Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں پھنسی حکومت-کسان مذاکرات اور وسیع ہوتی کسانوں کی تحریک

by | Dec 6, 2020

kisan

نئی دہلی: حکومت اور مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے درمیان ہفتے کے روز پانچویں دور کی بات چیت بھی غیر نتیجہ خیز رہی۔ کسانوں کی تنظیموں کے قائدین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے پر بضد رہے اور اس معاملہ پر حکومت سے ہاں یا نہیں میں جواب طلب کرتے ہوئے انہوں نے میٹنگ کے دوران خاموشی اختیار کر لی۔ وہیں، تعطل ختم کرنے کے لئے مرکز نے 9 دسمبر کو ایک اور اجلاس طلب کیا ہے۔ تین مرکزی وزراء اور سینئر عہدیداروں کے ساتھ چار گھنٹے طویل بات چیت کے بعد، کسان قائدین نے کہا کہ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حتمی تجویز پیش کرنے کے کی غرض سے اندرونی گفتگو کے لئے مزید وقت طلب کیا ہے۔

مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ حکومت اجلاس میں موجود 40 کسان قائدین سے اپنے اہم خدشات پر ٹھوس تجاویز چاہتی تھی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کے تعاون سے کوئی حل نکالا جائے گا۔ کسانوں نے 8 دسمبر کو ‘بھارت بند’ کا اعلان کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پر راضی نہیں ہوئی تو، احتجاج کو تیز تر کر دیا جائے گا اور قومی دارالحکومت آنے والے مزید راستوں کو بند کر دیا جائے گا۔ ٹریڈ یونینوں اور متعدد دیگر تنظیموں نے بھی کسانوں کی اس تحریک کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔

اجلاس میں وزیر زراعت تومر نے کسان قائدین سے اپیل کی کہ وہ بزرگ، خواتین اور بچوں کو احتجاج کے مقامات سے گھر واپس بھیج دیں۔ تومر نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی قیادت کی اور ریلوے، تجارت اور خوراک کے وزیر پیوش گوئل اور وزیر مملکت برائے تجارت سوم پرکاش بھی اجلاس میں موجود رہے۔

اجلاس کے بعد وزیر زراعت نے کہا کہ حکومت نے کسانوں کو یقین دلایا ہے کہ کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر خریداری جاری رہے گی اور منڈیوں کو مستحکم بنایا جائے گا۔ تومر نے کہا، “ہم کچھ اہم معاملات پر کسان قائدین سے ٹھوس تجاویز چاہتے تھے لیکن آج کی میٹنگ میں ایسا نہیں ہوا۔ 9 دسمبر کو ہم دوبارہ ملاقات کریں گے۔ ہم نے کسانوں کو بتایا ہے کہ حکومت ان کے تمام خدشات کا خیال رکھے گی اور ہماری کوشش ہوگی کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔”

تومر نے کہا، “اگر وہ آج تجویز پیش کرتے تو یہ آسان ہوتا۔ ہم ان کے مشوروں کا انتظار کریں گے۔” تومر نے تحریک کے دوران کسانوں کی طرف سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر کسان تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔ تاہم انہوں نے احتجاج کی راہ ترک کرنے اور مکالمے میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کسانوں کے مفاد کے لئے ہمیشہ عہد مند ہے اور رہے گی۔

ذرائع کے مطابق، احتجاج کرنے والے کسانوں کی تنظیموں سے اہم ملاقات سے قبل تین وزرا نے وزیر اعظم نریندر مودی، راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ سے ملاقات کی اور احتجاج کرنے والے گروپوں کے سامنے رکھی جانے والی ممکنہ تجاویز پر تبادلہ خیال کیا۔

کاشتکاروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کو مزید تیز کر دیں گے۔ حکومت نے ستمبر میں نافذ ہونے والے تینوں زرعی قوانین کو زرعی شعبے میں ایک بڑی اصلاح قرار دیا ہے۔ وہیں، احتجاج کرنے والے کسانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئے قوانین کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) نظام کو ختم کر دیں گے۔ تاہم، احتجاج کرنے والے کسانوں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نئے قوانین ایم ایس پی اور منڈیوں کے خاتمے کا راستہ صاف کر دیں گے۔

وگیان بھون میں منعقدہ اس میٹنگ میں، کسان رہنماؤں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت ستمبر میں نافذ ہونے والے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے تو وہ اس میٹنگ کو چھوڑ دیں گے۔ وقفے کے دوران کسان قائدین نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھایا، انہوں نے جمعرات کو بھی ایسا ہی کیا تھا اور حکومت کی طرف سے کھانے کی پیش کش کو نامنظور کر دیا تھا۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پانچویں دور میں کسانوں کے وفد نے تقریباً ایک گھنٹہ تک خاموش اختیار کر لی اور تینوں نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے اپنے اہم مطالبے پر ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ میں جواب طلب کیا۔ اجلاس میں موجود کچھ کسان قائدین اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھے اور کاغذ پر ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ لکھے لکھ کر دکھاتے ہوئے نظر آئے۔

اس اجلاس کے بعد بی کے یو ایکتا (اُگراہاں) کے صدر جوگندر سنگھ اُگراہاں نے کہا کہ حکومت نے قوانین میں متعدد ترامیم کی پیش کش کی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا جائے۔ بھارتیہ کسان یونین (راجیوال) کے جنرل سکریٹری اونکار سنگھ اگول نے کہا کہ ہم مون برت پر تھے کیونکہ حکومت قانون واپس لینے یا نہیں لینے کے بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دے رہی تھی۔

آل انڈیا کسان سبھا نے ایک بیان میں مذاکرات کی طوالت کی مذمت کی ہے۔ تنظیم نے الزام لگایا کہ حکومت کارپوریٹ کے کہنے پر کام کر رہی ہے۔ ایک اور ذریعے نے بتایا کہ حکومت نے کاشتکاروں کے خلاف پرالی جلانے کے الزامات اور کچھ کسان کارکنوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کی پیش کش بھی کی۔

جمعرات کو بھی دونوں فریقوں کے مابین بات چیت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ مذاکرات کا پہلا دور اکتوبر میں ہوا تھا لیکن کسان قائدین نے اس کا بائیکاٹ کر دیا تھا کیونکہ اس میں کوئی وزیر موجود نہیں تھا۔ دوسرا دور کے مذاکرات 13 نومبر کو ہوئے تھے۔ اس کے بعد پنجاب اور ہریانہ کے ہزاروں کسانوں کے قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر ڈیرے ڈال دینے کے بعد مزید مذاکرات ہوئے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...