سہیل انجم
مہاراشٹرامیں مندروں کو کھولنے کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے نام گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ایک مکتوب نے ایک تند و تیز بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ بحث یہ ہو رہی ہے کہ ایک گورنر کو آئین کا پابند ہونا چاہیے یا اپنے مذہبی اعتقاد کا اور یہ کہ گورنر راج بھون میں صدر کا نمائندہ ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا۔ دراصل ریاستی حکومت نے گیارہ اکتوبر کو ریاست میں شراب خانوں، ریستورانوں اور ساحل سمندر کو کھولنے کی اجازت دے دی لیکن عبادت گاہوں کو بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس پر گورنر نے بارہ اکتوبر کو وزیر اعلیٰ کے نام ایک مکتوب ارسال کیا اور ان کو عبادت گاہوں کو کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ ایک طرف حکومت مذکورہ مقامات کو کھول رہی ہے اور دوسری طرف ہمارے دیوی دیوتا اب بھی تالے میں بند ہیں۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ ”آپ ہندوتوا کے بہت بڑے طرفدار رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ نے ایودھیا جا کر بھگوان رام کے تئیں اپنی عقیدت کا عوامی اظہار کیا تھا۔ آپ نے پنڈھرپور میں وٹھل رکمنی مندر کا دورہ کیا اور اساڑھی ایکادشی کی پوجا کی۔ حیرت ہے کہ کیا آپ کو عبادت گاہوں کو بند رکھنے کے لیے دیوی دیوتاو ں کا آدیش مل رہا ہے یا اچانک آپ سیکولر ہو گئے ہیں، جس سے آپ نفرت کرتے تھے“۔ اودھو ٹھاکرے نے ان کے اس خط کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ان سے سوال کیا کہ ”کیا آپ کے نزدیک عبادت گاہوں کو کھولنا ہندوتوا وادی ہونا اور ان کو بند رکھنا سیکولر ہونا ہے؟ یا پھر آپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سیکولرزم، جس کا آپ نے بحیثیت گورنر حلف اٹھایا ہے، آئین کا ایک اہم اصول ہے“۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے ہندوتوا کے لیے آپ سے سرٹی فکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
گورنر کے اس انداز تخاطب پر متعدد سیاست داں اور ماہرین آئین و قانون حیران ہیں۔ انھوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور یہ جاننا چاہا ہے کہ کیا گورنر کوشیاری کو آئین پر یقین نہیں ہے۔ این سی پی کے صدر شرد پوار نے وزیر اعظم نریند رمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے نام ایک مکتوب لکھ کر گورنر کے خط میں اختیار کی گئی زبان پر اپنی حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ یہ زبان گورنر کے منصب پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتی۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنر کا خط کئی لحاظ سے آئینی ادارے کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ گورنر کا کام حکومت کے مشورے پر عمل کرنا ہے نہ کہ حکومت کے کاموں میں مداخلت کرنا۔ دوسری بات یہ کہ انھوں نے خط میں جو کچھ لکھا ہے وہ بی جے پی کی جانب سے مندروں کو کھولنے کے لیے چلائی جا رہی مہم کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اس زبانی جنگ کے درمیان بی جے پی نے مندروں کو کھولنے کی ایک مہم شروع کر دی ہے۔ اس نے ممبئی، پونہ اور کولھاپور میں اس کے لیے احتجاج کیا ہے۔ ماہر آئین پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عبادت گاہیں کھلیں گی یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار وزیر اعلیٰ کو ہے گورنر کو نہیں۔ گورنر نے آئین و قانون کی حفاظت کا جو حلف اٹھایا ہے وہ اب اس سے الگ ہٹ کر باتیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا آئین میں لفظ سیکولر موجود نہیں ہے۔ گورنر نے جس طرح لفظ سیکولر کا مذاق اڑایا ہے وہ ان کے آئینی عہدے کے برعکس ہے۔ گورنر کے ذریعے سیکورلزم کا استہزا اڑانے پر متعدد بڑے اخباروں نے بھی اعتراض کیا ہے اور انھوں نے اداریے تحریر کرکے گورنر کے رویے پر اظہار افسوس کیا ہے۔ان اخباروں میں روزنامہ دی ہندو، ہندوستان ٹائمس، دی انڈین ایکسپریس اور ڈکن ہیرالڈ جیسے بڑے اخبارات بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گورنر کا خط انتہائی غیر معتدل ہے۔ آئین کے مطابق ایک وزیر اعلیٰ کے کام کاج میں اس کے مذہبی اعتقاد کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ گورنر اور وزیر اعلی کے درمیان مراسلت باعزت طریقے سے اور آئین کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ گورنر نے سیکولرزم کو مندروں کو مقفل کرنے سے جوڑ کر سیکولرزم کی اہانت کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج سیکورلزم ایک بہت بڑے طبقے کے لیے متنازعہ ہو گیا ہو لیکن وہ آئین میں مو جود ہے۔ لہٰذا اس کی توہین کرنا آئین کی توہین کرنا ہے۔ بھگت سنگھ کوشیاری کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے پانچ ستمبر 2019 کو اسی آئین کا حلف لیا تھا جس کی تمہید میں لفظ سیکولر موجود ہے۔ وزیر اعلیٰ کو انھیں یہ یاد دلانا کہ انھوں نے آئین کا حلف لیا ہے برجستہ اور مناسب ہے۔ جبکہ شیو سینا نے گورنر سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ گوا کے مندروں کو کھولنے کے لیے بھی ایسا مکتوب لکھیں گے۔ کوشیاری گوا کے بھی گورنر ہیں اور گوا میں بھی مندر ہنوز مقفل ہیں۔ اس نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے گورنر کو واپس بلانے کی اپیل بھی کی ہے۔
گورنر کے خط اور اس کی زبان پر لوگوں کا اعتراض اپنی جگہ پر۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھ رہے ہوں کہ گورنر نے جان بوجھ کر یہ زبان استعمال نہیں کی بلکہ یہ سبقت لسانی ہے وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ گورنر نے جو کچھ کہا ہے بہت سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے بعد کہا ہے۔ وہ سیاست کا پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس میں ان کی جڑیں ہیں۔ وہ آر ایس ایس کے ورکر اور پرچارک رہے ہیں۔ ایم پی، ایم ایل اے اور ایم ایل سی رہے ہیں۔ وہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کا منصب بھی سنبھال چکے ہیں۔ لہٰذا ان سے کسی غفلت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انھوں نے اُس سوچ کو آگے بڑھایا ہے جو اُن کے علاوہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے تمام بڑے رہنماو ں کی ہے۔ بی جے پی جس سیاسی نظریے کی پروردہ ہے اس کی بنیادی روح ہندوتوا ہے۔ بی جے پی سیکولرزم کے مقابلے میں ہندوتوا یا ہندو قوم پرستی کو آگے بڑھاتی رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہونا چاہیے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملنے کے بعد 23 مئی 2019 کو بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر پارٹی کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ”ہندوستانی سیاست میں ایک طویل عرصے سے ایک ڈرامہ چلا آرہا تھا اور وہ ڈرامہ تھا سیکولرزم کے نعرے کا۔ لوگوں نے سیکولرزم کا مکھوٹہ پہن رکھا تھا۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ اب کسی میں ہمت نہیں ہے کہ وہ سیکولرزم کا نام لے لے“۔ بی جے پی اقتدار میں آنے کے پہلے سے ہی سیکولرزم کے نام پر مخالف پارٹیوں کو برا بھلا کہتی اور ان کو نقلی سیکولرسٹ ہونے کا طعنہ دیتی رہی ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے۔ یعنی اسٹیٹ کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ البتہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرے گا۔ لیکن بی جے پی حکومت نے ہندوتوا کو اسٹیٹ کے ایک مذہب کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔ ایک مثال کافی ہوگی کہ مرکز کی جانب سے حج سبسڈی کے خاتمے کے بعد آسام حکومت سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے جا رہی ہے۔ جبکہ حکومت کمبھ میلے پر 4200 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ آج حکمراں طبقے کو ہندو مذہب کے اجتماعات میں شرکت سے کوئی پرہیز نہیں ہے بلکہ وہ اس کو اور فروغ دے رہا ہے۔ وزیر اعظم کے ذریعے رام مندر کا شلا نیاس اس کا بہت واضح ثبوت ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سیکولرزم کو دفن کرنے کا سہرا صرف بی جے پی کے سر نہیں ہے۔ کانگریس، ایس پی اور بی ایس پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اس کی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ نریندر مودی نے مسلمانوں کی انتخابی حیثیت، اہمیت اور قیمت کو ملیا میٹ کر دیا ہے اور اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ ہر اپوزیشن جماعت اس ڈر سے کہ کہیں اسے مسلمانوں کی پارٹی نہ کہہ دیا جائے اور ان سے ہندو ووٹ ناراض نہ ہو جائے، مسلمانوں کی آواز اٹھانے سے گھبراتی ہے۔ کانگریس جب سے اس تنازع میں پھنسی ہے، خاص طور پر انتخابات کے مواقع پر خود کو ایک سیکولر پارٹی کے بجائے ایک ہندو پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے پر مجبور پاتی ہے۔ لہٰذا بھگت سنگھ کوشیاری نے جو کچھ کہا ہے ناپ تول کر کہا ہے۔ اس کا ایک مقصد مہاراشٹرا میں ہندوتوا نواز طبقات کو یہ باور کرانا بھی ہے کہ شیو سینا اب ہندوتوا وادی پارٹی نہیں رہ گئی۔ ہندوتوا وادی پارٹی صرف اور صرف بی جے پی ہے۔

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع
ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...