پروفیسر محسن عثمانی ندو ی
علوم نہیں مسلمانوں کے باشعور طبقہ کو بھی اس بات کا احساس ہے یانہیں کہ سرزمین ہندمیں ان کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ اکھڑتی جارہی ہیں۔مسلمانوں کا سب سے بڑا خیمہ جسے قلعہ کہنا چاہئے دینی مدارس تھے اب ان کے بند ہںونے کی خبریں آرہی ہیں،یہ اسلامی قلعے آہستہ آہستہ زمیں بوس ہںورہںے ہیں ۔ مسلمانوں کا ایک بڑا خیمہ مسلم پرسنل لابورڈ تھا ،کئی سال سے نہ اس کا سالانہ جلسہ ہںوا ہںے نہ کوئی نیا انتخاب نہ اس کی کار گذاری نہ کوئی نقل وحرکت نہ کوئی بیان نہ کوئی اعلان، کچھ اپنی غلط اندیشی کچھ حکومت کی دشمنی کی وجہ سے چاروں خانے چت ۔حالات کا دباو اتنا سخت ہے کہ نہ کہیں فکر امروز ہے نہ اندیشہ فردا کا سراغ ہے ۔ تبلیغی جماعت مسلمانوں کی سب سے بڑی اصلاحی اور تربیتی جماعت تھی، اب نظام الدین میں اس کا دروازہ مقفل اورسارا کام معطل ہںو چکا ہںے، وہاں سے اب نہ کوئی جماعت جاتی ہے نہ وہاں آتی ہںے ، جو جماعتیں آئی تھیں ان پر عدالتوں میں مقدمات درج ہیں،حکومت نے جو چارج شیٹ داخل کی ہے اورتبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد سے حکومت نے جو منقمانہ سوالات کئے ہیں ویسے سوالات آج تک کسی تنظیم سے نہیں کئے گئے ان سوالات کا جواب آسان نہیں یعنی اب برسوں تک جماعت کے ذمہ دار کو الجھا کر رکھنا ہے اور تبلیغی سرگرمیوں کولا محدود مدت تک بندر کھنا ہے، نظام الدین کی تبلیغی جماعت کی جو متوازی تبلیغی تنظیم ہے جسے شوری گروپ کہا جاتا ہے اس نے بھی خود کوحالات کی وجہ سے تقریبا لاک ڈاون کرلیا ہے ۔ دار المصنفین بہت اہم علمی اور تصنیفی ادارہ ہے اس کا سفینہ گرداب میں ہے ،ندوہ اور دیوبند کے بارے میں نہ جانے کب کیا خبر آجائے ،مسلمانوں کے سارے ادارے موت اور زیست کی کشمکش سے دوچار ہیں،خوف کا یہ عالم ہے کہ محض استمالت کے لئے اورمحض اظہار وفاداری کے لئے ایک شہر میں عیدین کے امام کے ایک مدرسہ میں مسٹر مودی کے خم ابرو کودیکھ کراور نگاہ خشمگیں سے ڈر کر اور خاطر داری اور خوشنودی کے لئے تھالیاں بجائی گئیں اور دیپک جلائے گئے اور حکومت کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کے لئے جلسہ کا انعقاد ہوا ،اب امت کا سفینہ موج حوادث کی زد میں ہے ، خزاں نے مسلمانوں کے ایک ایک چمن پر چھاپہ مارا ہے، خوف ہںے کہ مسلمانوں کی دینی تعلیمی ادارے یادگا رونق محفل بن کر رہ جائیں گے جن کاذکرآئندہ تاریخ کی کتابوں میں ہںوگا اور مسلمانوں کی تہذیبی آثار کو دیکھ کر غم وحسرت کے ساتھ ،دیدہ گریاں کے سا تھ کوئی شخص اقبال کا یہ شعر پڑھے گاآگ بجھی ہںوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھرنہ جانے اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواںایسا لگتا ہںے مسلمانوں میں نہ کوئی مفکر ہے نہ دانشور، نہ کوئی منصوبہ سازقائد، نہ حالات کا تجزیہ نگار مبصر، اور نہ قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں رہنمائی کرنے والا کوئی عالم دین ۔ البتہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی قامت کی درازی ثابت کرنے کے لئے اپنے نام کے ساتھ القاب کا طرہ پُرپیچ وخم لگاتے ہیں ، صورت حال یہ ہے کہ دہلی میں سڑکوں کا نام تک بدلا جارہا ہے شہروں کے نام جن سے اسلامیت کی خو اور بو آتی تھی منسوخ کئے جارہے ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اورمسلم یونیورسیٹی علی گڑھ کا تاریخی اور اسلامی کردار بھی اب اس دھوپ کی طرح ہے جو آفتاب کے ساتھ جاتی ہںے ۔بابری مسجد جس پر اب دیدہ خونابہ بار کے آنسو کبھی نہیں رکیں گے تاریخ کے اوراق کے حوالہ ہںے ، چار مینار کے شہر میں ایک مینار نما شخصیت ہںے مگر وہ کب تک اور اس کی درازیاں کب تک ۔درسگاہ جہاد وشہادت کا ایک تناور درخت تھا جو آخری دم تک تیزوتند ہواوںکا مقابلہ کرتا رہا آخر کار وہ بھی پیوند زمیں ہوگیا،اس کا بیٹا ناصر بن نصیرصید زبوں ہںے، اسیر زنداں ہںے ، جو باپ کے جنازہ میں بھی شریک نہیں ہںوسکا۔ عہد حاضر کے سب سے بڑے محدث بلکہ امیر المومنین فی الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ کہا کرتے تھے ’’ اس وقت ہندوستان میں مسلمان مکی دور سے زیادہ سخت حالات سے گذر رہںے ہیں وہاں مکہ والوں کے پاس حکومت نہیں تھی فوج نہیں تھی ، بس قبائل تھے جواپنے بل بوتے پر مخالفت کرتے تھے ، یہاں پوری حکومت ہںے فوج ہںے ، سازشیں ہیں منصوبے ہیں ، اس لئے بہت احتیاط سے رہنے کی ضرورت ہںے ‘‘( شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری مرتبہ محمود حسن حسنی ندوی ص ۳۰۵) موجودہ ہندوستان کے بارے میں اقبال کا شعر صادق آتا ہںےدیو استبداد ہے جمہوری قبا میں پایہ کوبتو سمجھتا ہںے یہ آزادی کی ہںے نیلم پریواقعہ ہںے کہ یہاں گجرات اور دیگر فسادات میں مسلمانوں پر جو گذری وہ مکّی زندگی کے مصائب سے زیادہ ہںے ۔وہ ہندوستان جس کے چپّہ چپّہ پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں اس کو ہندو استھان بنا یا جارہا ہںے جب مسلمانوں کی عزت اور عظمت کی تمام نشانیاں اس ملک میں مٹادی جائیں گی اور صرف کھنڈرات باقی ر ہ جائیں گے اور اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی تومستقبل کے سیّاحوں کے لئے جو گائیڈ ہںوگا وہ تاریخ کا حوالہ دے کر کہے گاچمن میں تخت پر جس دم شہ گل کا تجمل تھاہزاروں بلبلیں تھیں باغ میں اک شور تھا غل تھاکھلی جب آنکھ نرگس کی نہ تھا جز خار کچھ باقیسناتا باغباں رورو یہاں غنچہ یہاں گل تھامستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سمجھیں ، اگر ہم اپنی غلطیوں کونہیں جانیں گے توصحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکیں گے۔ہمارے قائدین نے غلطی کو نہیں سمجھا۔ غلطی کو چند لفظوں میں بیان کریں تو ہم کہیں گے کہ اسلام جو ایک دعوتی مشن تھا اس کی گاڑی پٹری سے اترگئی ہںے یہاں کوئی شخص پوچھ سکتا ہںے گذشتہ صدیوں میں آخر جو اسلامی خدمات انجام دی گئیں وہ آخرکیا تھیں ،اان کا تعلق دعوتی مشن سے کیا نہیں تھا ۔ ذیل کی چند سطروں میں علماء دین کی ان خدمات کا ذکر کیا جارہا ہںے جو ہماری تاریخ کا جلی عنوان ہیں ۔بلا شبہہ ہندوستان مسلمانوں کی دعوتی تجدیدی اور اصلاحی کوششوں کا مرکز رہاہے ہندوستان کی اسلامی تایخ کے ابتدائی دور میں کاروان اہل دل نے اسلام کی اشاعت کا کام کیا اور ہزاروں اورلاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوے مسلم سلاطین کی سرپرستی میں یہ ملک مسلمانوں کے لئے گلشنِ بےخار بن گیا ۔یہ داستان فصل گل راقم سطور نے اپنی کتاب “دعوت اسلام، اقوام عالم اور برادران وطن کے درمیان ‘‘ میں بڑی خوش دلی اور فرحت وانبساط کے ساتھ بیان کی ہے ۔ہندوستان میں مشائخ روحانی اور علماء ربانی کے ذریعہ اور ان سے پہلے مسلمان تاجروں کے ذریعہ یہ کام انجام پایا۔ایک عرصہ کے بعد علماء دین نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے قدیم مذاہب اور تہذیبوں کے خیالات وعادات بھی مسلمانوں پر اثر انداز ہور ہے ہیں اس لئے دعوتی اور تبلیغی کام کا رخ حفاظت دین اور تطہیر عقائد، رد بدعات واصلاح رسوم کی طرف مڑ گیا ۔یعنی اب دفاعی نوعیت کے کام کی طرف مسلمان علماء متوجہ ہںوگئے ۔دعوتی کام یا اقدامی نوعیت کا کام پس پشت چلا گیا ۔اس وقت سے لے کر اب تک بحیثت مجموعی مسلم علماء اور قائدین کے کام کا رخ یہی رہا ہے ،بعد میں سیاسی تحریکیں بھی مسلمانوں میں اٹھیں لیکن برادران وطن کے درمیان دعوتی فکر کا زمانہ واپس ہی نہیں آیا ۔ صورت بایں جا رسید کہ دیوی دیوتاوں کی کثرت اور ان کی عبادت اور شرک کے طوفان کو دیکھ کر بھی اہل دین میں وہ بے چینی پیدا نہیں ہوئی جو ہںونی چا ہئے اور جو پیغمبروں کو ہوتی تھی اور جس کا ذکر بار بارقرآن میں آیا ہںے کہ کیا آپ ان ( مشرکوں )کے ایمان نہ لانے سے خود کو ہلاک کرڈالیں گے۔ انسان فورا عملی اقدام نہ کرسکے یہ بات قابل معافی ہے لیکن شرک کی گرم بازاری کو دیکھ کر دل کی بے چینی کا نہ ہونااور صرف مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام پر مطمئن ہوجانا ایمان کے کمزور ہںوجانے کی علامت ہے ،دل کی بے چینی اگر ہںوگی تو انسان سوچے گا اور کام کا منصوبہ بنائے گا لیکن شرک کے طوفان اور کفر کے سیلاب کو دیکھ کوئی پریشانی دل کونہ ہو یہ ایمان کی صحت مندی کی علامت نہیں ۔ہندوستان میں مسلمانوں کا ابتدائی دور دعوت وتبلیغ کا دور رہا ہںے اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کے سارے ابواب یا تو سیاست وحکومت کے ابواب ہیں یا علماء کی جانب سے حفاظت دین کے ابواب ہیں، حفاظت دین کے ا بواب میں علم حدیث کی ترویج واشاعت اور ان کی تدریس کا کام بھی ہے اور طریقت کو شریعت پر ترجیح دینے کے فلسفہ اور وحدۃ الوجوداور وصول الی اللہ کے غیر اسلامی طریقوں کے خلاف جہاد بھی ہے جس کی نمائندگی امام ربانی اور مجدد الف ثانی کرتے ہیں حفاظت دین کے ابواب میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کی اشاعت اور قرآن وسنت سے براہ راست واقفیت کی تحریک بھی ہے اوراس باب کا معروف نام اور جلی عنوان حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کا خانوادہ ہے جنہوں نے قرآن مجید کے ترجمے کئے ،صحاح ستہ کے درس کو رواج دیا ۔حفاظت دین کے ابواب میں مشرکانہ عقائد وتہذیب اور بدعات ورسوم کے مقابلہ کی تحریک بھی ہںے جس کی نمائندگی سید احمد شہید اور حضرت اسماعیل شہید کرتے ہیں ۔ حفاظت دین کے ابواب میں مدارس دینیہ کا قیام اور علوم دینیہ کی اشاعت کا کام بھی ہںے جس کا دور دار االعلوم دیوبند سے شروع ہوتا ہںے جس کے بانی مولانا قاسم نانوتوی تھے۔ حفاظت دین کے ابواب میں مسلمان عوام وخواص تک اور شہر ودیہات تک دین کی بنیادی باتیں پہونچانے کی تحریک بھی ہںے جس کے قائد مولانا الیاس کاندھلوی تھے ،حفاظت دین کے ابواب میں مسلمانوں میں روحانیت پیدا کرنے اور عشق الہی کی چنگاری کو شعلہ بنا دینے کا کام بھی ہے جو خانقاہوں نے انجام دیا آخر زمانہ میں یہ کام سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ذریعہ انجام پایا ۔ حفاظت دین کے ابواب میں مغربی تہذیب ، کمیونزم اور الحاد کے مقابلہ اور مسلمانوں کو احساس کمتری سے بچانے کی تحریک بھی ہںے جس کی قیادت علامہ اقبال اور مولانا ابو الاعلی مودودی نے کی ۔ حفاظت دین کے ابواب میں اردوزبان میں اعلی درجہ کے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا کام بھی ہے جس کی سربراہی علامہ شبلی اور ان کے شاگردوں نے کی ہے حفاظت دین کے ابواب میں سائنس اور مذہب کی کشمکش میں مذہب کی طاقتور حمایت کا کام بھی ہںے یہ کام ڈاکٹر رفیع الدین ، مولانا عبدالباری ندوی اور وحید الدین خان نے بہتر طور پر انجام دیا مسلمانوں کی حفاظت کے ابواب میں مسلمانوںکو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کا کام بھی ہے جسے سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء نے انجام دیا ۔ یہ سب ہندوستان کی تاریخ میں ہمارے کاموں کا مختصرطائرانہ منظرنامہ ہںے۔ یہ سارے کام مسلمانوں میں دین کی اشاعت کے کام بھی تھے اور دفاعی نوعیت کے کام بھی انہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس پوری تاریخ میں برادران وطن تک دین توحیدکی اشاعت کے کام کا خلا ہے بہت مختصر طور بات کہی جائے تو اس طرح کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ بحیثیت مجموعی مشرکین کو دعوت الی اللہ دینے کے بجائے پُشتینی مسلمانوں کو رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کی تاریخ ہے یا مسلمانوں کو فکری اورنظریاتی حملوں سے بچانے کی تاریخ ہے۔ ابتداء میں مسلمان تاجروں خاص طور پر چشتی سلسلہ کے بزرگان دین نے دعوت دین کا جو شاداب درخت لگایا تھا جو برگ وبار لایا تھا وہ بعد میں خزاں رسیدہ بن گیا اور مسلمانوں کو آج جن حالات سے سابقہ پڑ رہا ہے وہ دعوت کے اسی بنیادی کام کے چھوٹ جانے کی وجہ سے پید ہںوۓ ہیں دعوت کے بنیادی کام سے مراد وہ کام ہے جو پیغمبروں کی کوششوں کا محور رہا ہںے ۔ یہ کام بںے توجہی کا شکار کیوں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان علماء کے سامنے نمونہ حجاز کی سرزمین تھی اور خلافت کی مرکزی حکومت تھی وہاں دعوت کا یہ کام نہیں ہوتا تھا وہاں یہ کام اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ وہاں غیر مسلم تھے ہی نہیں جو غیر مسلم چھوٹی سی اقلیت میں تھے وہ ذمی کی حیثیت سے رہتے تھے لیکن جہاں مسلمان ایسی سرزمین میں رہتے ہوں جہاں غالب اکثریت غیر مسلموں کی ہںو وہاں نمونہ قرن اول کی مکی زندگی ہںے اس زندگی کو مسلمانوں نے اپنا نمونہ اسپین ہںو یا سسلی یا ہندوستان کہیں نہیں بنایا اور کہیں دعوت کا کام نہیں کیا ۔ حالات کے رخ کو اگر اپنے فائدہ اور غلبہ کی طرف موڑنا ہے اور پیغمبروں کے اسوہ پر عمل کرنا ہے اور آخری پیغمبر ﷺ کی زندگی کو نمونہ بنانا ہںے تو ہمیں دعوت کا نیامحاذ اس ملک میں قائم کرنا ہوگا۔کہ یہی انبیاء کا اصل محاذ ہے ، اس ضروری اور بنیادی کام کی طرف جو تمام انبیاء کرام کا اور پیغمبر آخر الزمان ﷺکا اصل کام رہاہںے سب سے زیادہ توجہ اس دور میں( لٹریچر کی اشاعت کی حد تک) جماعت اسلامی نے کی ہںے کہ اس نے ہندوستان کی تمام زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کئے اور اسلامی لٹریچر تیار کیا۔غیر مسلموں میں کام کے اس خلا کی طرف علماء کو متوجہ کرنا مشکل اس لئے ہںے کہ علماء حقیقت پسندی سے زیادہ عقیدت مندی کا مزاج رکھتے ہیں ہر مسئلہ میں وہ اس طرح سوچتے ہیں کہ واقعی یہ کام ضروری ہںے تو ہمارے بزرگوں نے کیوں نہیں کیا ۔ ہندوستان کے علماء میں اس کام کی ضرورت کا سب سے زیادہ احساس مولانا ابو الحسن علی ندوی کو تھا کہ سیرت کا مطالعہ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا انہیں برادران وطن کے درمیان کام کے خلا کاشدت کے ساتھ احساس تھا اور یہ احساس ہر اس شخص کو ہونا چاہئے جس نے انبیاء کرام کا اورسیرت نبوی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہںو، انبیاء اکرام پر ان کی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن ہے اورسیرت نبوی پر ان کی ایک نہیں متعدد کتابیں عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ہیں، اللہ تعالی نے انہیں حکمت نبوی کا خوشہ چیں بھی بنایا تھا انہیں محسوس ہوا کہ قرن اول میں صحابہ کرام اور مشرکین مکہ کے درمیان روابط اور تعلقات موجود تھے رشتہ داریاں بھی تھیں اور لسان قوم بھی ایک ہی تھی، سب ایک دوسرے کے شناسا تھے،اس لئے دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ہندوستان میں تعلقات کا یہ سارا پلیٹ فارم جس پر دعوت کی بنیاد رکھنی تھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اس لئے پہلے اہل وطن کو مانوس کرنے اور اسلام اور مسلمانوں سے ان کی اجنبیت دور کرنے کی ضرورت ہے اس لئے سوچ سمجھ کر انہوں نے پیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی اور پورے ہندوستان میں شہر بشہر جلسے کئے اور برادران وطن کو خطاب کیا، مولانا عبد الکریم پاریکھ ان کے رفیق اور معاون خاص تھے ۔تصنیف وتالیف کے علاوہ دینی تحریکات کی رہنمائی مولانا کا میدان تھا،مولانا علی میاں کی سرگرمیاں عرب وعجم تک پھیلی ہوئی تھیں ، ان سب کے ساتھ ہندوستان برادران وطن سے مسلسل خطاب۔ اس قد وقامت کی کوئی شخصیت برصغیر میں ماضی میں اور حال میں معاصرین میں اور متقدمین میں نہیں ملتی ہے ۔ہجرت حبشہ کے زمانہ میں حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے دربار میں دین اسلام کا جو تعارف کرایا تھا اسے غور پڑھئے انہوں نے کہا تھا’’اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے ہمسایوں کو ستاتے تھےبھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا زبردست زیر دستوں کوکھا جاتے تھے اس اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہںوا س نے ہم کو سکھایا کہ ہمپتھروں کو پوجنا چھوڑدیں سچ بولیں خونریزی سے باز آئیں یتیموں کا مال نہ کھائیں ہمسایوں کو آرام دیں ۰۰۰ ‘‘یہ ہںے دعوت اسلام کی تصویر اور مکی زندگی میں مسلمانوں کے کاموں کی جھلک ۔کوئی شخص انصاف سے بتائے کہ کیا ہماری تصویرہندوستان میں اس تصویر کے مطابق ہںے یا ماضی میں اس کے مطابق رہی ہںے اور اگر نہیں ہے تو ہم یہ حکم لگانے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام کی گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے اور صدیوں سے اتر گئی ہںے ۔ آج بتوں کو پوجنے سے روکنا کتنا مشکل ہوگیا ہںے اس لئے کہ جب روکنا اورلوگوں کو سمجھاناآسان تھااورہماری حکومت تھی اس وقت ہم نے یہ کام نہیں کیامسلمانوں کی اس ملک میں بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں بہت سے دار العلوم اور تعلیمی ادارے موجودہیں اگر ان کی تعداد کئی گنی ہوجائے اور ان کے کاموں کا دائرہ کئی گنا وسیع ہںوجائے جب بھی صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوگی جب تک کہ اس غلطی درست نہیں کیا جائے جو ہم کئی سو سال سے کرتے آرہںے ہیں بحیثت ہم نے دفاعی نوعیت کے کام انجام دیئے ہیں ہم نے مسلمانوں کی اصلاح کی تحریکیں اٹھائی ہیں ان کی افادیت اپنی جگہ پر لیکن یہ وہ مکمل دعوتی کام نہیں ہںے جو انبیاء نے انجام دیا ۔برادران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کا کام اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کام جو دعوت اسلام کا پہلا زینہ ہے فوراً شروع کرنے کی ضرورت ہںے یہ کام صرف کسی ایک ادارہ اور تنظیم کے کرنے کا نہیں ہے اورنہ اس کی کوئی ایک متعین شکل ہںے اس کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں ’’ہر گلِِ را رنگ وبوئںے دیگرست‘‘جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین سے استدعا ہںے کہ وہ اپنے کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دیں اور ان کے معتقدوں نے انہیں جس فلک چہارم کی زرکار کرسی پر جلوس افروز کردیا اس سے نیچے اتریں اور ہم جیسے فقیر راہ نشیں اور غم امروز و فردا سے رنجور وحزیں شخص کی بات بھی سن لیا کریں ۔ اس وقت برادران وطن کے سماج میں فجاسوا خلال الدیار کے انداز میں ہر دروازہ پر دستک دینے کی ضرورت ہے ہر شخص کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہںے اور ہر مسلم تنظیم کو اس بات کو حرز جان بنانے کی ضرورت ہںے کہ سب کے ساتھ الفت ومحبت سے پیش آنا بلا تفریق مذہب سب کے ساتھ انصاف کرنا اور مخلوق خدا کی نفع رسانی کے لئے سرگردان ہںونا اس کی بڑی فضیلت ہے اور اللہ کے نزدیک یہ محبوب عمل ہںے ۔ مولانا علی میاں نے اگرپیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی تھی تو خدمت خلق کے عنوان سے دوسری جگہ دوسری تحریک شروع ہوسکتی ہے ۔ مقصد ایک ہے برادران وطن کے دلوں کو جیتنا اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا اور روابط کے استحکام کے بعد دین توحید کوان کے دلوں تک پہونچانا ۔ یہ کام مسلم دور حکومت میں آسان تھا اور اب ہندو احیائی تحریکوں کے عروج کے زمانہ میں مشکل ہوگیا ہںے ظاہر ہںے اس کام کا اجر بھی اب زیادہ ہوگیا ہے لیکن اب بھی تعلقات اور مراسم استوار کئے بغیر یہ کام نہیں انجام پاسکتا ہںے، کوششوں کا اتنا فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ نفرتیں کم ہںوں گی اور اگر روابط مضبوط ہںوجائیں گے تو جانے کتنے کیمیاگر داعی ہوں گے جن کی کوششیں رنگ لائیں گی اور جو کسی یار مہرباں کے بارے میں کہیں گےلائے اس بت کو التجاء کر کےکفر ٹوٹا خدا خدا کر کےضروری ہںے کہ یہ دعوتی شعور عام ہںو اور مسلمانوں کا ہر مدرسہ چھوٹا ہںو یا بڑا’’ لسا ن قوم‘‘ میں مہارت والے علماء تیار کرنے کی کوشش کرے اور غیر مسلموں سے مکالمہ کی اور ان کے درمیان لسان قوم میں تقریروں کی مشق طلبہ کو کرائے۔ برادران وطن کی تہذیب اور ر مذہب کے مطالعہ کو کورس میں داخل کرے ۔اور صرفایسے ہی مدارس کو اہل شعور کا اور بالغ نظر علماء کا مدرسہ سمجھا جائے ۔صحاح ستہ پڑھانے والے علماء اور شیوخ الحدیث کو بھی یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اصل حدیثی خصوصیت جو امت کو ملنی چاہئے وہ پیغمبرانہ دعوتی کردار ہںے جو آنحضرت ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی میں نظر آتا ہںے ۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔ جماعت تبلیغ کے بزرگوں کویہ بات دین اسلام کی روشنی میں کہنے کی تھی کہ تبلیغ کے چھ اصول اگرچہ کہ صحیح ہیں لیکن منزل من اللہ نہیں ہیں کہ ان میں معمولی تبدیلی بھی نہ ہوسکے ۔ غیر مسلموں کوبراہ راست دعوت نہ سہی اگر اکرام مسلم کے اصول کے ساتھ برادران وطن کے ساتھ خدمت خلق اور خدمت انسانیت کی ایک شِق کا اضافہ کرلیا جاتا تو آج تبلیغی جماعت کی بدولت لاکھوں غیر مسلم مسلمانوں کے قدراں ہںوچکے ہںوتے اورآج جو افسوسناک معاملہ تبلیغی جماعت کے ساتھ پیش آیاوہ پیش نہ آتا۔ لیکن ہندوستان کے مسلم قائدین نے گویا طے کر رکھا ہے کہ اپنی کسی غلطی کوتسلیم نہیں کریں گے۔اور غلطی پر غلطی کرتے چلے جائیں گے ۔

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں
دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...