔خود کا محاسبہ نہیں کیا۔ جمہوری طرز پر چلائی جانیو الی پارٹی میں تاناشاہی نظام رائج رہا۔ غلام نبی آزاد، کپل سبل اور دیگر 23قائدین کا مکتوب سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو خواب غفلت سے جگانے کا سب بنا۔ اگرچہ کہ راہول نے تردید کا کہ انہوں نے کپل سبل یا غلام نبی آزاد کی بی جے پی سے ساز باز کی کوئی بات کہی تھی اس کے باوجود ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ کے مصداق ایسی کوئی بات ضرور ہوئی جس نے سینئر قائدین کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی۔ غلام نبی آزاد 71برس کے ہیں‘ اور ان کی زندگی کے 47برس کانگریس کی خدمت میں گذر گئے۔جموں و کشمیر کے بھالیسا بلاک کانگریس کمیٹی کے سکریٹری سے جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کے صدر اور پھر آل انڈیا یوتھ کانگریس کے صدر سے مرکزی وزیر اور اب راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن کی حیثیت سے ان کی اپنی پہچان ہے۔ وہ 2006ء میں جموں و کشمیر کے چیف منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ کانگریس سے وابستگی کا خمیازہ انہیں اُس وقت بھگتنا پڑا تھا جب 1992ء میں ان کے سالے تصدق کو العمر مجاہدین نے اغوا کرلیا تھا اور تین عسکریت پسندوں کی رہائی کے عوض انہیں سہی سلامت چھوڑ دیا تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق غلام نبی آزاد کانگریس کے موقف پر ناراض ہیں کہ اس نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی برخاستگی پر جو شدید ردعمل کا اظہار کرنا تھا نہیں کیا۔ جبکہ کشمیر سے تعلق رکھے والے ایک قائد نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ 5/اگست 2019ء کو کشمیر سے موقف کے متعلق مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد جب کئی اہم کشمیری قائدین کو گرفتار کیا گیا تھا یا نظر بند رکھا گیا تھا تو اس میں ایک سابق چیف منسٹر کو شامل کیوں نہیں کیا گیا ان کا اشارہ غالباً غلام نبی آزاد کی طرف تھا جس سے یہ بدگمانی پیدا کی گئی کہ غلام نبی آزاد کے بی جے پی سے بہتر روابط ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کشمیر میں انہی قائدین کو نظربند کیا گیا جو اُس وقت کشمیر میں موجود تھے۔ البتہ شاہ فیصل کو بیرون ملک پرواز سے پہلے ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا۔بہرحال کپل سبل جیسے اہم ماہر قانون اور کانگریس کے قائد پر بھی جب الزام تراشی کی گئی اور پھر اس سے انکار کیا گیا تو اس سے کئی سوال پیدا ہوئے ہیں۔
سچن پائلٹ، سندھیا کے واقعہ کے بعد سینئر قائدین کی ناراضگی یا ان کی بے چینی کو پارٹی قیادت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس وقت کانگریس مجموعی طور پر ونیٹلیٹر پر ہے۔ اُسے آکسیجن اور نئے خون کی ضرورت ہے۔سینئر اور جونیئر قائدین کے درمیان نظریاتی اور فکری اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کا سیکولر کردار اب باقی نہیں رہا۔ 5/اگست 2020ء کو نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تو کانگریس کے سینئر قائدین نے جن میں ڈگ وجئے سنگھ قابل ذکر ہیں‘ بڑے فخر سے یہ کہا تھا کہ شیلانیاس تو راجیو گاندھی کرچکے تھے‘ اس فخریہ دعویٰ کے بعد کانگریس اخلاقی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے تائید اور ہمدردی کے حق سے بڑی حد تک محروم ہوچکی ہے۔ بدھ مذہب اختیار کرنے والی پرینکا گاندھی نے اڈوانی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اڈوانی مذہبی اعتبار سے سندھی ہے‘ مگر انہوں نے سیاسی اقتدار کے لئے رام مندر کی تحریک چلائی اور بدھ مذہب کے پیرو پرینکا گاندھی نے اب تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر بی جے پی نے سینا ٹھونک کر رام مندر کی تعمیر کی بات کہی ہے تو کانگریس وہی بات بہت سلیقے سے نرم اور ملائم لہجہ میں کہہ رہی ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ پورا ملک کورونا کی وجہ سے اپنے آپ کو تک فراموش کرچکا ہے ایسے میں CAA پر عمل آوری کے لئے دستاویزات مکمل کی جاچکی ہے۔ جو جو والینٹرس‘ کارکن اور قائدین مخالف سی اے اے تحریک میں سرگرم رہے‘ ان میں سے بیشتر کو بی جے پی میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آسام میں 20مخالف سی اے اے قائدین بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں اور دہلی میں بھی کچھ نے اپنے مفادات کی خاطر مسلم مفادات کا سودا کرلیا۔ وقتی طور پر انہیں فائدہ ضرور ہوگا مگر وہ اپنی نظر میں بھی گرے ہوں گے اور دوسروں کی نظر سے تو اٹھ نہیں پائیں گے۔ کانگریس قیادت اگر اب بھی خواب غفلت سے نہ جاگی تو وہ دن دور نہیں جب‘ یہ ماضی یا تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی۔ اس وقت بی جے پی حکومت من مانی اس لئے کرررہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کی اکثریت بھی ہے اور اپوزیشن میں کوئی دم نہیں ہے۔ اپوزیشن تعداد میں کم بھی ہو‘ مگر اس میں دم ہو تو حکومت کو کچھ بھی کرنے کیلئے سوچنا پڑتا ہے۔ جہاں تک سونیا گاندھی کو مکتوب لکھنے والے قائدین کا تعلق وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ دیر سے سہی‘ ان میں ہمت تو پیدا ہوئی۔ ان کی ناراضگی کو پارٹی سے بغاوت اس نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے پارٹی کو بچانے کیلئے یہ کام کیا!!