بہار اسمبلی الیکشن :ہستئی قوم ہے حقیقی

ڈاکٹر سید ظفر محمود
آنے والے دنوں میں بہار اسمبلی کے لئے الیکشن ہونے جا رہے ہیں‘ہمارے لئے وہاں کے انتخابی حلقوں کا ناک نقشہ دلچسپ ہے۔ کل 243 انتخابی حلقوں میں سے مردم شماری کے مطابق کوچہ دھامن(کشن گنج) اور امور(پورنیہ) اسمبلی حلقوں میں ملی آبادی 74% ہے‘ بائیسی میں 69%‘ بہادرگنج میں 68%‘ کشن گنج میں 64% اور ٹھاکرگنج میں 63% ہے۔ ارریہ پارلیمانی سیٹ کے جوکی ہاٹ اسمبلی حلقہ میں ملی آبادی 68% ہے ‘ کٹیہار پارلیمانی سیٹ کے بلرام پور اسمبلی حلقہ میں 65% ہے۔کشن گنج اسمبلی حلقہ میں یہ آبادی 64% ‘ ٹھاکر گنج میں 63%‘ ارریا میں 59%‘ پران پور میں 50%‘ کڈوا (کٹیہار)اور قصبہ (پورنیہ)میں 45%‘ فوربس گنج (ارریا) میں 35%‘ بسفی (مدھو بنی) اور ڈھاکہ (مشرقی چمپارن) میں 34% ‘سکتی (ارریہ) ‘کیوٹی (دربھنگا)اور باج پٹی (سیتا مڑھی)میں 33% ‘ جالے (دربھنگا)میں 32%‘ براری (کٹیہار) میں 31%‘ بھاگل پور اور مشرقی چمپارن ضلع کے سکتااور نرکٹیا گنج میں 30%‘پورنیہ ‘ پری ہار (سیتا مڑھی)‘ سیوان اور کٹہار میں 28%‘ دربھنگہ‘ برہڑیا (سیوان)اور بیٹیا (مشرقی چمپارن) میں 27%‘ نرپٹ گنج (ارریا)‘ گورا بوڑم (دربھنگہ)میں 26%‘سگولی (مشرقی چمپارن) اور رگھو ناتھ پور (سیوان) میں 25%‘ بہار شریف (نالندہ)‘ مدھوبنی ‘ناتھ نگر(بھاگل پور)اور سرسند (سیتا مڑھی)میں 24%‘چھاتا پور (سپول)‘ رکسول (مشرقی چمپارن)‘ علی نگر (دربھنگہ)اور برولی (گوپال گنج) میں 23%‘ گیا شہر‘مشرقی چمپارن ضلع کے چنپٹیا اور لوریااور مظفر پورضلع کے کانتی حلقہ میں 21% ‘سیتا مڑھی ‘کہل گائوں(بھاگل پور)اور ہتھوا (مظفر پور) اور دھم دہا (پورنیہ) میں ملی آبادی 20%ہے۔یہ کل 54 اسمبلی حلقے ہیں۔ اس کے علا وہ بانکا‘ شیو ہار‘سہرسا‘ ویشالی‘ بیگو سرائے‘ روہتاس‘ سارن‘نوادا‘گیا ‘سیوان‘مظفر پور‘ دربھنگہ‘ مدھو بنی‘ مشرقی چمپارن‘ سپول اور پٹنہ کے 41 دیگراسمبلی حلقوں میں ہماری آبادی 15-19% ہے۔ ان ضلعوں کے علاوہ جموئی‘ اورنگ آباد‘منگیر‘ مادھے پورہ‘کھگڑیہ ‘ بھوج پور‘ کیمور ‘ جہان آباد‘سمستی پوراورارول ضلعوں کے مزید93 اسمبلی حلقوں میں 10-14% ہے۔
اس پس منظر میں ذرا غور کریں کہ2015 کے الیکشن میں اسمبلی حلقہ پران پورمیں جہاں آپ 50% ہیں آپ کا ووٹ بٹ گیا اور آپ اپنی پسند کا امید وار نہیں چن سکے۔ کڈوا میں ملی آبادی 45% ہے وہاں آپ کی پسند کے امیدوار کی جیت کا مارجن معمولی ہی تھا‘ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ فوربس گنج میں آپ کی آبادی 35%ہے لیکن گذشتہ تین انتخابوں سے آپ اپنے ووٹ کو مستحکم نہیں کر پار ہے ہیں ‘ اب تو کر لیجئے‘ تھوڑی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ڈھاکہ (مشرقی چمپارن) میں جہاں آپ کی آبادی 34%ہے وہاں بھی2015میں جیت کا مارجن زیادہ نہیں تھالہٰذا مستقل کوشش درکار ہے۔ سکتا (بھاگلپور)اور نر کٹیا (مشرقی چمپارن)میں ملی آبادی 30% ہے’جبکہ سکتی (ارریہ) اورکیوٹی (دربھنگا)دونوں انتخابی حلقوں میں آپ 31% ہیں‘ باج پٹی (سیتا مڑھی) میں 33% ‘ جالے (دربھنگا) میں 32%۔ پھر بھی سکتا‘ نرکٹیا اور کیوٹی میں آپ کی پسند کا امیدوار2015 میں جیت گیالیکن سکتی‘ باج پٹی اور جالے میں نہیں جیتا‘ یہاں سکتی باج پٹی اور جالے والوں کے لئے سکتا: نرکٹیا اور کیوٹی والوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ پری ہار‘ سیوان‘ کٹیہار‘ دربھنگہ‘سگولی‘ بہار شریف‘ چھاتاپور‘ رکسول‘ گیا شہر‘ چٹپٹیا‘ لوریا‘ بانکا‘ سارن میں قابل قدر آبادی کے باوجود 2015 میں آپ کی پسند کا امیدوار نہیں جیتا کیونکہ بہت سے لوگ ووٹ دینے نہیں گئے اور جو ووٹ پڑے وہ بٹ گئے‘ اب کی خاص خیال رکھئے گا۔ کیا اکثر افراد اپنی اپنی ذاتی اور خاندانی معاشی سازباز میں اتنالگے ہوئے ہیں کہ چاہے ملت کی موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلیں تبا ہ کیوں نہ ہو جائیں لیکن ان کے پاس ملت کی بقا کے لئے وقت نہیں ہے؟ یاد رکھئے افراد کا وجود مجازی ہے اور ملت کا وجود حقیقی ہے۔ اگر آپ اپنی ملت کو زندہ سمجھتے ہیں تو آپ کو اس کی خاطراپنی دنیا خود پیدا کرنی ہے‘ جس کے لئے آپ کو صرف معمولی سی توجہ ہی توکرنی ہے۔ آپ چاہیں تو چمنستان کی ہئیت بدل سکتے ہیں‘ آپ کی ہستی بینا ہے‘ دانا ہے‘ توانا ہے۔ ووٹنگ سے قبل کے ایام میں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے اورووٹروں کو گائڈ کرنے کی طرف توجہ دینی ہے۔
2015 کے بہار اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 24.4% تھا‘ جے ڈی یو کا 16.4% اور لوک جن شکتی پارٹی کا 4.8% تھا اور ان تینوں کو جوڑ کے 125 سیٹیں ملی تھیںجبکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو ملا کے ان کا اوسط ووٹ شیئر 20.4% تھا۔ آر جے ڈی کا ووٹ شیئر 18.4% تھا اور کانگریس کا 6.7% تھا‘ ان دونوں کو جوڑ کے 107 سیٹیں ملی تھیں۔ اس سے قبل 2010 کے بہار اسمبلی الیکشن میں جنتادل یونائٹڈ اور بی جے پی کو مشترکہ طور پر 206 سیٹیں ملی تھیں یعنی 84% سیٹیں‘ جبکہ جنتا دل یونائٹڈ کو 22% ووٹ ملے تھے اور بی جے پی کو 16%‘ یعنی دونوں پارٹیوں کو ملا کے اوسط 19% ووٹ ملے تھے۔ اب اس پس منظر میں غور کریں کہ جن 54 حلقوں میں آپ کا ووٹ 20-74% ہے وہاں اگر آپ متحد ہو جائیں تو ان 54 حلقوں میں تو جس کو آپ چاہیں گے وہی پارٹی جیتے گی۔ اس کے علاوہ 15-19% ووٹ والی 41 سیٹوں میں بھی آپ بے انتہا اثر انداز ہو سکتے ہیںاگر متحد ہو جائیں۔ باقی 93 سیٹوں میں آپ 10-14% ہیں اور وہاں آپ کا کیا اثر ہو سکتا ہے اس پر منحصر ہو گا کہ آپ ایک طاقت کے طور پر کیا لائحہ عمل تیار کرتے ہیںاور اس کا نفاذ کس حد تک اور کس انہماک سے کرتے ہیں۔ ادھر ٹکٹ لینے والے اور ان کے حامی صرف یہ نہ سوچیں کہ انھیں ذاتی طور پر خودجیتنا یا کسی کوجتانا ضروری ہے بلکہ یہ سوچیں کہ ملی جیت کس میں ہے۔ ملک کے باقی صوبوں میںبھی آنے والے بہار اسمبلی الیکشن کی صرف پگڈنڈی پرنظر ہی نہیں رکھنی ہے بلکہ جوبھی لوگ پہلے سے وہاں جا کر قیام کر کے ووٹروںسے مل کے گفتگو کے ذریعہ حتی الامکان ہموار اتحادکو فروغ دیں تو اس سے بھی مثبت فرق پڑے گا۔ دہلی اسمبلی الیکشن 2017میں میڈیا کی یکساں رپورٹ تھی کہ 75-80% آپ نے متحد ہو کر ووٹ دیا۔ اسی طرح بہار میں بھی حکمت عملی کے ساتھ ووٹنگ کرنی چاہئے۔
ہم خوب واقف ہیں کہ ملک میں آپ کو بے تکے منفی نکات میں الجھانے کا باقاعدہ پروگرام چل رہا ہے تا کہ آپ انھی میں پھنسے رہیں اور اپنے لئے بیحد ضروری طویل مدتی ترقیاتی ایشوز سے غافل رہیں۔ لیکن افسوس کہ ملت اگر باخبر ومتحد ہوتی ہے توصرف شادی کی بڑی دعوتوں اور مشاعروں میںشمولیت کے وقت۔ ثقافتی طور پر اپنے کو تازہ دم کرنا بھی اچھا ہے لیکن صرف گاہے بگاہے اوروقت کی موزونیت و مناسبت کے ساتھ نہ کہ اس کے غلبہ تسلط کا شکار ہو کر۔اس سماجی نقص طبع سے باہر آکربہار کی ملت چاہے تو آنے والے الیکشن کا چیلنج قبول کر کے تدبیر کا استعمال کرتے ہوے ملی وقار کی بازیابی کے ذریعہ پورے ملک کے سامنے مثال بن سکتے ہیں۔ اور اگر اب بھی یہ نہیں کیاگیا تو غالباً بقول اقبال اپنی مجلس شوریٰ میں ابلیس نے اپنے ساتھیوں سے ملت اسلامیہ کے متعلق صحیح خطاب کیا تھا کہ:
ہے وہی شعرو تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات