Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

نامور شاعر وادیب ڈاکٹر حنیف ترین نہ رہے

by | Dec 4, 2020

hanif tarin

محمد نجیب قاسمی سنبھلی

مشہور اردو شاعر وادیب ڈاکٹر حنیف ترین صاحب جمعرات کی صبح وادی کشمیر میں واقع اپنی رہائش گاہ پر 69 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ موصوف کی انقلابی اور جذباتی شاعری خاص کر فلسطین اور دلتوں کے حوالہ سے اردو اور ہندی زبان میں ان کی نظموں کو عرصہ دراز تک یاد رکھا جائے گا۔

حالاتِ زندگی: ڈاکٹر حنیف ترین کی ولادت تاریخ شہر سنبھل کے سرائے ترین محلہ میں یکم اکتوبر 1951 کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم سنبھل میں حاصل کی، آٹھویں جماعت تک درسگاہ اسلامی (رامپور) میں تعلیم حاصل کرکے علی گڑھ کا رخ کیا۔ کشمیر کے ایک کالج سے MBBS کی تعلیم حاصل کرکے آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج سے منسلک ہوگئے تھے۔ تعلیم کے دوران ہی ڈاکٹر شمیم اختر(ایک کشمیری خاتون) سے شادی کرلی تھی جو خود بھی اس وقت MBBS کی طالبہ تھیں۔ ڈاکٹر حنیف ترین 1984 میں سعودی عرب چلے گئے جہاں وہ سعودی حکومت کے ادارہ صحت سے طویل عرصہ تک منسلک رہے۔ تیس سال سعودی عرب میں گزارنے کے بعد 2014 میں سعودی عرب سے واپس دہلی میں رہائش پذیر ہوکر دہلی کے مختلف ہسپتالوں میں طبی خدمات انجام دیتے رہے۔ چند سالوں سے جامعہ نگر نئی دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں اپنی کلینک چلا رہے تھے۔ موصوف گزشتہ چند ماہ سے کینسر مرض میں مبتلا تھے۔ اس دوران انہیں سرجری کے عمل سے بھی گزرنا پڑا۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ تک دہلی میں ہی مقیم تھے، لیکن آب وہوا کی تبدیلی کی غرض سے انہوں نے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا وہاں ان کی طبیعت بگڑی اور سری نگر کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ وہیں بروز جمعرات بتاریخ 17 ربیع الثانی 1442 مطابق 3 دسمبر 2020 کو 69 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ بعد نماز عصر جنازہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد سری نگر کے راول پورہ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ پسماندگان میں اہلیہ ڈاکٹر شمیم اختر کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بڑے صاحبزادے بھی ڈاکٹر (طبیب) ہیں، دوسرے صاحبزادے پیشہ سے انجینئر ہیں۔ ریاض میں مقیم ماہر تعلیم اور مشہور تاجر ڈاکٹر ندیم ترین صاحب کے موصوف رشتہ میں چچا زاد بھائی ہیں۔ جس وقت انہوں نے MBBS میں داخلہ لیا تھا شاید پورے شہر سنبھل میں کوئی MBBS ڈاکٹر نہیں تھا۔

شاعری سے شغف اور تعلق: موصوف جہاں ایک تجربہ کار طبیب (معالج) تھے، وہیں ایک کامیاب شاعر بھی تھے۔ انہیں شاعری سے بہت زیادہ شغف اور تعلق تھا، یعنی وہ شاعری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے، اسی لئے جس محفل میں جاتے وہاں اپنی شاعری سے لوگوں کے دل جیت لیا کرتے تھے۔ غرضیکہ ڈاکٹر حنیف ترین نے اردو زبان اور اردو شاعری کے تئیں اپنی زندگی وقف کردی تھی۔

سماجی زندگی: تنہا رہنا ان کے مزاج میں نہیں تھا، وہ جہاں رہتے ہمیشہ ادبی اور سماجی محفلیں سجاکر رہا کرتے تھے۔ ریاض (سعودی عرب) کے قیام کے دوران بھی وہ بہت زیادہ متحرک تھے۔ ریاض میں میرے گھر پر متعدد مرتبہ آپ تشریف لائے اور ہر مرتبہ اپنی کسی کتاب کا تحفہ عنایت کرنے کے ساتھ اپنا کلام بھی پیش فرماتے تھے۔ ان کا نہایت والہانہ انداز میں ملنا اور چہرے پر مسکراہٹ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ شعری محفلوں کے انعقاد اور ادب نواز حلقوں کو جوڑنے کے لئے ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ غرور وتکبر اور کینہ جیسی بیماریوں سے محفوظ زندگی بسر کرتے تھے۔ خاکساری ان کی شخصیت کی خاصیت تھی۔

شعری مجموعے: ڈاکٹر حنیف ترین نے تقریباً چالیس سال شاعری کی۔ اس دوران آپ کی ہزاروں نظمیں منظر عام پر آئیں۔ ’رباب صحرا‘، ’کتاب صحرا‘، ’کشت غزل نما‘، ’زمین لاپتہ رہی‘، ’ابابیلیں نہیں آئیں‘، ’زلزال‘، ’روئے شمیم‘، ’لالہ صحرائی‘ اور ’پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں‘ ان کے وہ شعری مجموعے ہیں جن میں ان کی فکر وفن کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی پر موصوف کی نظم ”باغی سچے ہوتے ہیں“ کافی مقبول ہوئی۔ اس نظم میں مظلوموں کے درد کو موصوف نے جس بے باکانہ انداز میں بیان کیا ہے وہ دوسرے شعراء وادباء کے لئے بہترین مثال ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی موصوف کی جرأت مندانہ کاوش نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔

ہندی شاعری: ہندوستان میں اردو زبان کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کے ساتھ موصوف نے اپنے جذبات اور خیالات کو ہر عام وخاص تک پہنچانے کی غرض سے اردو کے علاوہ ہندی زبان میں بھی چند سالوں سے شاعری شروع کردی تھی، جس کے نتیجہ میں ہندی زبان کے شعری مجموعے کی دو اہم کتابیں ”ستیہ میو جیتے“ اور ”دلت آکروش“منظر عام پر آئیں۔ ڈاکٹر حنیف ترین کی شاعری دراصل مجبوروں، مظلوموں، دلتوں اور کمزوروں کی آواز تھی۔ ان دِنوں دلتوں پر بہت کام کررہے تھے، ان کی شاعری کے مجموعہ”دلت کویتا جاگ اٹھی“ میں ان کے عزم کی عکاسی ہے۔

عربی اور انگریزی زبان میں شعری مجموعے: 1984 سے 2014 تک ڈاکٹر حنیف ترین کی زندگی کا تیس سالہ سنہری دور سعودی عرب میں گزرا۔ اس دوران اردو زبان میں ان کے مختلف مجموعے شائع ہوئے اور متعدد ادبی محفلوں کو منعقد کرکے دیار غیر میں بھی اردو زبان کی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ آپ کی شاعری عربی زبان میں بھی متعارف ہوئی، چنانچہ ”بعیداً عن الوطن“ اور ”لم تنزل الابابیل“ دو اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ انگریزی زبان میں بھی ان کی ایک کتاب ”دی ٹرتھ آف ٹیررزم“ کے نام سے شائع ہوئی۔

ایوارڈ اور انعامات: ڈاکٹر حنیف ترین کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو سعودی عرب میں مقیم اردو داں طبقہ اور مختلف ادبی انجمنوں اور سوسائٹیوں کی جانب سے جہاں آپ کو متعدد ایوارڈوں اور انعامات سے نوازا گیا، وہیں دہلی، یوپی اور بہار کے اردو اکیڈمیوں نے متعدد مرتبہ انہیں ایوارڑوں سے سرفراز کیا۔ملک اور بیرون ملک کے مختلف مشاعروں میں آپ کے پیش کردہ کلام کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ انہیں دنیا کے مقبول ترین شعراء میں شمار کیاگیا۔

نثر نگاری: گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کیا، چنانچہ ڈاکٹر حنیف ترین قادر الکلام شاعر کے ساتھ ایک بہترین کالم نویس کے طور پر ظاہر ہوئے۔ حالات حاضرہ پر مسلسل ان کے مضامین اردو اخباروں میں شائع ہورہے تھے۔ 3 دسمبر کی صبح 6 بجے موصوف نے آخری سانس لی اور اسی دن ان کا آخری مضمون ”نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج“ ہندوستان کے مختلف اخباروں میں شائع ہوا۔ جس وقت 3 دسمبر کو بعد نماز ظہر مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میں تصدیق کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کیونکہ ان کا شائع شدہ مضمون اخبار میں پڑھ کر آیا تھا۔ مگر اللہ کے فیصلہ کے سامنے ہر شخص کو سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ڈاکٹر حنیف ترین ایک سہ ماہی ادبی رسالہ کی اشاعت کے بھی خواہشمند تھے، جس کے لئے وہ کوشاں بھی رہتے تھے، مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور اس کی اشاعت سے قبل ہی وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ غرضیکہ انہوں نے شاعری کی طرح صحافت کے میدان میں بھی بہت جلدی وہ شہرت حاصل کرلی جو آسان نہیں ہے۔

آخر میں بارگاہ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے، انہیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور ان کے وارثین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...