محض اشتہار کے لئے ڈاکٹر اے آر اندرے کو کسی نے بہت پہلے ہی مار دیا تھا

 دائیں سے: ڈاکٹر اے آر اندرے،جسٹس مارکنڈے کاٹجو،ڈاکٹر فاروق رحمن اور دانش ریاض کو بھی دیکھا جاسکتا ہے(فائل فوٹو معیشت)
دائیں سے: ڈاکٹر اے آر اندرے،جسٹس مارکنڈے کاٹجو،ڈاکٹر فاروق رحمن اور دانش ریاض کو بھی دیکھا جاسکتا ہے(فائل فوٹو معیشت)

دانش ریاض،معیشت،ممبئی
ممبئی کے مشہور سرجن ،سماجی کے ساتھ ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر اے آر اندرے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گولڈمیڈلسٹ ڈاکٹر اندرے نہ صرف کامیاب جراح(سرجن) تھے بلکہ انہوں نے بوریولی پنجتن میں کامیاب تعلیمی تحریک برپا کررکھی ہے۔رائل ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر سایہ آج سیکڑوں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔موصوف سے میری قربت اسی تعلیمی تحریک کو مضبوط کرنے کے حوالے سے شروع ہوئی تھی اور پھر کئی پروگراموں کے انعقاد میں میں ان کے ساتھ پیش پیش رہا۔غریب و یتیم بچوں کی تعلیمی کفالت کے حوالے سے وہ اکثر پریشان رہا کرتے تھے ۔چونکہ موصوف سیفی اسپتال میں ہی ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بھی تھے لہذا اکثر ملاقاتیں یا تو وہاں ہوتیں یا پھر ماہم میں واقع ان کے گھرصوفیا ہائٹس میں۔ایک روز جب میں دوپہر کے وقت اچانک ان سے ملنے گیا تو مجھے دیکھتے ہی اُبل پڑے، کہنے لگے آپ لوگ میرے قریب رہتے ہیں پھر بھی میرے تعلق سے سماج میں جو باتیں ہورہی ہیں اس سے آگاہ نہیں کرتے؟ میں نے پوچھا کہ آخر واقعہ کیا ہوا ہے کہ آپ پریشان ہوگئے ہیں ؟کہنےلگے لوگوں میں میرے انتقال کی افواہ پھیلائی جارہی ہے ۔لہذا میں نے ابھی آدھے پیج کا اشتہار روزنامہ انقلاب کو دیا ہےتاکہ لوگوں کو یہ علم ہوسکے کہ تعلیمی اور سماجی طور پر ابھی بھی میں متحرک ہوں۔میں نے پوچھا کہ آخر یہ بات آپ سے کس نے کہی ہے انہوں نے صحافت سے راندہ درگاہ خاتون کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی وہ آئی تھیں انہوں نے ہی یہ خبر دی اور مجھ سے آدھے پیج کا اشتہار لے کر گئی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اندرے نرم دل آدمی تھے ۔کسی کی مصیبت و پریشانی ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔میرے ایک غیر مسلم صحافی دوست بیمار پڑے ،انہیں آپریشن کروانا تھا ،چونکہ میں ان کی مالی حالت سے آگاہ تھا لہذا انہیں ڈاکٹر اے آر اندرےکے پاس لے گیا موصوف نے پوری کیفیت جاننے کے بعد کہا کہ ’’میں سیفی اسپتال میں بھی آپریشن کرسکتا ہوں لیکن یہاں چارجیز زیادہ لگیں گے بہتر ہے کہ آپ جے جے اسپتال چلے جائیں میں وہاں اپنے ایک دوست کے ذریعہ یہی آپریشن مفت میں کروادیتا ہوں ۔بالآخر ان کا آپریشن ہوا اور وہ آج تک ان کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سفر کا موقع بھی ملا،نجی محفلیںبھی سجیں اور بڑے پروگراموں میں بھی ساتھ رہا ۔ان کی شخصیت میں بے پناہ ٹھہرائو تھا۔غالب و اقبال کے چنندہ اشعار انہیں ازبر تھے جو موقع و محل کی مناسبت سے اکثر سنایا کرتے تھے۔جب بھی کوئی افسردگی کی بات کرتا یا ملت کا رونا روتا تووہ اقبال کا یہ شعر ضرور سناتے
آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہُوا
آسماں! ڈُوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت دے۔ان کے خطائوں سے درگذر کرے اوران کی نیکیوں کو قبول کرے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *