Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

تنشق ہندو انتہا پسندوں کے آگے سرنگوں، ہندو مسلم اتحاد والے اشتہاری ویڈیو کو واپس لیا

by | Oct 13, 2020

Tanishq withdraw interfaith harmony Video

نئی دہلی : ہندوستان میں زیوارت کی ایک معروف کمپنی کو اپنے نئے اشتہار کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ اس اشتہار میں دکھائے جانے والی مواد سے متعلق سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحثے جاری ہیں جن میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مذہبی منافرت کی باتیں واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ہندوستان میں بدلتے موسم کے ساتھ ہی تہواروں کا موسم شروع ہو رہا ہے جس کی مناسبت سے ’تنشق‘ نامی زیوارت کمپنی نے حال ہی میں اپنی نئی کولیکشن کی تشہیر کے لیے ایک اشتہار جاری کیا۔
اس اشتہار میں ایک مسلمان خاندان میں بیاہ کر آنے والی ہندو بہو کے لیے ’بیبی شاور‘ (گود بھرائی) کی رسم ادا کی جاتی ہے جس کے ذریعے انڈیا کے دونوں بڑے مذاہب کے بیچ بظاہر اتحاد کا پیغام دیا گیا ہے۔
زیورات کی یہ کمپنی ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی نے اپنے نئے زیورات کو ہندی لفظ ’ایکاتوم‘ یعنی اتحاد پکارا ہے اور اس کی ٹیگ لائن ’دی بیوٹی آف ون نیس‘ یعنی ’اتحاد کی خوبصورتی‘ رکھا ہے۔مذکورہ اشتہار میں ایک مسلمان خاندان میں گود بھرائی کی رسم ہوتی ہے جس میں ہندو بہو کو تنشق کے نئے زیورات سے آراستہ کیا جا رہا ہے اور پس منظر میں ایک نظم سنی جا سکتی ہے: ’رشتے ہیں کچھ نئے نئے، دھاگے ہیں کچے پکے، اپنے پن سے انھیں سہلائیں گے، پیار پروتے جائيں گے، اِک سے دوجا سرا جوڑ لیں گے، اک بندھن بُنتے جائیں گے۔‘
اس کے بعد بہو اپنی بظاہر مسلمان ساس سے پوچھتی ہیں: ’ماں! یہ رسم تو آپ کے گھر میں نہیں ہوتی ناں؟‘ اس کے جواب میں ساس کہتی ہیں ’پر بِٹیا کو خوش رکھنے کی رسم تو ہر گھر میں ہوتی ہے۔‘پھر نظم سنائی دیتی ہے: ’ایک جو ہوئے ہم تو کیا نہ کر جائیں گے۔۔۔ اکاتوم بائی تنشق۔‘
یہ اشتہار ہندوستان میں سخت گیر ہندوؤں کے ایک فرقے کو پسند نہیں آیا اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ تنشق‘ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے اور بہت سے لوگ یہ کہہ رہے کہ یہ ’لوو جہاد‘ کو پروان چڑھانے کی کوشش ہے۔
سوشل میڈیا پر شدید بحث کے بعد تنقش نے اس اشتہار کو ہٹا دیا ہے لیکن بحث کم ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ معروف صحافی اور عام آدمی پارٹی کے سابق امیدوار آشوتوش نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس سارے معاملے پر دُکھ کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے لکھا: ’سماج کا کچھ حصہ کتنا بیمار اور زہریلا ہو چکا ہے۔ وہ بیمار لوگ ہیں جنھوں نے اس خوبصورت اشتہار کی مخالفت کی ہے اور تنشق نے اسے ہٹا کر غلطی کی۔‘
آشو بھٹناگر نامی ایک صارف نے اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’آشوتوش جی میں آپ سے متفق ہوں۔ تنشق کو یہ ویڈیو بالکل واپس نہیں لینا چاہیے تھی بلکہ سخت گیر ہندوؤں کو جواب دینے کے لیے ایک اور ویڈیو بنانا چاہیے تھی جس میں لڑکی مُسلم ہو اور لڑکا ہندو خاندان سے ہو، تنشق کو اور آپ کو ان ہندو پرستوں کو جواب دینا ہی چاہیے۔‘
راکھی ترپاٹھی نامی ایک صارف نے لکھا: ’جو لوگ تنشق کا بائیکاٹ کر رہے ہیں کیا وہ اپنے پاس پہلے سے موجود اس کمپنی کے زیورات پھینک رہے ہیں یا اسے آدھی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ میں زیورات کی شوقین نہیں ہوں لیکن بپی لہری بننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘خیال رہے کہ بپی لہری بالی وڈ کے معروف موسیقار ہیں اور انھیں اپنے سونے کے زیوارت کے شوق کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔
کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے اس اشتہار کے بارے میں لکھا ’تو تنشق زیورات کے خوبصورت اشتہار میں ہندو مسلم اتحاد کو دکھانے پر متعصب ہندوتوا والوں نے بائیکاٹ تنشق کی اپیل کی ہے۔‘’اگر ہندو مسلم ایکاتوم (اتحاد) انھیں اس قدر بُرا لگتا ہے تو وہ دنیا میں ہندو مسلم کے اتحاد کی سب سے بڑی علامت انڈیا کو ہی کیوں نہیں ختم کر دیتے۔‘ان کے جواب میں بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ ’آپ یکطرفہ اتحاد چاہتے ہیں۔‘
معروف صحافی صبا نقوی نے اس تنازع کے متعلق ٹویٹ کیا ’تنشق نے ایک اچھا اشتہار بنایا تھا۔ افسوس کے ٹاٹا جیسے طاقتور گروپ کو سوشل میڈیا پر چلنے والے منافرت کے ٹرینڈ کے سامنے جھکنا پڑا۔ وہ اگر اس نفرت کے خلاف کھڑے ہوتے تو اور مضبوط ہوتے لیکن وہ بہت کمزور ثابت ہوئے۔‘بہت سے لوگ اس اشتہار کو واپس لیے جانے کو ہندوؤں کی جیت سے تعبیر کر رہے ہیں اور ان کے حوصلے بلند نظر آ رہے ہیں۔
مصنف اور مشیر میتا سینگپتا نے سوال کرتے ہوئے لکھا ’کیا تنشق کے خلاف تب بھی ایسا ہی رد عمل ہوتا اگر انھوں نے کرداروں کے مذاہب تبدیل کر دیے ہوتے؟‘اس کے بعد کے ایک ٹویٹ میں وہ لکھتی ہیں کہ اتنے سارے جواب آئے کہ وہ انھیں ’ہینڈل نہیں کر سکتی ہیں۔‘ان کے سوال کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’سوشل میڈیا پر کوئی رد عمل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد تنشق کی کوئی دکان ہی موجود نہ رہتی۔‘
اسی طرح کھیم چند شرما نے میتا سین گپتا کے جواب میں لکھا ’اگر تنشق نے مذہب تبدیل کر دیا ہوتا تو چند گھنٹوں میں ان کی دکانیں جلا دی جاتیں اس لیے وہ صرف ہندوؤں کو ہی نشانہ بنائیں گے۔‘اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں منگل کے روز ’ہندو مسلم‘ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس میں بھی منافرت، مفاہمت اور ہم آہنگی پر مباحثہ جاری ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...