کشمیر کا ہنر کشمیریوں کی تہذیب و ثقافت کا اٹوٹ انگ

مفتی منظور ضیائی چیئرمین علم و ہنر فاؤنڈیشن ممبئی
نشانِ جنت کہا جانے والا کشمیر جہاں کے لہلہاتے باغات سرسبز شادابی کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کے پھل دیتے ہیں اوراس خطے کی وہ پہاڑیاں جہاں لوگ ذہن ودماغ کو سکون پہنچانے کے لئے چھٹیوں میں جایا کرتے ہیں اس کی وہ جھیلیں جن کا پانی پی کر قلب کو طمانیت ملتی ہے، اس کی وہ لالہ زار وادیاں جہاں زعفران ،سیب ، انار، کاجو، اخروٹ وغیرہ کی کھیتی ہوا کرتی ہے یعنی وہ کشمیر جہاں فطرت کے خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور جس کے شہری انتہائی بااخلاق ،ملنسار،محنتی اور روحانیت کی مجسم تصویر کیے جاتے ہیں، اگر پرانے زمانے کی بات کی جائے تو ہزاروں سال قدیم کشمیری اپنے ہم عصر شہروں سے زیادہ ہنرمند قابل اور خوشحال تھے،ان کی جرات و بہادری سے تو ساری دنیا ان کی طویل جدوجہدِ آزادی کے سبب واقف ہیں اور آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی تحقیق کے مطابق کشمیر کے رہنے والے آج سے پانچ ہزار سال قبل پارچہ بافی اور ہاتھ سے بنائے جانے والی اشیاء کے ماہر کاریگر تھے، واضح رہے کہ آج بھی کشمیری دستکاری کی مصنوعات دنیا بھر میں مشہور ہیں اتنی امتیازی خصوصیات کی حامل یہ خوبصورت وادی گونا گوں مسائل سے دوچار ہے اس میں بے روزگاری اور معاشی حالات ناگفتہ بہ ہیں اور یہاں بے روزگاروں کی شرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے،ایک طرف لاکھوں لوگ بالخصوص نوجوان بے روزگار ہیں تو دوسری طرف مہنگائی عروج پر ہے،سماجی اور معاشی تانا بانا الجھاہوا ہے۔ سماج کا ہر طبقہ بھلے ہی اس کا اظہار نہ کرے لیکن اندر ہی اندر ایک بے یقینی، ایک خلش اورایک الجھن کا شکار ہے۔اگرچہ سرکاری ملازمین لاک ڈاون کے باوجود دیر یا سویر اپنی تنخواہیں حاصل کرلیتے ہیں لیکن نجی شعبوں میں کام کررہے نوجوانوں کی اکثریت نہ صرف تنخواہوں سے محروم ہیں بلکہ آئے دن روزگار سے ہاتھ دھورہے ہیں۔ یہاں معاشی ترقی اور کشکول توڑ دینے کے روایتی نعرے حقیقی سماجی حالات سے کسی طور پر میل نہیں کھا رہے ہیں اور اس میں دو رائے نہیں ہے کہ موجودہ دور میں بھی بےروزگاری کا خاتمہ کرنے کے لئے وادی میں شعبہ دستکاری جیسے وسائل کی فراوانی ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ نوجوان طبقہ نے ان وسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے،برسرروزگار، تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ہی کسی ملک اور قوم کی داخلی معیشت اور وقار کے استحکام کا باعث ہوتے ہیں۔بے روزگاری کسی بھی سطح پر ہو، یہ اولادِ آدم کا استحصال ہوتی ہے۔ استحصال اسی شکل میں تولد پذیر ہوتاہے جب ذرائع پیداوار مخصوص طبقات کی مٹھی میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں یا اس میں لوگوں کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وسائل، تعلیم، ذرائع اور ٹیکنالوجی کی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکارہے، یہاں قدرتی وسائل اور شعبہ دستکاری کو پشت بہ دیوار کرنے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور نوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پرائیویٹ اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے اور کشمیرمیں روزگار کے وسائل کی طرف اگر نظر دوڑائیں تو ماضی قریب تک کشمیر میں سرکاری ملازمتیں روزگار کا بنیادی وسیلہ نہیں تھا بلکہ عوام کی غالب اکثریت زراعت،باغبانی یادستکاری صنعت سے وابستہ تھی۔تاریخ کے ارتقاء نے کشمیر میں روزگار کانقشہ ہی بدل دیا ہے یہاں کے لوگوں نے اچانک سرکاری نوکریوں کو نہ صرف اپنے اور اپنی اولاد کیلئے منزل قراردینا شروع کردیا ہےبلکہ اپنی صدیوں پرانی روایات بالخصوص دستکاری شعبے کو یکسر نظرانداز کرنے لگے ہیں حالانکہ دستکاری کو کشمیرکی معیشت کا ایک بڑا سیکٹرتصور کیا جاتاہے اور اس شعبہ کی بدولت آج بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ روزگار سے جڑا ہوا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ کشمیر میں قالین بافی ، نمدے یا گبہ سازی، پیپر ماشی، اخروٹ کی لکڑی پر نقش و نگاری کا کام، شال بافی وغیرہ قدیم صنعتوں میں شامل ہیں ۔یہ دستکاری یہاں کی تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ ہے اور ان سے کشمیر کی الگ ایک پہچان ہے لیکن افسوس کہ ان دستکاریوں کی سرکاری طوربھی سرپرستی نہیں کی گئی !اس پر طرہ یہ کہ خود صدیوں سے اس صنعت سے وابستہ عوام نے بھی اس کو نہ صرف پس پشت ڈالا بلکہ اس کے ساتھ وابستگی کو اپنی توہین سمجھا جس کی بنا پر آج یہ صنعت اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ موجودہ وقت میں جو کاریگر اِن دستکاریوں سے وابستہ ہیں، اْن میں سے بیشتر اس لئے اپنی وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اِن دستکاریوں سے وابستگی انہیں اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر آج بھی اس صنعت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے گی تو نہ صرف روزگارپر آئے روز بادل منڈلانے کے خطرات کم ہوسکتے ہیں بلکہ بے روزگار لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے لئے آمدنی کا بہترذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔اور کشمیر میں گھریلوں دستکاری کو بڑھاوا دینا اورترقی دینا وقت کی اشد ضرورت ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہےکہ ہمارے یہاں روایتی پیشوں اور مجموعی طور محنت مزدوری کے تئیں ایک منفی سماجی رویہ بن چکا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق جموں وکشمیر میں محنت سے جڑے شعبوں میں تقریباً45لاکھ ہنرمند یا غیرہنرمند مزدور ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں روزمرہ کے کام جیسے باغبانی، کھیتی باڑی اور تعمیراتی کاموں میں غیرمقامی مزدوروں کا غلبہ ہے۔عمومی طور پر غیر ہنرمند اور ناخواندہ بیروزگار افراد کی بیروزگاری کا ذمہ دار ان کے ان پڑھ ہونے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر کشمیرمیں پڑھے لکھے بالخصوص گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بیروزگاروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔مرکزی حکومت دستکاری صنعت کو ترقی بخشنے کی ضرورت محسوس کرے تا کہ دستکاری کی بڑے پیمانے پر فروخت کو یقینی بنانے اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، فلپ کارٹ، ایموزون اور دیگر ایسی ہی خدمات سے جڑنے کیلئے اقدامات کرے تاکہ صدیوں پرانی کشمیری مصنوعات کو دنیا کے کونے کونے تک عالمی بازاروں میں پہنچایا سکے کیونکہ یہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد قدیم اور روایتی دستکاریوں سے جڑی ہوئی ہے اورضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کیے جاسکیں اس نے قالین بافی، پیپر ماشی، والنٹ ووڈ کارونگ، کریول، چین سٹچ ایمبرائڈری، ختم بند، نمدہ سازی اوردیگر صدیوں پرانی دستکاریوں کو تحفظ اور ترقی دینے کے لئے کوشاں ہونا ہوگا اس سے ہینڈی کرافٹس اور ہینڈلوم محکموں کو ایک مکمل رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دیں جس میں مصنوعات کے اقسام، دستکاروں کی تعداد بشمول نوجوانوں اورخواتین کی تعداد درج ہو تاکہ ان کشمیری مصنوعات کو عالمی بازاروں تک پہنچایا جاسکے مزید برآں مرکز دستکاروں کی ترقی اور اُن کا معیارِ حیات مزید بہتر بنانے کے لئے کئی اہم اقدامات کی ضرورت ہے اوراس دستکاری کی فروخت کے لئے ٹاٹا، ایموزون اور فلپ کارٹ سے جڑنے کے لئے پہل کو حتمی شکل دے ۔یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ صدیوںسے وادی کی دستکاری صنعت کو یہاں کے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے اپنی انگلیوں میں بھرے جادوئی ہنر سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اگر کشمیری شعبہ دستکاری کے تئیں سنجیدہ نہ ہوئے تو آنے والے وقت میں دھیرے دھیرے یہ صنعت دم توڑ دے گی اور کشمیر اپنی ایک شاندار شناخت سے محروم ہوجائے گا۔سرکاری منصوبے،بنکوں کے قرضے اور اسکیمیں اپنی جگہ لیکن اگر کشمیریوں نے شعبہ دستکاری کے وقار کو بحال نہ کیا تو یہ صورتحال ایک قومی بحران کی صورت اختیار کرلے گی۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتا ہے۔ہمیں اپنے نوجوان طبقے کیلئے ایک ایسا پیداواری ماحول بنانا ہو گا اور روزگار کے ایسے ذرائع فراہم کرنے ہوں گے کہ ہر تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان روزگار کے سلسلے میں اپنے ہی ماحول یا اپنے ہی گھرمیں رہنے کو ترجیح دے اس لیے یہاں کے نوجوانوں کو دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ دستکاری کے فوائد سے آگاہ کرنا لازم ہے اور شعبہ دستکاری کے وقار کو بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس شعبے سے وابستہ افراد کو عزت بخشنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ کشمیر میں میڈیم اور لارج اسکیل انڈسٹریز لگانے کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔موجودہ کاروبار جس میں فوڈ اینڈ بیکری، فرنیچر، اسٹیل ورکس، کرش مشینز،پولٹری فارمز اور ہوٹلز قابلِ ذکر ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا مصنوعات کے ساتھ ساتھ دیگر اور بھی صنعتیں قائم کی جاسکتی ہیں اور انڈسٹریل پالیسی بھی اس خطہ کی صنعتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس سے کشمیر میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور کشمیر معاشی طور پر ترقی کرے گا مزید برآں کہ قدرت نے کشمیر کو بے تحاشہ حسن سے نوازا ہے، جس کی وجہ سے اس جنت نظیر خطہ میں جہاں ایک طرف ٹورازم کے فروغ سے ملکی معیشت کو ترقی اور استحکام حاصل ہوگا وہیں دوسری طرف انڈسٹریل پالیسی سے معاشی حالات مستحکم ہوں گے اور مقامی طور پر صنعتوں کو ہنر مندوں کی فراہمی کے لیے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جن سے بآسانی صنعتوں کو مقامی اسکلڈ لیبر فراہم ہوسکے اور مرکز کشمیری صنعت و تجارت کے فروغ و ترقی کے لیے مقامی مصنوعات کو ملکی و غیر ملکی منڈیوں تک پہنچانے میں کافی سہولتیں فراہم کرے تاکہ یہاں کے لوگ ان سہولیات کا خاطر خواہ فائداٹھاتے ہوئے کشمیری مصنوعات کو ملک کے باقی حصوں میں با سہولت پہنچا سکیں نیز بیرونی ملک منڈیوں تک کشمیری مصنوعات کی رسائی ممکن ہوسکے۔