لائف انشورنس کو سمجھنا ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت

ڈاکٹر علیم خان فلکی،صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

ڈاکٹر علیم خان فلکی
ڈاکٹر علیم خان فلکی

کیا وجہ ہے کہ یوں تو بے شمار بدترین حرام جیسے جھوٹ، جہیز، رشوت، سود، لوٹ، چوری وغیرہ میں تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں ملوّث ہے لیکن جیسے ہی لائف انشورنس کا نام آتا ہے ہر ایک کی زبان پر پہلے ”حرام۔۔ناجائز۔۔۔“ آتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ لائف انشورنس کے حلال یا حرام، جائز یا ناجائز کے ہونے پر بحث کی جائے۔ بلکہ یہ ہے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت اور افلاس کو روکنے کے لئے شرعی حدود میں لائف انشورنس کس حد تک مدد کرسکتا ہے، اس کا جائزہ لیا جائے، اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کو فوری حرام یا ناجائز سمجھنے کے پیچھے ان سائیکالوجیکل یا تاریخی محرکات کا پتہ چلایا جائے جس کی وجہ لوگوں کو دوسرے حرام کاموں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن لائف انشورنس پر اچانک انہیں اپنے ایمان سے خارج ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے، لوگ اس موضوع پر تحقیق کرنا یا کم از کم پڑھنا بھی نہیں چاہتے، اس کی کیا وجہ ہے؟
راقم الحروف کی اس موضوع پر ایک تحقیقی تصنیف Life Insurance and Muslims تقریباً دس سال پہلے شائع ہوئی تھی، اکثر احباب کا اصرار تھا کہ اس کو اردو میں شائع کیا جائے، جسے اب شائع کیاگیا ہے۔ ان تمام علما اور دانشوروں کی آرا کو اس میں جمع کیا گیا ہے جن کے ذریعے اس مسئلے کو دورِ حاضر میں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، جیسے مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مفتی سعید احمدؒ دارالعلوم وقف دیوبند، سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ، مولانا اقبال احمد سہیل، سرسید احمد خان، جامعہ نظامیہ، ندوۃ العلما، الشیخ عادل اصلاحی سلفی، مفتی ظفیرالدین دارلعلوم دیوبند وغیرہ۔ اس کتاب کو پوری پڑھے بغیر لائف انشورنس پر کوئی منفی یا مثبت تبصرہ کرنا اپنے آپ سے بھی اور ملت کے ساتھ بھی ایک زیادتی ہوگی۔ یہاں صرف چند سوالات پیش کیئے جارہے ہیں، جن کے جوابات کتاب میں دیئے گئے ہیں۔
سوال ۱: NCRB کی رپورٹس جو گوگل پر موجود ہیں، اس کے مطابق ہر روز پورے ملک میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 408 ہے، زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی ہزار میں ہے، قتل 80 ہر روز، ریپ 91 ہر روز، دیگر اموات ناگہانی جیسے ہارٹ، گُردے، دماغ وغیرہ کے فیلیر کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد جو دواخانوں کے مطابق 1700 ہر روز ہے۔ فسادات، کرونا، ڈینگو، ایڈز، زلزلہ، بارش، سیلاب، لِنچنگ، وغیرہ میں مرنے والوں کی تعداد کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی سینکڑوں میں ہیں۔خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 2.3 لاکھ ہے۔ ان تمام اموات میں، تناسب کے لحاظ سے ہر بڑے شہر میں ہر روز 20-25 آدمی مرتے ہیں تو ان میں کم سے کم 4-5 مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز 4-5 عورتیں بیوا ہوتی ہیں، 5-10 بچے یتیم ہوتے ہیں اور کئی بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ کے شہر میں کوئی جماعت، بیت المال، کوئی صاحبِ خیر امیر آدمی ایسے ہیں کہ ہر خاندان کو مکمل بے چارگی اور غربت سے باہر نکال دیں؟، کیا آپ کی ملت میں اتنی زکوٰۃ نکل جاتی ہے کہ ہر روز اتنی بڑی تعدا د میں بے سہارا ہونے والے خاندانوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے؟ اپنے آپ کو اس خاندان کی جگہ رکھ کر سوچئے جس کا کمانے والا صبح گھر سے نکلا اور شام گھر نہ لوٹا، صرف اس کے مرنے کی اطلاع آئی تو سوچئے اب اس گھر پر کیا گزرے گی۔ اب اس خاندان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے صرف چند صورتیں رہ جاتی ہیں۔ 1۔ عورت نوکری کرے، بچے تعلیم ادھوری چھوڑدیں۔ جب ایک مجبور عورت نوکری ڈھونڈھنے مردوں کے پاس جاتی ہے تو مردوں کے ذہنوں میں کیا کیا چلنے لگتا ہے، اس سے ہر مرد واقف ہے۔ پھر مرحوم کی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے چندہ، خیرات جمع کیا جائے۔ 2۔ عورت اپنے بچوں کو ان کے چچا، تایا یا ماموں کے حوالے کرے اور خود شادی کرلے۔ 3۔ مرنے والا اپنی زندگی میں یا تو کوئی جائداد یا کاروبار چھوڑ کر جائے یاپھر کم سے کم کوئی انشورنس پالیسی چھوڑ کر جائے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا جائز ہے، بھیک؟ بچوں کی تعلیم ختم کرکے انہیں معمولی نوکریاں کروانا؟ بیوی کو باہر نکلنے پر مجبور کرنا؟ خاندان کو چچا، ماموں وغیرہ یا زکوٰۃ و خیرات پر زندگی گزارنے پر چھوڑ دینا یا پھر آپ کی کمائی سے اپنے خاندان کے لئے ایسا انتظام کردینا جس سے ان کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آئے؟۔
کل قیامت میں ایسی تمام بیوائیں اور یتیم ان تمام کا دامن پکڑیں گے جنہوں نے مرنے والوں کے دماغ میں یہ تو بٹھادیا کہ لائف انشورنس حرام ہے، لیکن اس کا نہ کوئی متبادل دیا اور نہ اس کے متبادل کو قائم کرنے کی کوئی کوشش کی۔ اور وہ تمام لوگ بھی پکڑ میں آئیں گے جنہوں نے مرنے والے کویہ نہیں سمجھایا کہ جس طرح ہر ماہ بجلی اور پانی کا بِل بھرنا ضروری ہے، بچوں کی فیس اور گھر کا کرایہ دینا ضروری ہے، اسی طرح اپنی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر خاندان کے مستقبل کی حفاظت کے لئے پریمیم بھی دینا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت و افلاس جس نے ان کے دین، اخلاق اور وجود کو تباہ کردیا ہے، اس کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ رِسک لینے کو جائز ہی نہیں سمجھتے۔مثال کے طور پر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنے سے مسلمان اس لئے ڈرتا ہے کہ اگر نقصان ہوجائے تو؟، اگر کاروبار کو آگ لگ جائے، پارٹنر دھوکہ دے دے، ادھار لینے والے پیسہ وقت پر واپس نہ کریں، فساد میں تباہ ہوجائیں، کرین الٹ جائے یا مزدور مرجائیں یا کچھ اور ہوجائے تو نقصان کہاں سے پورا کیا جائے؟، چونکہ ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ انشورنس تو حرام ہے اس لئے جب پیچھے سے کوئی طاقتور مدد نہ ہوتو کاروبار تو کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لئے مسلمان صرف نوکری کرنے، یعنی غلامی کرکے ہاتھ پھیلا کر تنخواہ لینے یا پھر بہت ہی چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے پر مجبور ہے۔
سوال 2۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بڑھاپے میں پہنچنے والوں کے ساتھ بیٹے اور داماد کیا سلوک کرتے ہیں، ہزار میں ایک بچہ Hidden deseases کا شکار پیدا ہوتا ہے، طلاق کے نتیجے میں بے ماں یا بے باپ کے ہوکر سینکڑوں بچے تباہ ہوجاتے ہیں، شادیوں میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے لوگوں کی پوری عمر کی کمائی لُٹ جاتی ہے، ہزاروں یتیم لڑکے اور لڑکیاں صرف غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں، جہیز کی وجہ سے ہونے والے ڈومیسٹک تشدّد کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کا ذہنی سکون غارت ہوجاتا ہے، لڑکیوں کے بھائی سب کچھ بہنوں کے جہیز میں دے کر کنگال ہوجاتے ہیں اورکرائم پر اتر آتے ہیں؟ اگر یہی روش باقی رہی تو یہ قوم آئندہ پندرہ بیس سال میں کہاں کھڑی ہوگی کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے؟ ان تمامسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ ہر شخص پہلے اپنا، اپنے بچوں کا،اور اپنے بوڑھے ماں باپ کا انشورنس کروائے، تاکہ اس کی موت، حادثہ، معذوری، بیوی سے طلاق، یا بڑھاپے کی وجہ سے اس کے متعلقین کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
سوال3۔ کیا پرانی فقہ اِس عہدِ جدید کے مسئلے کو حل کرنے کے کے لئے رہنمائی کرسکتی ہے؟ یہ سوال ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ”انشورنس۔ اسلامی معیشت میں“ میں اپنے مقدمے میں اٹھایا ہے۔ کیونکہ فقہ یا تفقہ فی الدین جس کو کامن سینس کہاجاسکتا ہے، قرآن و سنت کی حقیقی معنوں میں اسی وقت ترجمان ہوگی جب وہ عہدِ موجود کے مسائل کو قرآن و سنت کے اصل منشا Ultimate goal کو سامنے رکھ کر فقہی اصول و ضوابط بنائے۔ فقہ کا اہم ضابطہ یہ ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس چیز پر فتویٰ دیا جارہا ہے وہ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اس سے انصاف قائم ہوتا ہے یا حقوق کی پامالی ہوتی ہے؟ اس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا حقدار کو اس کا حق ملتا ہے۔ جب ائمہ اور علماءِ متقدمین نے سود کی تعریف اور اس کے بارے میں فتوے جاری کئے تھے اُس وقت اگرچہ عہدِ رسالت کے وہ طریقے بنیا د تھے جس سوال3۔ کیا پرانی فقہ اِس عہدِ جدید کے مسئلے کو حل کرنے کے کے لئے رہنمائی کرسکتی ہے؟ یہ سوال ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ”انشورنس۔ اسلامی معیشت میں“ میں اپنے مقدمے میں اٹھایا ہے۔ کیونکہ فقہ یا تفقہ فی الدین جس کو کامن سینس کہاجاسکتا ہے، قرآن و سنت کی حقیقی معنوں میں اسی وقت ترجمان ہوگی جب وہ عہدِ موجود کے مسائل کو قرآن و سنت کے اصل منشا Ultimate goal کو سامنے رکھ کر فقہی اصول و ضوابط بنائے۔ فقہ کا اہم ضابطہ یہ ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس چیز پر فتویٰ دیا جارہا ہے وہ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اس سے انصاف قائم ہوتا ہے یا حقوق کی پامالی ہوتی ہے؟ اس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا حقدار کو اس کا حق ملتا ہے۔ جب ائمہ اور علماءِ متقدمین نے سود کی تعریف اور اس کے بارے میں فتوے جاری کئے تھے اُس وقت اگرچہ عہدِ رسالت کے وہ طریقے بنیا د تھے جس میں گیہوں کے بدلے گیہوں وغیرہ کی پیچیدہ روایتیں تھیں جو اس وقت کے لوگوں کے لئے آسانی سے سمجھ میں آجانے والی تھیں کیونکہ یہ اس وقت کا چلن تھا۔ لیکن فقہ کا یہ بھی اصول ہے کہ عہد، مقام اور حالات کے بدلنے کے ساتھ فتویٰ دینے کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ اب دور بدل چکا ہے، آبادی، وسائل، کمیونیکیشن، ٹکنالوجی، کمائی اور خرچ کے طریقے اور ذرائع اور ان کے ساتھ ساتھ انفارمیشن بدل گئی ہے۔ اب نئے حالات میں قرآن و سنت کو صحیح Interprete کرنے کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حضرت عمرؓ کے کئی فیصلے جو عہدِ رسالت کے رواج سے مختلف ہوتے تھے، ان کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کتاب میں کئی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے قرآن اور سنت کا اصل منشا پیشِ نظر تھا، عہدِ رسالت کا رواج نہیں۔ لیکن سود یا انشورنس ہی نہیں، کئی معاملات میں آج تک ہم صدیوں پرانی کتابوں میں آج کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں، اور اجتہاد کے دروازے خود پر بھی اور دوسروں پر بھی بند کرچکے ہیں۔
سوال 4۔ کیا عہدِ رسالت میں جو سود کی شکل تھی جسے حرام ہی نہیں، اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے برابر، ماں سے زنا کرنے کے برابر قرار دیا گیا، کیا لائف انشورنس میں سود کی شکل وہی ہے؟ محض لفظ سود کے شبہ میں سود کی حرمت کی یہ شدید آیات اور حدیثیں ہم جو ہر ”اضافی رقم Additional amount پر اسٹامپ کیئے جاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ کاروبار میں وصول ہونے والی اضافی رقم میں اور غریب اور مفلس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس سے قرض سے زیادہ وصول کی جانے والی اضافی رقم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس تفصیل کے لئے علما کرام کی تحقیق اِس کتاب میں پڑھنی پڑھے گی۔
سوال 5۔ کیا سود کے احکام ایک مسلم ملک میں اور ایک دارالحرب میں یکساں ہوں گے؟ پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا کہ ”لا ربوا بین المسلم والحربی فی دارالحرب“؟یعنی دارلحرب میں مسلمان اور کافر کے درمیان سود، سود نہیں ہوتا۔ دارلحرب کی تعریف کیا ہے، یہ ایک طویل بحث ہے جس کو کتاب میں پڑھاجاسکتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ وہ ملک جہاں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہ ہو، حاکم مخالفِ اسلام ہو اور عدالتوں کے فیصلے خلافِ شریعت ہوں۔ علما کا ایک طبقہ اس حدیث کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، جب کہ ایک طبقہ اسی حدیث کی بنیاد پر ہندوستان سے بنک کے لین دین اور انشورنس کو جائز قرار دیتا ہے؟ یہاں ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کو تفقہ فی الدین یعنی کامن سینس کا استعمال کرکے، مسلکی اور عقائد کے تعصب سے باہر نکال کر غیرجانبداری سے دونوں علما کے دلائل کو پڑھ کر ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔
سوال 6۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ”سود کی آیات عہدِ رسالت کے آخری دور میں نازل ہوئیں، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ان کی تشریح فرماتے، آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے“۔ یہ قول ابن ماجہ، مسند احمد، ابن کثیر نے نقل کئے، اسے سلفی ادارے دارالسلام ریاض نے ”سیرت عمر فاروقؓ“ میں جلد اول صفحہ 416 پر شائع کیا، یہ کتاب ڈاکٹر محمد الصلابی نے لکھی ہے۔ یہ نکتہ معمولی نکتہ نہیں ہے۔ سود کی تعریف متعین کرنے اور موجودہ ہندوستان میں بنک اور انشورنس کو ڈیل کرنے کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
سوال7۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لائف انشورنس ایک جوّا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، الشیخ عادل اصلاحی، اور دوسرے اس دعوے کو یکسر رد کردیتے ہیں کیونکہ جوّا ایک ایسا رِسک ہے جو دانستہ لیا جاتا ہے، اگر نہ لے تو کوئی نقصان نہیں ہوتا، اِس سے ایک خاندان ہی نہیں پورا معاشرہ برباد ہوتا ہے، ایک آدمی کی جیت کئی لوگوں کے ہار کی وجہ سے ہوتی ہے، اس میں آدمی کی نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ میں جیت جاؤں، باقی جائیں جہنم میں۔ لیکن اس کے برعکس انشورنس اگرچہ یہ بھی ایک رِسک ہے لیکن اس میں سب کا فائدہ ہوتا ہے نقصان کسی کا نہیں ہوتا، اس سے ہزاروں نہیں لاکھوں خاندان پلتے ہیں، معاشرے میں اپنی جان اور مال کی حفاظت کے ساتھ کاروبار میں مزید لگن، محنت اور ترقی کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ اس سے پوچھئے جسے دواخانے کا لاکھوں کا بِل دینا نہیں پڑا، جو حادثہ میں مالی نقصان سے محفوظ رہا، جس خاندان کو بروقت مدد کی وجہ سے گھربیچنا نہیں پڑا، جس کو ساری زندگی وظیفہ ملتا رہا، اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی بیوی کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑا۔
سوال 8۔ لوگ لائف انشورنس کو غرر یعنی Ambuiguity, Speculation کہتے ہیں۔ یعنی جس چیز کی ڈیل ہورہی ہے وہ غیر یقینی یعنی اس میں Uncertainty ہو، جیسے بھینس پانی میں ہے اور اس کا سودا کرلینا، انشورنس میں غیریقینی کوئی بات نہیں۔ ہر بات لکھی ہوتی ہے۔
سوال 9۔ لائف انشورنس پر اعتراض کی وجہ کیا ہے؟ یہ سبب 160 سال پرانا ہے، جب انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت ختم کرکے بے شمار مظالم ڈھائے، ان سے جنگ آزادی یعنی جہاد جب ڈیکلیر کردیا گیا، اس وقت قوم میں جذبہ جہاد کو پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انگریز کی ہر چیز کو حرام قرار دیا جائے۔ بنک، انشورنس ہی نہیں انگریزی تعلیم، عورتوں کی تعلیم، کالج اور یونیورسٹی، فیملی پلاننگ، ٹائی سوٹ وغیرہ، اِن ساری چیزوں کو حرام ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا، انگریز تو چلا گیا لیکن اس دور کے فتوے باقی رہ گئے۔انشورنس اور بنکنگ کے جائز ہونے پر اہلِ سنت الجماعت کے علما کا فتویٰ موجود ہے جسے جامعہ نظامیہ،حیدرآباد اور ندوۃ العلما لکھنو نے 1990 میں جاری کیا۔ دیوبند تقسیم ہے۔ ایک گروہ سخت مخالف ہے، لیکن دوسرا گروہ جو مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قیادت میں اس بات کا قائل ہے کہ رفع ضرر کے لئے اپنی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی خاطر انشورنس خریدا جاسکتا ہے۔ اس فتوے پر تقریباً 55 علما بشمول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے دستخط کئے ہیں۔ اسی طرح اہلِ حدیث یعنی سلفی مسلک بھی دو گروہوں میں منقسم ہے۔ چونکہ انشورنس کا بزنس سعودی عرب میں سب سے زیادہ نفع بخش بزنس ہے، اس لئے شاہی خاندان اور دوسرے امیر سعودیوں کا کئی ملین رہال کا اس بزنس میں انوسٹمنٹ ہے۔ ہر کمپنی کی گورننگ باڈی میں علما شریک ہیں جو شرعی حدود کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ تمام علما نہ صرف انشورنس کی تائید میں ہیں بلکہ اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ علما ہیں جیسے الشیخ عبدالعزیزبن بازؒ، الشیخ عثیمینؒ اور الشیخ الفوزان وغیرہ، جن کے شاگردوں کی تعداد ساری دنیا میں ہزاروں میں ہے، یہ شیوخ کسی بھی قسم کے انشورنس یعنی لائف، جنرل، کار اور میڈیکل کو یکسر حرام قرار دیتے ہیں۔ ان کے فتوے جو www.islam-qa.com پر شائع ہوتے ہیں، ان فتوؤں کا ایک جائزہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ EMI جو شریعت کی نظر میں سخت مشتبہ کاروبار ہے، سعودی علما کے نزدیک جائز ہے۔
ایسے کم سے کم پچاس اور سوالات ہیں جن کا جواب اِ س کتاب میں مل جائیگا جیسے کیا ہر اضافی رقم سود ہے؟سعودی عرب یا پاکستان کے فتوے ایک غیرمسلم ملک جیسے ہندوستان ہے، اس پر کیا لوگو ہوسکتے ہیں؟مسلم ممالک میں اسلامی انشورنس ”تکافل“ ناکام کیوں ہے؟لائف انشورنس کی ماہیت کیا ہے؟مسلمانوں نے کافربنکوں کا اپنے سود کو چھوڑ کر کتنے ہزار کروڑ روپیہ کا فائدہ کیا ہے؟ لائف انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا ہر سال کتنے ہزار کروڑ کانقصان ہوتا ہے؟ اکثر لوگ اعتراضات کرتے ہی کہ لائف انشورنس میں غِش، غبن، وراثت میں ناانصافی، خلافِ توکّل، خلاف عقیدہئِ تقدیر، عیاشی، صرف کمپنی کا فائدہ، بوڑھوں کا نقصان، موت سے غفلت، زندگی کی ضمانت، پالیسی خریدنے والے کا قتل، سازش، وغیرہ پائے جاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟اگر مسلمان اپنی خود ایک لائف انشورنس کمپنی یا بنک قائم کرنا چاہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات مختلف علما اور دانشوروں کی آرا کی روشنی میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو 7097475916 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قارئین جن کی عمریں لائف انشورنس کروانے کی عمر سے آگے نکل چکی ہیں، وہ لوگ کم سے کم یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنی اولاد اور اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کو لائف انشورنس سے ناواقف رہنے کے نقصانات سے آگاہ کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ کیونکہ جو بھی یہ کہے گا کہ یہ ناجائز ہے، آپ ان سے پوچھئے کیا آپ نے اس کی تحقیق کی ہے؟ تو وہ یہی کہے گا کہ نہیں، میں نے صرف یہ سنا ہے۔
بقول اقبال
شیر مردوں سے ہوا پیشہئ تحقیق تہی
رہ گئے صوف و ملّا کے غلام ائے ساقی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *