Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کتے جنکو بخشا گیا ذوقِ گدائی

by | Sep 16, 2020

 عبد اللہ فیصل

عبد اللہ فیصل

عبداللہ فیصل
شو مئی قسمت سے ہم جس پروفیشن سے وابستہ تھے وہاں ہفتہ میں دو تین دن ـصاحب لوگوں کے گھر جانا پڑتا تھا۔یہ وہ لوگ ہیں کہ آپ جب بھی ان کو فون کریں گے تو نوکر فون اٹھا کر یہی بولتا ہیکہ صاحب باتھ روم میں ہیں۔ہم ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھتے تھے کہ گھنٹی ہمارا ساتھی بجائے کہ اس مخلوق سے ملاقات کا اندیشہ رہتا تھا جو ان گھروں میں اکثر پائی جاتی ہے۔مخلوق سے ہماری مراد کتے ہیں ،سوئے ظن سے کام نہ لیا جائے۔اس خوف کی وجہ کیا ہے اور یہ کب شروع ہوا ہے؟ڈھونڈھنے سے بھی نہیں مل رہی ہے۔ہمارا بچپن تو با لترتیب مولویوں،بزرگوں اور کتے کے پلوں کے درمیان کزراہے۔بچپن میں پلوں سے کھیلنا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔جوانی میں بھی اوروں نے کاٹا ضرور لیکن حافظہ میں کتوں کے تعلق سے کوئی واردات محفوظ نہیں ہے۔ویسے زندگی میں ہر چیز کی لاجک نہیں ہوتی ہے۔
ویسے کتوں ہر لکھنے کا حق صرف پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی کو تھا جو وہ پورا کر چکے۔پطرس نے جو کچھ لکھا وہ اتنا شاندار ہیکہ یوسفی تک کو یہ لکھنا پڑا کہ اس مخلوق کی تخلیق کا واحد مقصد یہ تھا کہ پطرس پر ایک شاندار مضمون لکھے۔یوسفی اپنی روایتی کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں نہیں تو “سیزر ،ماتاہری اور مرزا” کا جواب نہیں۔اور کیا جملے لکھے ہیں،ماتا ہری کے بارے میں لکھتے ہیں”ایمان کی بات یہ ہیکہ چوکیداری کے لئے چنداں بری نہ تھی کہ اپنی عزت آبرو کے علاوہ ہر چیز کی بخوبی حفاظت کر سکتی تھی”یا مسٹر ایس کے ڈین کا قصہ چٹخارہ لیکر سناتے ہیں ،جنکے پاس ایک خالص “گرے ہاؤنڈ”تھا”وہ اپنے نج کے بزرگوں کو اپنے لائق نہیں سمجھتے،مگر اپنے اصیل کتے کا شجرۂ نسب پندرھویں پشت تک فرفرسناتے اور اسکے آباواجداد پر اس طرح فخر کرتے ،گویا انکا خالص خون انکی ناچیز رگوں میں دوڑ رہا ہے”رہی سہی کسر فیض صاحب نے اپنی شاہکار نظم لکھ کر پوری کردی۔اب لکھنے والا لکھے تو کیا لکھے۔گھوڑا اور کتا انسان کے سب سے پرانے رفیق ہیں۔انسان نے کتے پالنا کب شروع کیا یہ تو ہمیں پتہ نہیں لیکن فی زمانہ اسکا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔مغرب میں تو سمجھ میں آتا ہے کہ انکی اپنی مجبوریاں ہیں کہ اولاد بڑے ہوکر عموماً طوطا چشم بن جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں اب بھی نا خلف کافی کم ہیں۔گھروں کی تختیاں بھی بدلنی شروع ہو گئی ہیں ۔پہلے جہاں مہمانوں کو استقبال کی خوشخبری دکھائی دیتی تھی اب وہاں کتوں سے ساودھان رہنے کے لئے کہا جاتا ہے۔
کتوں کے تعلق سے مسلمانوں کا تعصب جگ ظاہر ہے۔یوسفی اسکا ایک منطقی جواز ڈھونڈھ کر لائے ہیں کہ “مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں،وہ کسی ایسی چیز کو محبت سے پال ہی نہیں سکتے جس کو کاٹ کر کھا نہ سکیں”تعجب اس بات پر ہوتا ہیکہ قرآن مجید میں دو جگہ اس مخلوق کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ذکرِ خیر ہی ہے۔ایک تو اصحاب کہف کا قصہ ہے کہ کس طرح انکا کتا غار پر پیر پھیلائے بیٹھا تھا۔مطلب ظاہر ہے اصحابِ کہف کے پاس کتا تھا۔دوسری جگہ انکا ذکر شکار کے تعلق آیا ہیکہ یہ جو شکار کا علم ہے اللہ کا ودیعت کردہ ہے اور اگر تم ان کو اللہ کا نام لیکر شکار پر چھوڑو گے تو اگر وہ اسکو چیر پھاڑ بھی دیں تو تمہارے حلال ہیں۔میرے خیال سے اتنی سگ گوئی کافی ہے،نہیں تو مذہب رسیدہ اور سگ گزیدہ حضرات مشتعل ہو جائیں گےکتے کی بے لوث محبت اور بے مثل وفاداری پر میرے علم کی حد تک دو شاہکار فلمیں بنی ہیں۔اطالوی ڈائرکٹر ڈی سیکا ،جس کی فلم “دی بائسیکل تھیف”نے ہر قابلِ ذکر فلم میکر کو متاثر کیا ہے،”Umberto D “نام کی ایک فلم بنائی جو ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ “امبرٹو “اور اسکے کتے کی کہانی ہے ۔امبرٹو کا اس کتے کے علاوہ دنیا میں کوئی دوست نہیں ہے۔اسکے مالی حالا ت اتنے خراب ہیں کہ وہ اپنا رینٹ بھی نہیں ادا کرسکتا ہے ۔وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی کتے کی خاطر جینے پر مجبور ہے۔ایک سماجی پسِ منظر میں جس طرح کتے اور انسان کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے وہ صرف “ڈی سیکا”کا خاصہ ہےدوسری فلم “Hachi:A Dog’s Tale”ہے ۔یہ ایک جاپانی فلم کا اڈا پٹیشن ہے اور ایک لاوارث کتےاور اسکو اڈا پٹ کرنے والے پروفیسر کے تعلقات کو بےحد خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔
دور کیوں جائیں ہمارے لیلی کا کتا بھی بہت مشہور ہے ۔آنجہانی ونود مہتا نے،جو کہ انگریزی کے بڑے جرنلسٹوں میں سے ایک ہیں،اپنے کتے کا نام ایڈیٹر رکھ چھوڑا تھا۔ دیوان بیریندرناتھ ظفر پیامی کے بارے میں حاسدوں نے اڑا رکھا تھا کہ انکا کتا اصل میں watch dog ہے اور جہاں انکی تحریروں میں کچھ کمزوری یا جھول نظر آتا ہے وہ بھونکنے لگتا ہے۔کتا انسان کا سب سے وفادار دوست ہے اور وہ اپنی دم سے وہی کام لیتا ہے جو ایک خوشامدی اور مصاحب اپنی زبان سے لیتا ہے۔کبھی آپ نے غور کیا ہیکہ اگر کتا نہ ہوتا تو اردو زبان اپنے دو محاوروں “دم ہلانے اور دم دبا کر بھاگنے سے محروم رہ جاتی”پس ثابت ہواکہ پطرس کے مضمون کے علاوہ اس مخلوق کی تخلیق کا مقصد اردو زبان کو اور مالامال کرنا تھا۔

Recent Posts

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی...

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

اور جب امارت شرعیہ میں نماز مغرب کی امامت کرنی پڑی

دانش ریاض، معیشت، ممبئی ڈاکٹر سید ریحان غنی سے ملاقات اور امارت شرعیہ کے قضیہ پر تفصیلی گفتگو کے بعد جب میں پٹنہ سے پھلواری شریف لوٹ رہا تھا تو لب مغرب امارت کی بلڈنگ سے گذرتے ہوئے خواہش ہوئی کہ کیوں نہ نماز مغرب یہیں ادا کی جائے، لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور امارت...